فکر و نظر

رویش کمار نے وزیر اعظم کے لیے اسپیچ لکھی ہے،کیا وہ اس کو پڑھ سکتے ہیں؟

بی جے پی کی حکومت نے اعلیٰ تعلیم پرسب سے زیادہ پیسے بچائے ہیں۔  ہمارا نوجوان خودہی پروفیسر ہے۔  وہ تو بڑےبڑے کو پڑھا دیتا ہے جی، اس کو کون پڑھائے‌گا۔  مدھیہ پردیش کے پونے 6لاکھ نوجوان کالجوں میں بنا پروفیسر،اسسٹنٹ پروفیسر کے ہی پڑھ رہے ہیں۔  ہمارا نوجوان ملک مانگتا ہے، کالج اور کالج میں ٹیچرنہیں مانگتا ہے۔

مدھیہ پردیش کے چھندواڑا میں ایک انتخابی ریلی کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی (فوٹو بشکریہ: ٹوئٹر / بی جے پی)

مدھیہ پردیش کے چھندواڑا میں ایک انتخابی ریلی کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی (فوٹو بشکریہ: ٹوئٹر / بی جے پی)

بھائیوں  اور بہنوں،

آج میں نے تقریر کا طریقہ بدل دیا ہے۔  میں نے الگ الگ فارمیٹ میں تقریر کئے ہیں لیکن آج میں وہ کرنے جا رہا ہوں جو کانگریس کے رہنما پچھلے 70 سال میں نہیں کر سکے۔  میں نے رٹی رٹائی تقریر چھوڑ‌کر کچھ نیا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔مجھے یہ کہنے میں جھجک نہیں کہ یہ تقریر رویش کمار نے تحریر کی ہے، لیکن دوستوں، تقریر کوئی بھی لکھے، اگر وہ ملکی مفاد میں ہے۔  پر میں نے بھی کہہ دیا کہ میں پڑھوں‌گا وہی جو سرکاری دستاویز پر مبنی ہوتا ہے۔

رویش کمار مان گئے اور انہوں نے مدھیہ پردیش کے  محکمہ اعلیٰ تعلیم کی ویب سائٹ سے2015 سے 2016کی رپورٹ نکالی۔  2016سے 2017 اور2017 سے 2018کی رپورٹ ہی نہیں ہے، ویب سائٹ پر۔میں تو کہتا ہوں کہ رپورٹ ہوگی مگر سب کو تلاش کرنا نہیں آتا ہے۔  یہ جو اسپیچ رائٹر ہیں آپ تو جانتے ہیں نہ ان کو۔  ارے، دودو سال کی رپورٹ ویب سائٹ پر نہیں ہے تو کیا ہوا۔  جو ہے اسی کو پڑھیں‌گے۔

ہمیں پورا بھروسہ ہے ہم کسی بھی سال نوجوانوں کو پیچھے رکھنے میں پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔  میں نے بھی کہا کہ مدھیہ پردیش میں بی جے پی حکومت کے 15 سال کام ہی کام کے سال رہے ہیں، پترکار بھائی تم2015 سے 2016کی رپورٹ سے ہی تقریر تیار کرو۔  میں پڑھ دوں‌گا۔ڈیٹا نیا تیل ہے۔  تو جو سرکاری ڈیٹا ہے اس سے ہمیں تیل نکالنا آتا ہے۔

متروں،

میرے مدھیہ پردیش میں437 سرکاری کالج ہیں۔  گورنمنٹ کالج۔  437 کالج بھائیوں-بہنوں۔  یہ کالج آپ کے پیسے سے چلتے ہیں۔  جبکہ 800 سے زیادہ کالج ایسے ہیں جس کے لئے آپ ٹیکس نہیں دیتے مگر موٹی فیس دےکر چلا رہے ہیں۔  پرائیویٹ سے لےکر پبلک سیکٹر سب آپ ہی چلا رہے ہیں۔

1300 سے زیادہ کالج ہیں۔  کالج کی کوئی کمی ہم نے مدھیہ پردیش کے عوام کو نہیں ہونے دی ہے۔  2015سے 2016 کی رپورٹ ہے۔  لا ء کالج کے لئے 28 پرنسپل کے عہدے منظور شدہ تھے۔  28 کے 28 خالی تھے بھائیوں-بہنوں۔  پرنسپل کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔  بےوجہ اصول بناتے رہتے ہیں۔  ہم منیمم گورنمنٹ میکسمم گورننس کی بات کرتے ہیں۔  یہ کالج بنا پرنسپل کے اپنےآپ چلتے رہے ہیں۔ہم نے کالج ہی نہیں، کلاس روم کو بھی خالی رکھا ہے۔  نوجوان کلاس میں آئے، بحث ومباحثہ کریں، آپس میں گفتگو کریں، کیمپس میں توپ دیکھیں، ترنگا دیکھیں، اب استاد ہوں‌گے تو یہ سب کہاں کر پائیں‌گے۔ راشٹر واد کی تعمیر کہاں ہو پائے‌گی۔

اس لئے2015 سے 2016کی سالانہ رپورٹ کہتی ہے، اور یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں۔   محکمہ اعلیٰ تعلیم کی رپورٹ کہتی ہے، 704 استاد ہونے چاہیے تھے، ہم نے 474 رکھے ہی نہیں۔  7412 اسسٹنٹ پروفیسر ہونے چاہیے، شیوراج جی نے کہا کہ 3025 اسسٹنٹ پروفیسر رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ہمارا نوجوان خودہی پروفیسر ہے۔  وہ تو بڑےبڑے کو پڑھا دیتا ہے جی، اس کو کون پڑھائے‌گا۔  ہر نوجوان ماسٹر ہے، اس کا ماسٹر کوئی نہیں۔  یہ ہمارا نعرہ ہے۔  نعرہ میں خود لکھ رہا ہوں، رویش کمار نہیں۔  صحافی لوگ ڈیٹا-ویٹا کرتے رہتے ہیں، الیکشن  اس سے نہیں ہوتا لیکن ہم نے کہا کہ چلو بھائی آج تعلیم کو مدعا بنا ہی دیتے ہیں۔

لائبریری کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔  آپ تو اسمارٹ فون سے سب پڑھ لیتے ہو۔  264 کالجوں اور یونیورسٹی میں وائی فائی کی سہولت دے دی گئی ہے۔  آپ کو مل رہی ہے کہ نہیں، مل رہی ہے۔  ہاتھ اٹھاکر بولیے، آپ کے کالج میں وائی فائی ہے یا نہیں۔391 لائبریرین کے عہدے منظورشدہ ہیں لیکن 253 عہدے خالی رکھ چھوڑے تھے ہم نے۔  ایک کالج میں پرنسپل سے لےکر استاد کے بہت عہدے ہوتے ہیں۔  اس طرح سے دوستوں 9377 عہدے پر لوگ ہونے چاہیے تھے، 4374 عہدے خالی تھے دوستوں، 4374۔

کیاکیا نہیں خالی تھا!پرنسپل،پروفیسر، اسسٹنٹ پروفیسر، کھیل افسر، رجسٹرار ہم نے سب خالی رکھ چھوڑے ہیں۔  ایسا نہیں ہے کہ ہم نے تقرر نہ کرنے کی قسم کھا لی ہو۔  ہم اشتہار نکالتے رہتے ہیں۔2015سے 2016میں2371 عہدوں کی بحالی نکالی تھی۔  اب یہ پتہ نہیں کہ بحالی ہوئی یا نہیں، کاش 2016 سے 2017کی رپورٹ بھی ویب سائٹ پر مل جاتی۔

مدھیہ پردیش کے پونے6 لاکھ نوجوان کالجوں میں بنا پروفیسر، اسسٹنٹ پروفیسرکے ہی پڑھ رہے ہیں۔  ہمارےنوجوانوں نے دنیا کو دکھا دیا ہے۔  ہمارا نوجوان ملک مانگتا ہے، کالج اور کالج میں ٹیچرنہیں مانگتا ہے۔  وہ ملک کے لئے خود4گھنٹہ زیادہ پڑھ لے‌گا۔اور ٹیوشن کے لئے ماسٹر کہاں کم ہیں۔  تبھی تو ہم اسکوٹی اور موپیڈ دینے والے ہیں تاکہ بچے کالج کم جائیں، سیدھے ٹیوشن جائیں۔  پرماننٹ استاد کا جھگڑا ہی چھوڑ دیا۔  اس سال تو شیوراج سنگھ چوہان نے وزٹنگ پروفیسروں  کا اعزازیہ کم از کم 30000 روپے کر دیا ہے ورنہ کئی سال تک تو وہ کم از کم مزدوری سے بھی کم پر پڑھا رہے تھے۔  اس کو قربانی کہتے ہیں۔

15 سال ہم نے یوں ہی حکومت نہیں کئے ہیں۔ تبھی تو انتخاب کی وجہ سے ہم نے جولائی میں کم از کم 30000 روپے کر دیا۔  دیوالی آئی تو ہم نے کہا کہ ایک مہینے کی تنخواہ دے دو تاکہ لگے کہ تنخواہ مل سکتی ہے۔  پانچ مہینے میں ایک مہینے کی تنخواہ دے دو، نوجوان کام کرنے کے لئے تیار ہے۔ہم تو وہ بھی نہیں دیتے مگراسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن  نے نوٹس دے دیا کہ ان کو تنخواہ دی جائے۔  تبھی کہتا ہوں کہ ترقی کے کام میں یہ ہیومن رائٹس کمیشن والے بہت رکاوٹ ڈالتے ہیں۔

کوئی نہیں، ہم نے بھی چار مہینے کی تنخواہ نہیں دی۔ ایک ہی مہینے کی دی۔ دیوالی کا خرچ ہی کیا ہے۔  آتش بازی تو بین ہو گئے ہیں۔  دیا تو مٹی سے بن جاتی ہے۔  اب دیکھیے، چار مہینے کی تنخواہ نہیں دی ہے، تب بھی گیسٹ ٹیچرکالج جا رہے ہیں۔  پڑھا رہے ہیں۔

مخالفین کہتے ہیں کہ ترنگا اور توپ کا کوئی فائدہ نہیں۔  یہ سب کیسے ہو رہا ہے، دوستوں، میں مانتا ہوں کہ راشٹرواد کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ راشٹر واد کے جذبہ سے متاثر نوجوان بنا تنخواہ کے پڑھا رہے ہیں اور بنا استاد کے پڑھ رہے ہیں۔یہ لبرل اور اربن نکسل وادی کچھ بھی کہتے رہیں، آج ملک کو تعلیم کی ضرورت ہی نہیں ہے۔  ہم نے اس کی ضرورت ہی ختم کر دی ہے۔  ہم نئے خیالات کو لےکر آگے بڑھ رہے ہیں۔  ہم گیسٹ ٹیچروں  کو چھٹی بھی نہیں دیتے ہیں۔  چھٹی لیتے ہیں تو تنخواہ کاٹ لیتے ہیں۔

متروں، میں نے ایک دن کی بھی چھٹی نہیں لی ہے۔  یہ گیسٹ ٹیچر ہی اصلی مودی ہیں۔  بنا چھٹی کے پڑھا رہے ہیں۔سال میں1 لاکھ 2000 لےکر پڑھانے والے دنیا میں ایسے استاد کہیں نہیں ملیں‌گے۔  شہروں میں دقت ہوتی ہے، میں مانتا ہوں۔  اس لئے زیادہ تر گیسٹ ٹیچروں  کو ہم نے گاؤں میں لگا رکھا ہے۔2002 میں ایک کلاس کے 75 روپے ملتے تھے اور ایک دن میں چار کلاس کے پیسے ملتے تھے۔ آندولن ہوگیا۔  ہم نے کہا بڑھا دو۔ چار کلاس کی جگہ تین کلاس کے پیسے دے دئے۔  ان کا کچھ بڑھ گیا لیکن ہمارا بہت نہیں گھٹا۔

مدھیہ پردیش کے کالجوں میں ایم اے پاس، نیٹ پاس، پی ایچ ڈی کئے نوجوانوں نے کئی سال دہشت میں13-14 ہزار مہینے کی کمائی پر پڑھایا ہے۔  بھائیوں ، بہنوں ، یہ ملک مودی نہیں چلا رہا ہے۔  یہ ملک ان نوجوانوں سے چل رہا ہے۔  جو اپنا مستقبل خطرہ میں ڈال‌کر ریاست کا مستقبل سنوار رہے ہیں۔متروں ، میرا اسپیچ رویش کمار نے لکھا ہے۔  انہوں نے گیسٹ ٹیچروں کے رہنما دیوراج سے بات کر لی ہے۔  دیوراج نے ان کو بتا دیا ہے کہ یو جی سی کے حساب سے 30 طالب علم پر ایک اسسٹنٹ پروفیسر ہونا چاہیے۔  تو اس حساب سے 12000 اسسٹنٹ پروفیسر ہونے چاہیے۔

سرکاری کالجوں میں اسسٹنٹ پروفیسر کے لئے 7000 سے زیادہ عہدہ منظورشدہ ہیں لیکن5000 سے زیادہ گیسٹ ٹیچر ہیں۔ ہم نے نہ تو کسی کو پرماننٹ رکھا نہ ان گیسٹ ٹیچروں  کو کبھی پوری تنخواہ دی۔پرماننٹ کرتا تو ڈیڑھ لاکھ مہینے کی تنخواہ دینی پڑتی مگر یہی نوجوان 15 سال سے محض ایک لاکھ کی تنخواہ میں پورا سال پڑھا رہے تھے۔  مدھیہ پردیش کی عوام یوں ہی ماما نہیں کہتے ہیں۔  بھانجا کا کام ہی کیا ہے۔  ماما ماما کرنا ہے۔  ماں بھی خوش، ماما بھی خوش۔

یہی نہیں جو عوامی شراکت داری  سے کالج چلتے ہیں، وہ بھی چالاک ہو گئے ہیں۔  ایک ہی شہر کا ایک کالج ایک استاد کو 18000 تنخواہ دیتا تھا تو دوسرا کالج اسی موضوع کو 10000 میں پڑھوا رہا تھا۔

بی جے پی کی حکومت نے اعلیٰ تعلیم پر سب سے زیادہ پیسے بچائے ہیں۔ آج تک کسی نے اس کی شکایت کی، کسی نے نہیں کی۔ تحریک وغیرہ ہوتے رہتے ہیں مگر یہ نوجوان جانتے ہیں کہ ان کا ماما اگر کوئی ہے تو وہ کون ہے۔  بھانجا کبھی ماما سے بغاوت کرتا ہے کیا۔  ہندوستانی روایت ہے۔  ہندوستانی روایت ہے کہ ہم سنسکار کو تعلیم سے پہلے رکھتے ہیں۔  پہلے راشٹرواد، پھر سنسکار اور دونوں سے حکومت۔

ابھی ہم ان گیسٹ ٹیچروں کو بھی نکالنے والے ہیں۔ اپریل میں 3200 کی ویکینسی نکالی تھی،2600 کا رزلٹ نکلا ہے۔  ابھی جوائننگ نہیں ہوئی ہے۔  ان کے کالج جاتے ہی، پرانے گیسٹ ٹیچر نکال دئے جائیں‌گے۔  نئے نوجوان آئیں‌گے اور جم کر پڑھائیں‌گے۔اس طرح سے اگر ہم پندرہ-پندرہ سال میں پرماننٹ استاد کی تقرری کریں تو تعلیم کا بجٹ کتنا کم ہو سکتا ہے۔  متروں، میں رویش کمار کی بات سے متفق نہیں ہوں کہ نوجوانوں کی پالیٹکل کوالٹی تھرڈ کلاس ہے۔

آج مدھیہ پردیش کےنوجوانوں نے بنا استاد کے پڑھ‌کر دنیا کو دکھا دیا ہے۔  مدھیہ پردیش کے پڑھے لکھے نوجوانوں نے دس-دس سال ایک لاکھ روپے میں پورے سال پڑھاکر جو دکھایا ہے، وہ بتاتا ہے کہ ان کی پالیٹکل سمجھ تھرڈ کلاس نہیں ہے۔  ان کے ماں باپ نے شکایت نہیں کی۔ انہوں نے شکایت نہیں کی۔ اب آپ ہی پوچھو کہ رویش کمار کو کیا پرابلم ہے۔  ان کو کیوں شکایت ہے؟

میں مبارکباد دیتا ہوں کہ ہم نے مدھیہ پردیش میں اعلیٰ تعلیم کا وکاس کیا ہے۔  میں تو کہتا ہوں کہ آ جائے کوئی ہم سے اس معاملے میں بحث کر لے۔ میرے مدھیہ پردیش کے نوجوان کسی سے بحث نہیں کرتے۔ویسے انتخابات میں باتیں تو بہت ہوتی ہیں مگر تعلیم پر کوئی بھی مجھ سے بات کر لے۔ پوچھو جو پوچھنا ہے، میں جواب دوں‌گا۔  ارے پوچھوگے تب نہ، جب ہم تم کو پوچھنے کے لائق بنائیں‌گے۔  بھارت ماتا کی جئے۔  بھارت ماتا کی جئے۔

نوٹ:دوستوں، انتخاب در انتخاب میں نے دیکھا ہے کہ تعلیم جیسے ضروری موضوع پر بات نہیں ہوتی۔  رہنما بات نہیں کرتے، عوام بات نہیں کرتی ہے۔  تو سوچا کہ لکھنے کے انداز میں تبدیلی کرتا ہوں۔  وزیر اعظم کے قریب ہو جاتا ہوں۔  ان کی تقریر لکھ دیتا ہوں۔

ایک کوشش کرتا ہوں کہ انتخاب میں تعلیم کی بات ہو۔  نوجوان مدھیہ پردیش کے کالج، کلاس روم کی تصویر کھینچ‌کر وزیر اعظم اور راہل گاندھی کو ٹیگ کریں۔  ٹوئٹ کریں۔  کالج جانے والے نوجوان بات نہیں کریں‌گے تو کون کرے‌گا۔  کیا وہ چاہیں‌گے کہ یہ بات ثابت ہو جائے کہ نوجوانوں کی سیاسی سمجھ تھرڈ کلاس ہے۔  نہیں نا۔ تو کل سے مدھیہ پردیش کا نوجوان اپنے اپنے کالج کی  حالیہ تصویر کے ساتھ ٹوئٹ کریں۔  ٹیگ کریں۔  مجھے بتائیں۔

(رویش کما ر کا یہ مضمون ان کے بلاگ قصبہ پر شائع ہوا ہے۔)