فکر و نظر

مدھیہ پردیش اسمبلی الیکشن: گجرات ماڈل اپنانے میں چوک گئی کانگریس

صوبائی صدر کو ان کارکنان سے ہمدردی ہے، لیکن پارٹی باہر سے آنے والے بہت سارے لوگوں کی امیدوں کو پورا نہیں کر سکتی۔وہیں  ناراض لوگوں سے اب یہ وعدہ کیا جا رہا ہے کہ صوبے میں کانگریس کی سرکار بننے پر انہیں مختلف بورڈس اور کارپوریشن میں موقعہ دیا جائے گا۔

ایک جلسہ کے دوران کانگریس صدر راہل گاندھی، (بائیں سے) جیوترادتیہ سندھیا، دگوجئے سنگھ اور کمل ناتھ (بیٹھے ہوئے) /فوٹو : پی ٹی آئی

ایک جلسہ کے دوران کانگریس صدر راہل گاندھی، (بائیں سے) جیوترادتیہ سندھیا، دگوجئے سنگھ اور کمل ناتھ (بیٹھے ہوئے) /فوٹو : پی ٹی آئی

مدھیہ پردیش میں چل رہے اسمبلی الیکشن  میں کانگریس صدر راہل گاندھی ایک بار پھر چوک گئے۔ ایس پی، بی ایس پی سے گٹھ بندھن میں ناکام رہنے کے بعد وہ ایم پی میں گجرات ماڈل نہیں اپنا سکے۔ گجرات الیکشن  میں کانگریس نے جگنیش میوانی اور الپیش ٹھاکر جیسے نوجوان اور سرگرم سماجی کارکنوں کو آگے کیا اور خاطر خواہ فائدہ اٹھایا۔ یہ دونوں نہ صرف الیکشن جیتے بلکہ آج بھی صوبائی حکومت کے ناک میں دم کیے رہتے ہیں اور گاہے بگاہے مرکزی سرکار کو بھی آنکھیں دکھاتے رہتے ہیں۔

پارٹی کی قومی و صوبائی اکائی پچھلے ایک سال سے مختلف میدانوں میں کام کرنے والے غیر سیاسی سوشل ورکرس کے رابطے میں تھی۔ جیسے بدعنوانی مخالف وہسل بلوئر، عوامی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے یا کھیتی کسانی میں سدھار چاہنے والے کارکنان۔ بلاشبہ ان لوگوں کا سماج پر خاصہ اثر ہے اور ان سے رابطے کا مقصد یہ تھا کہ گجرات کا تجربہ یہاں بھی دوہرا کر ان کارکنان کی محنت اور پہنچ سے فائدہ اٹھایا جائے۔

صوبے کے ویاوسائیک پریکشا منڈل (ویاپم) میں بڑے پیمانے پر ہوئے گڑبڑ گھوٹالے کو لے کر مسلسل کام کرنے والے وہسل بلوئر جیسے پارس سکلیچا اور ڈاکٹر آنند رائے سے تو مبینہ طور پر کانگریس کی اعلیٰ قیادت، کہی جانے والی باتوں کے مطابق خود راہل گاندھی نے ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن ان کے نام امیدواروں کی فہرست میں نہ آ سکے۔ سرکاری ڈاکٹر کی ملازمت چھوڑنے والے ڈاکٹر آنند رائے اس پر اپنی تلخی مشکل سے ہی چھپا پاتے ہیں۔ فون پر ایک اخبار کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، “آخری وقت تک ہم سے کہا گیا کہ الیکشن لڑنا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ ہم پارٹی میں نئے آئے ہیں۔ ہمارے پاس مطلوبہ ‘وسائل’ نہیں ہیں۔ ظاہر ہے ایسی باتوں سے تکلیف تو ہوتی ہے۔”

صوبے کے تجارتی مرکز اندور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر رائے کے پریشر گروپ “وچار ایم پی”نے مختلف میدانوں جیسے ناقص غذا، صحت، ریت مافیا کے خلاف مہم، حق اطلاعات، کسانوں کے مسائل پر کام کرنے والے کارکنان کو یکجا کر لیا ہے اور وہ کئی اہم کام انجام دے رہے ہیں۔

دیباشیش جراریا ایسے نوجوان دلت کارکن ہیں، جن سے کافی امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں۔ پرائم ٹائم ٹی وی چینلس پر ان کی موجودگی رہتی ہے۔ بی ایس پی چھوڑ کر وہ کانگریس میں آئے لیکن الیکشن کا ٹکٹ پانے میں ناکام رہے۔

پارس سکلیچا ایک اور انقلابی کارکن ہیں، جو رتلام سے ٹکٹ چاہتے تھے۔ وہ سن 2008 میں اسی سیٹ سے بطور آزاد امیدوارالیکشن  جیت چکے ہیں، مگر پارٹی نے انہیں بھی ٹکٹ دینا مناسب نہیں سمجھا۔ منجھے ہوئے سیاستداں پارس اس پر سیاسی زبان میں ہی تبصرہ کرتے ہیں کہ وہ پارٹی کے سپاہی کی طرح کانگریس کے لیے انتھک محنت کرتے رہیں گے۔

بااثر کسان نیتا کیدار سِروہی  نے حال ہی کانگریس میں شمولیت اختیار کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کانگریس کا ٹکٹ نہ مل پانے سے مایوس نہیں ہیں۔ ان کا صرف ایک ہی مقصد ہے، مدھیہ پردیش میں بی جے پی کو اقتدار سے باہر کرنا۔ ‘عام کسان یونین’کے صدر سِروہی نے جبل پور کرشی وشوودیالیہ سے زرعی معاشیات اور کھیت مینجمنٹ میں ایم ایس سی کیا ہے۔ایک سال پہلے تک سروہی بی جے پی  کے ساتھ ہی کانگریس کے بھی سخت مخالف تھے۔ جون 2017 میں صوبے کے مالوہ و نماڑ علاقے میں ہوئے کسانوں کے احتجاج کو شدید کرنے والوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ اس احتجاج کو دبانے کے لیے صوبے کی شِیوراج سنگھ حکومت کو گولی چلانی پڑی تھی، جس میں8 کسانوں کی موت ہو گئی تھی۔

سِروہی کے ساتھ بڑی تعداد میں ایسے نوجوان تھے، جنہوں نے صوبے کی مختلف ایگریکلچر یونیورسٹیز سے گریجویشن کیا تھا، مگر جنہیں کوئی روزگار نہیں مل پایا تھا۔ ایک سینئر پولیس اہلکار نے یہ بات نوٹ کی کہ مندسور احتجاج میں 16 سے 30 سال تک کے نوجوان خاصی تعداد میں شامل تھے۔ یہ سبھی اسمارٹ فون چلانا خوب جانتے تھے اور ذرا ذرا سی بات وہاٹس ایپ، ٹوئٹر یا فیس بک کے ذریعے منٹوں میں پھیلا رہے تھے۔ سوشل میڈیا کے اس جارحانہ استعمال کو دیکھتے ہوئے ہی چوہان سرکار کو جون 2017 میں مندسور، نیمچ، اجین، رتلام و دھار کے متاثرہ علاقوں میں انٹرنیٹ کی خدمات روکنا پڑی تھیں۔

‘مدھیہ پردیش بے روزگار سینا’کے صدر اکشے ہُنکا کا دعویٰ ہے کہ ان کے ساتھ نوجوانوں کی بڑی تعداد ہے، لیکن کانگریس نے انہیں بھی ٹکٹ نہیں دیا اور بھوپال کی گووِندپورا سیٹ سے الیکشن لڑنے کا ان کا منصوبہ ادھورا ہی رہ گیا۔ صوبے کی چوہان سرکار نے سرکاری ملازمین کے ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال سے بڑھا کر 62 سال کر دی، ہُنکا نے اس فیصلے کے خلاف تحریک کی قیادت کی تھی۔

گیہوں خریداری میں گڑبڑیاں کیے جانے کے خلاف ایک موثر مہم کی کامیاب قیادت کرنے والے نرسنگھ پور کے وِنایک پریہار حال ہی کانگریس میں شامل ہوئے ہیں۔ سی پی دھاکڑ نے پنچایتی راج گھوٹالے میں افسران کے ملوث ہونے کا انکشاف کیا، لیکن کانگریس سے ٹکٹ پانے میں ناکام رہے۔

گاڈرواڑہ علاقے کی مینا کورو کی قیادت میں 150 سرپنچوں نے کانگریس میں شمولیت اختیار کی۔ان کے مطابق وعدہ کرنے کے باوجود انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ مکھیہ منتری شیوراج سنگھ چوہان کے انتخابی حلقے بدھنی سے تعلق رکھنے والے ارجن آریہ کو کسان آندولن کے دوران جیل جانا پڑا۔ انہوں نے سماجوادی پارٹی چھوڑ کر کانگریس کا دامن تھاما لیکن ٹکٹ کے معاملے میں وہ بھی ناکام ہی رہے۔ کہا جاتا ہے کہ سینئر رہنما اور کانگریس کے سابق وزیر اعلیٰ دگوجے سنگھ نے انہیں ٹکٹ دلانے کا وعدیٰ کیا تھا لیکن بعد میں انہوں نے معذرت کر لی۔

مدھیہ پردیش ودھان سبھا کے اسپیکر سیتا شرن شرما کے بھائی گرجا شنکر شرما بھی کانگریس سے ٹکٹ پانے کے متمنی تھے۔ وہ بی جےپی کے ایم ایل اے  رہے ہیں اور ہوشنگ آباد علاقے میں ان کا خاصہ اثر مانا جاتا ہے۔مدھیہ پردیش کانگریس کے چیف کمل ناتھ کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی صدر کو ان کارکنان سے ہمدردی ہے، لیکن پارٹی باہر سے آنے والے بہت سارے لوگوں کی امیدوں کو پورا نہیں کر سکتی۔ کہا جا رہا ہے کہ اس صورت حال کے لیے ناتھ نے مدھیہ پردیش کانگریس کے انچارج دیپک باوریا کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے کہ انہوں نے پارٹی میں شامل ہونے والوں سے ٹکٹ دیے جانے کا وعدیٰ کیا۔

گجرات سے تعلق رکھنے والے باوریا کو راہل گاندھی کے قریبی لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے۔کہتے ہیں کہ ان ناراض لوگوں سے اب یہ وعدہ کیا جا رہا ہے کہ صوبے میں کانگریس کی سرکار بننے پر انہیں مختلف بورڈس اور کارپوریشن میں موقعہ دیا جائے گا۔