خبریں

سپریم کورٹ نے کہا؛ رافیل کی قیمتوں پر بحث تبھی ہوگی جب کورٹ کو محسوس ہوگا کہ ان کا عام ہونا ضروری ہے

 رافیل ڈیل: ایئر وائس مارشل چلپتی  نے سپریم کورٹ سے کہا، آئی اے ایف کو گزشتہ 33 سال سے  کوئی جیٹ ہوائی جہازنہیں ملا ہے۔

رافیل طیارہ(فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

رافیل طیارہ(فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے انڈین ایئر فورس کے لیے فرانس سے 36 رافیل ،جنگی طیارے خریدے جانے کے معاملے کی کورٹ کی نگرانی میں جانچ کے لیے دائر عرضیوں پر بدھ کو شنوائی شروع کر دی ہے۔ اس معاملے کی شنوائی چیف جسٹس رنجن گگوئی ، جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس کے ایم جوزف کی بنچ کر رہی ہے۔ شنوائی کے دوران ایئر وائس مارشل چلپتی نے کورٹ کو بتایا کہ سوکھوئی 30 آخری بار شامل کیے گئے ہوائی جہاز تھے۔ چونکہ ہندوستان کو فورتھ پلس جنریشن سے آگے کے ہوائی جہازوں کی ضرورت ہے، اس لیے رافیل ہوائی جہازوں کو منتخب کیا گیا۔

ساتھ ہی کورٹ نے یہ بھی پوچھا کہ کیا 1985 کے بعد کوئی بھی جیٹ ہوائی جہاز انڈین ایئر فورس میں شامل نہیں کیا گیا؟اس کے جواب میں ایئر فورس آفیسر نے کہا کہ نہیں ، گزشتہ 33 سالوں سے کوئی بھی جیٹ ہوائی جہاز شامل نہیں کیا گیا۔عرضیوں پر شنوائی کرتے ہوئے چیف جسٹس رنجن گگوئی نے کہا کہ رافیل ڈیل کی قیمتوں پر کوئی بحث تبھی ہوگی جب یہ کورٹ طے کرے گی کہ ان پہلوؤں کا عام ہونا ضروری ہے۔

واضح ہو کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ نے جانچ کو لے کر اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔

ان عرضیوں پر شنوائی شروع ہوتے ہی سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ این ڈی اے حکومت  نے یہ طیارے خریدنے کی کارروائی کے تحت درخواست مانگنے کے پروسس سے بچنے کے لیے بین حکومتی معاہدہ کا راستہ چنا ۔ انہوں نے کہا کہ اس سودے کے بارے میں فرانس حکومت کی جانب سے کوئی Official  گارنٹی نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ شروع میں مرکزی وزارت قانون نے اس مدعے پر اعتراض کیا تھا لیکن بعد میں وہ بین حکومتی معاہدے کی تجویز پر راضی ہوگیا۔ پرشانت بھوشن اپنی اور بی جے پی کے دو رہنما یشونت سنہا اور ارون شوری کی جانب سے بحث کر رہے تھے ۔

شنوائی کے دوران چیف جسٹس نے پرشانت بھوشن سے کہا کہ ہم آپ کو شنوائی کا موقع دے رہے ہیں ۔ اس کا احتیاط سے استعمال کیجیے ،صرف ضروری چیزوں کو ہی درج کروائیے ۔ پرشانت بھوشن نے عدالت سے کہا کہ حکومت پرائیویسی کی آڑ لے رہی ہے ، اس نے رافیل کی قیمتوں کا انکشاف نہیں کیا ہے ۔ وہیں سپریم کورٹ نے کچھ دستاویزوں کو ریکارڈ میں لینے سے منع کر دیا ،جس کو سابق مرکزی وزیر ارون شوری عدالت کے سامنے رکھنا چاہتے تھے ۔

پرشانت بھوشن نے دفاعی خرید کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انڈین ایئر فورس کو126 جنگی طیارے  کی ضرروت تھی اور اس نے ان کے لیے ڈی اے سی کو مطلع کیا تھا ۔ شروع میں 6 غیر ملکی کمپنیوں نے درخواست دیا تھا لیکن شروعاتی کارروائی کے دوران 2 کمپنیوں کو ہی آخری لسٹ کے لیے فائنل کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ سودا بعد میں فرانس کی دسسالٹ کمپنی کو ملا اور حکومت کی ملکیت والے ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ اس کا حصہ دار تھا۔ لیکن اچانک ہی ایک بیان جاری ہوا جس میں کہا گیا کہ تکنیک کا کوئی تبادلہ نہیں ہوگا اور صرف 36 طیارے ہی خریدے جائیں گے ۔پرشانت بھوشن نے کہا کہ وزیر اعظم کے ذریعے اس سودے میں کی گئی مبینہ تبدیلی کے بارے میں کسی کو کوئی جانکاری نہیں ہے ۔یہاں تک وزیر دفاع کو بھی ا س کے بارے میں معلومات نہیں تھی ۔

اس معاملے میں عرضی دائر کرنے والے وکیل منوہر لال شرما اور وکیل ونیت ڈھانڈا اور عام آدمی پارٹی کے سنجے سنگھ کے وکیل پرشانت بھوشن سے بحث کی ۔ شرما نے بحث شروع کرتے ہوئے بین حکومتی معاہدے کو غیر قانونی بتایا اور معاملے کی جانچ کی درخواست کی ۔ وہیں ڈھانڈا نے رافیل سودے میں ان کی عرضی میں اٹھائے گئے نکات پر حکومت سے صحیح جواب دینے کی گزارش کی۔

(خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے ان پٹ کے ساتھ)