فکر و نظر

اداریہ: بندوق سے کسی مسئلہ کا حل نہیں نکلتا

اداریہ: کوئی بھی سیاسی تحریک، جو لوگوں کی زندگی میں تبدیلی لانے کا دعویٰ کرتی ہے، اس کا جمہوری‎ ہونا بہت ضروری ہے۔

علامتی تصویر،فوٹو : رائٹرس

علامتی تصویر،فوٹو : رائٹرس

حالیہ دنوں میں چھتیس گڑھ میں ہوئے ماؤوادی حملوں کے سلسلے نے ایک بار پھر سے سماجی تبدیلی کے ہدف کو پانے کے لئے سیاسی تشدد کو مستقل ذریعہ کے طور پر استعمال کرنے کے سوال کو سب کے سامنے لا دیا ہے۔یہ پہلی بار نہیں ہے، جب ہم اس پیچیدہ سوال سے روبرو ہوئے ہیں۔لیکن، حالیہ واقعات کو دیکھتے ہوئے اس مدعے پر فوراً بحث کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔قتل کے سلسلوں نےہمیں یہ سوال پوچھنے کے لئے مجبور کیا ہے ؛کیا سماج اور سیاست کو بدلنے کا واحد راستہ تشدد سے ہوکر گزرتا ہے؟

کیا منظم یا بےترتیب قتل-افسروں اور عام شہریوں کی-ان خامیوں کو درست کر دیتے ہیں، جنہوں نے ہندوستان میں جمہوریت کےروایتی انتظام کو کھوکھلا کر دیا ہے، جس میں انتخابی جمہوریت بھی شامل ہے؟کیاعام شہریوں اور ساتھ ہی وردی والے مرد –عورت کے قتل غریبوں اور دبے کچلے کو انصاف دلاتے ہیں، جن سے ان کو لمبے وقت سے محروم رکھا گیا ہے؟چلیے ہم حال میں ہوئےتشدد پر غور کرتے ہیں۔دوردرشن کے ایک کیمرامین اچیوتانند ساہو اور اسی مہینے دو پولیس اہلکاروں کے قتل کے کچھ دنوں کے اندر ہی ماؤوادیوں نے چھتیس گڑھ کے دنتےواڑا ضلع میں پانچ اور لوگوں کا قتل کر دیا۔

مارے جانے والوں میں چار عام شہری اورسی آئی ایس ایف کا ایک جوان تھا۔مرنے والوں میں ایک پرائیویٹ بس کا ڈرائیور، کنڈکٹر اور کلینر تھا۔  یہ بس الیکشن ڈیوٹی کے لئے کرایے پر لی گئی تھی۔  گزشتہ جمعرات کو دنتے واڑا میں ہوا ماؤوادی حملہ، دو ہفتہ کے اندر تیسرا حملہ تھا۔ماؤوادی انتخابی جمہوریت میں یقین نہیں کرتے ہیں اور وہ نظریاتی طور سے موجودہ سیاسی اقتدار کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے پرعزم ہیں۔

ان انتہا پسند جنگجوؤں کا یہ عقیدہ ہے کہ مسلح بغاوت سے ہندوستانی حکومت کو ہرایا جا سکتا ہے۔  ان کے کیڈر سیکورٹی فورس  کے ان کے راستے سے گزرنے کا انتظار کرتے ہیں۔اور جب دوطرفہ گولی باری میں عام شہری مارے جاتے ہیں(جیسا کہ دوردرشن کے کیمرامین کے ساتھ ہوا)، تب ان کو محض ‘ گیہوں کے ساتھ گھن‌کے پسنے ‘کے طور پر ہوا میں اڑا دیا جاتا ہے۔یہ صحیح ہے کہ ماؤوادیوں نے دنتےواڑا حملے میں ساہو کے قتل پرافسوس کا اظہار کیا، لیکن کیا ان کی معافی مستقبل میں ایسے حملوں کو روکنے کا کام کرے‌گی۔  ایسا لگتا تو نہیں ہے۔

آپ اس جدو جہد کو چاہے جس نظریہ سے دیکھیں، پورے وسط ہندوستان میں مسلسل  چل رہے اس چھوٹے پیمانے کی جنگ کا سب سے زیادہ نقصان آدیواسیوں کو اٹھانا پڑا ہے۔بھاری ہتھیاروں سے لیس سیکورٹی فورس اورمسلح ماؤوادیوں کی دو دھاری تلوار کے درمیان پھنسے آدیواسیوں کے پاس اپنی زندگی کے راستے کو چننے کی آزادی نہیں ہے یا کافی کم ہے۔دہائیوں سے مختلف سیاسی رنگوں والی حکومتیں تعلیم، صحت اور ذریعہ معاش کی بنیادی سہولت مہیا کرا پانے میں ناکام رہی ہیں۔  اقتصادی لبرلائزیشن نے بھی ان کی زندگی کو بہتر کرنے کے لئے کچھ زیادہ نہیں کیا ہے۔

Urdu-Editorial1

اصل میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ آدیواسیوں کی نقل مکانی کا سلسلہ بغیر رکے بدستور جاری ہے جبکہ ریاست کے ذریعے امداد حاصل شدہ صنعت کاروں نے ان زرخیزمعدنیاتی علاقوں میں کاروبار کرکے بھاری منافع کمایا ہے۔اس بحث میں ریاست کے ذریعے  اسپانسرشدہ تشدد کا سوال بھی یکساں طورپر اہم ہے۔آدیواسیوں کو باقاعدہ طور پر پولیس کے تشدد اور ظلم وستم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔حکومت کے ذریعے تشکیل شدہ گرام رکشک تنظیم سلوا جڈوم، جس پر سپریم کورٹ نے پابندی لگا دی، اور ا س کی حالیہ شکل  نے حالت کو اور بگاڑنے کا ہی کام کیا ہے۔

دوسری طرف ہتھیاربند ماؤوادی ہیں جو اصل نکسل باڑی تحریک کی وراثت پر دعویٰ کرتے ہیں۔  یہاں یہ زور دیا جانا ضروری ہے کہ زمین سے متعلق اصلاحات اور اضافی زمین پر قبضہ 1967 کی نکسلباڑی تحریک کے مرکز میں تھا۔اس وقت سے یہ تحریک کئی گروپوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔  اور یہ بات مدلل انداز میں  کہی جا سکتی ہے کہ ماؤوادیوں نے پوری طرح سے تغیرپسند تحریک کی سیاست کو تشدد میں بدل دیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ ہتھیاروں کو اب ماؤوادی سیاست سے اوپر مان لیا گیا ہے۔  لوگوں کی جمہوری‎ اور مقبول صف بندی کے بغیر کیا جانے والا مستقل مسلح جدو جہد تشدد کے کبھی نہ ختم ہونے والے چکرکو جنم دے سکتا ہے۔ایسے میں جبکہ اِقتدار نے ہتھیاروں کی تعداد بڑھا دی ہے، زمین پر سیکورٹی فورس کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے اور باغیوں سے نپٹنے کے نام پر آدیواسیوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے، ماؤوادیوں نے بھی وار کرنے کی اپنی صلاحیت کو بڑھانے کی کوشش کی ہے۔

ماؤوادیوں کے ذریعے لگائے جانے والے بدنام کنگارو کورٹ بھی آدیواسیوں کے ساتھ تشدد کرنے کا ایک اور مہلک طریقہ ہے۔پولیس کا مخبر ہونے کے الزام میں ایک نمائشی سماعت کے بعد کسی آدمی کو سزائے موت دینے کی روایت بھی ماؤوادیوں کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔اس وقت سب سے پہلی ترجیح سیکورٹی فورس کے ذریعے قانون کی حکومت کی خلاف ورزی سے عام شہریوں کی حفاظت کرنے کی اور سب سے دوردراز گاؤں تک آئین کے ذریعے پیش کردہ حقوق کو پہنچانے کی ہونی چاہیے۔

آدیواسیوں کو نہ صرف تاریخی طور پر ان کے حقوق اور بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے، ان کو اقتدار اور ماؤوادیوں کی جدو جہد کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا ہے۔یہی وقت ہے کہ ماؤوادی اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کریں۔  کوئی بھی سیاسی تحریک ان لوگوں کی زندگی کو متاثر کرے، جن لوگوں کی حفاظت کرنے اور ان کے لئے لڑنے کا وہ دعویٰ کرتا ہے، اس کے لئے جمہوریت کا اس تحریک کا حصہ ہونا ضروری ہے۔قتل کاسلسلہ ختم ہونا چاہیے اور جمہوریت کی تجدیدکاری شروع ہونی چاہیے۔