خبریں

وکیل کا دعویٰ، ریڈیوایکٹیو آئسوٹوپ زہر دینے سے ہوئی تھی جج لویا کی موت

ناگ پور کے ایک وکیل ستیش اوکے نے سی بی آئی جج بی ایچ لویا کی موت کو مشتبہ بتاتے ہوئے بامبے  ہائی کورٹ کی ناگ پور بنچ میں عرضی دائر کر کے کہا ہے کہ جج لویا کو زہر دیا گیا تھا اور ان کی موت سے متعلق تمام دستاویز مٹا دئے گئے ہیں۔

Judge-Loya

نئی دہلی: سی بی آئی کی اسپیشل کورٹ کے جج بی ایچ لویا کی موت کو لےکر بامبے  ہائی کورٹ کی ناگ پور عدالتی بنچ میں ایک عرضی دائر کی گئی ہے۔ لائیو لاء کی خبر کے مطابق؛ ناگ پور کے ایک وکیل ستیش اوکے کے ذریعے دائر اس عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ریڈیوایکٹیو آئسوٹوپ زہر کی وجہ سے بی ایچ لویا کی موت ہوئی تھی۔ ستیش نے عرضی میں یہ بھی کہا ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔

209 صفحات کی عرضی میں ستیش نے دعویٰ کیا ہے کہ وکیل شری کانت کھانڈلکر اور وکیل پرکاش تھومبرے، جن کی مبینہ طور پر پراسرار حالات میں موت ہو گئی تھی، نے ان کو بتایا تھا کہ لویا کو ریڈیوایکٹو آئسوٹوپ زہر دیا گیا تھا۔ اوکے کے مطابق جج لویا نے ان کو بتایا تھا کہ سہراب الدین معاملے کی وجہ سے مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس کے ذریعے ان کو لگاتار دھمکایا جا رہا تھا۔

واضح  ہو کہ سی بی آئی کی اسپیشل  عدالت کے جج لویا سہراب الدین انکاؤنٹر معاملے کی سماعت کر رہے تھے، جس میں بی جے پی صدر امت شاہ سمیت گجرات پولیس کے کئی اعلیٰ افسروں کے نام آئے تھے۔ عرضی میں بتایا گیا ہے کہ سہراب الدین معاملے میں اہم ملزم کے طور پر امت شاہ کو بری کرنے کے معاملے پر لویا نے فیصلے کا مسودہ پہلے سے ہی تیار کر لیا تھا، جس کو انہوں نے کھانڈلکر کے ساتھ شیئر  کیا تھا۔ حالانکہ ستیش کے مطابق، کھانڈلکر کی موت بھی پراسرار حالات میں ہوئی تھی کیونکہ عدالت کے احاطے میں ان کی لاش ملنے کے دو دن پہلے سے وہ لاپتہ تھے۔

واضح  ہو کہ ستیش اوکے کے ذریعے پہلے بھی جج لویا کی ‘ پراسرار ‘ موت کو لےکر الزام لگایا گیا تھا۔ ان کے ذریعے اس سے پہلے دائر عرضی میں انہوں نے  اپنے دوستوں وکیل کھانڈلکر اور جج لویا کی موت کے بارے میں کہا تھا اور یہ بھی بتایا تھا کہ ان کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔ مئی 2016 میں ٹرین سے ناگ پور سے بنگلور جانے کے دوران وکیل پرکاش تھومبرے کی ‘ پراسرار حالات ‘ میں موت ہو گئی تھی۔

اوکے نے یہ بھی بتایا کہ 8 جون 2016 کو ناگ پور میں ان کے دفتر پر وزنی پائپ، لوہے کی شیٹ اور سریئے گرے، لیکن کچھ منٹ پہلے ہی وہاں سے نکل جانے کی وجہ سے  وہ بچ گئے۔ اس لئے انہوں نے یہ گزارش کی ہے کہ تمام ضروری دستاویزوں کو عدالت کے پاس محفوظ رکھا جائے کیونکہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔اب تک ان کی عرضی کسی بنچ کے سامنے نہیں رکھی گئی ہے۔

دی ٹیلی گراف سے بات کرتے ہوئے ستیش نے کہا، ‘ مجھے نہیں معلوم  کہ میں کل زندہ رہوں‌گا یا نہیں۔ جج لویا کی موت سے متعلق ریکارڈس مٹا دئے گئے، لیکن ہم نے کچھ دوسرے محکموں  کے ذریعے دستاویزوں کو دوبارہ حاصل کیا ہے، جن کو میں نے اپنی عرضی کے ساتھ جمع کیا ہے۔ میری عدالت سے یہی اپیل ہے کہ وہ ان دستاویزوں کی حفاظت کو یقینی بنائے، جس سے جانچ  ہو سکے بھلےہی میں مر جاؤں۔ ‘

ستیش نے یہ بھی بتایا کہ ان کے پاس جج لویا کی موت سے جڑے اور ثبوت بھی ہیں، وہ بعد میں ہائی کورٹ میں پیش کریں‌گے۔ غور طلب ہے کہ جج لویا کی موت 1 دسمبر 2014 کو ناگ پور میں ہوئی تھی، جس کی وجہ دل کا دورہ پڑنا بتایا گیا تھا۔ وہ ناگ پور اپنے معاون  جج سوپنا جوشی کی بیٹی کی شادی میں گئے ہوئے تھے۔

نومبر 2017 میں جج لویا کی موت کے حالات پر ان کی بہن انورادھا بیانی نے سوال اٹھائے تھے۔ انہوں نے دی کارواں  سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسی کئی وجہیں ہیں، جن سے ان کو ان کے بھائی کی موت سے جڑے حالات پر شک ہے۔ لویا اپنی موت کے وقت سہراب الدین شیخ انکاؤنٹر معاملے کی سماعت کر رہے تھے۔ انورادھا نے یہ بھی کہا کہ لویا کو بامبے  ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس موہت شاہ کے ذریعے معاملے میں من موافق فیصلہ دینے کے عوض میں بطور رشوت 100 کروڑ روپے دینے کی پیشکش بھی کی گئی تھی۔

دی کارواں کی رپورٹ کے بعد سماجی کارکن تحسین پوناوالا، مہاراشٹر کے صحافی بی ایس لونے اور بامبے  لائرس ایسوسی ایشن نے جج لویا کی موت کی تفتیش کروانے کی مانگ کی عرضی دائر کی تھی، جس کی سماعت سپریم کورٹ کر رہی تھی۔ 19 اپریل 2018 کو اس معاملے میں فیصلہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ جج لویا کی فطری موت ہوئی تھی اور ان عرضی میں انصاف کے عمل میں رکاوٹ پیدا  کرنے اور بدنام کرنے کی سنگین کوشش کی گئی ہیں۔

سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ سیاسی مخالفوں کے ذریعے دائر یہ عرضیاں اپنے-اپنے حساب برابر کرنے کے لئے تھیں جو عدلیہ کو تنازعوں  میں لانے اور اس کی آزادی پر سیدھے ہی انصاف کے عمل میں مداخلت ڈالنے کی سنگین کوشش تھی۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ جج لویا کی موت سے متعلق حالات کو لےکر دائر سارے مقدمےاس فیصلے کے ساتھ ختم ہو گئے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ  کے اس فیصلے پر از سر نو غور  کے لئے بھی ایک عرضی دائر کی گئی، جس کو بھی سپریم کورٹ نے خارج کر دیا تھا۔