خبریں

پی ڈی پی گٹھ بندھن کے ذریعے حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کرنے کے بعد گورنر نے جموں و کشمیر اسمبلی تحلیل کی

پی ڈی پی صدرمحبوبہ مفتی نے کانگریس اور نیشنل کانفرنس کی حمایت سے حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کیا تھا۔  پیپلس کانفرنس کے رہنما سجاد لون نے بھی بی جے پی اور دیگر ایم ایل اے کے تعاون سے دعویٰ کیا تھا۔

گورنر ستیہ پال ملک۔  (فوٹو : پی ٹی آئی)

گورنر ستیہ پال ملک۔  (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی : جموں و کشمیر میں تیزی سے بدلے سیاسی واقعات کے تحت پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کے ذریعے حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کئے جانے کے کچھ ہی دیر بعد گورنر ستیہ پال ملک نے بدھ کی رات ریاستی اسمبلی کوتحلیل کر دیا۔ ساتھ ہی کہا کہ جموں و کشمیر کے آئین کے متعلقہ اہتماموں کے تحت یہ کارروائی کی گئی ہے۔ایک سرکاری بیان میں یہ جانکاری دی گئی ہے۔اس سے کچھ ہی وقت پہلے جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ اور پی ڈی پی صدر     محبوبہ مفتی نے کانگریس اور نیشنل کانفرینس کی حمایت سے جموں و کشمیر میں حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کیا تھا۔

مفتی نے بدھ کو گورنر ستیہ پال ملک کو لکھے خط میں کہا تھا کہ ریاستی اسمبلی میں پی ڈی پی سب سے بڑی پارٹی ہے جس کے 29 ممبر ہیں۔انہوں نے لکھا، ‘آپ کو میڈیا کی خبروں سےپتہ چلا ہوگا کہ کانگریس اور نیشنل کانفرنس نے بھی ریاست میں حکومت بنانے کے لئے ہماری پارٹی کو حمایت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔  نیشنل کانفرنس کے ممبروں کی تعداد 15 ہے اور کانگریس کے 12 ایم ایل اے ہیں۔  لہذا ہماری اجتماعی تعداد 56 ہو جاتی ہے۔  ‘

    محبوبہ نے اپنے خط میں کہا، ‘چونکہ اس وقت میں شرینگر میں ہوں، اس لئے میرا آپ سے فوراً ملاقات کرنا ممکن نہیں ہوگا اور یہ آپ کو اس بابت مطلع کرنے کے لئے ہے کہ ہم جلدہی ریاست میں حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کرنے کے لئے آپ کی سہولت سے ملنا چاہیں‌گے۔  ‘اس کے بعد     محبوبہ مفتی نے ایک ٹوئٹ کرکے بتایا کہ ان کی حکومت بنانے کے دعویٰ کا فیکس راج بھون نہیں جا رہا ہے۔

راج بھون کو فیکس نہ ملنے کی وجہ سے     محبوبہ مفتی نے اس کو ٹوئٹر پر ہی شیئر کر دیا۔  حکومت بنانے کادعویٰ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا، ‘راج بھون میں خط بھیجنے کی کوشش کر رہی ہوں، حیرانی کی بات یہ ہے کہ فیکس ان کونہیں  ملا ہے۔  محترم گورنر سے فون پر بات کرنے کی بھی کوشش کی لیکن وہ دستیاب نہیں ہو سکے۔  امید ہے آپ اس کو دیکھ لیں‌گے۔  ‘

انہوں نے کہا، ‘تکنیک کے زمانے میں حیران کرنے والی بات ہے کہ گورنر  کی رہائش گاہ میں لگی فیکس مشین کو ہمارے ذریعے بھیجا گیا فیکس نہیں مل سکا، لیکن اسمبلی تحلیل کرنے کی اطلاع آسانی سے جاری کر دی گئی۔  ‘    محبوبہ نے ٹوئٹ کرکے کہا کہ پچھلے پانچ مہینوں سے سیاسی تعلقات کی پرواہ کئے بغیر،’ہم نے اس خیال کو شیئر کیا تھا کہ ایم ایل اے کی خریدوفروخت اور دل بدل کو روکنے کے لئے ریاستی اسمبلی فوراً     تحلیل کی جانی چاہیے۔  ‘

انہوں نے کہا، ‘ لیکن ہمارے خیالات کو نظرانداز کیا گیا، لیکن کس نے سوچا ہوگا کہ ایک مہاگٹھ بندھن کا خیال اس طرح کی بےچینی پیدا کردے‌گا۔  ‘اس کے بعد عمر عبداللہ نے ٹوئٹ کیا،’جموں و کشمیر راج  بھون کو نئی     فیکس مشین کی فوراً ضرورت ہے۔  ‘

نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے ٹوئٹ کیا کہ ان کی پارٹی پانچ مہینوں سے اسمبلی     تحلیل کئے جانے کا دباؤ بنا رہی تھی۔  یہ کوئی اتفاقیہ نہیں ہو سکتا کہ     محبوبہ مفتی کے دعویٰ پیش کئے جانے کے کچھ ہی منٹوں کے اندر اچانک اسمبلی کو     تحلیل کئے جانے کا حکم آ گیا۔اسی بیچ گورنر ستیہ پال ملک نے اسمبلی     تحلیل کرنے کا حکم جاری کر دیا۔  اس پر مفتی نے ایک کے بعد ایک کئی ٹوئٹ کئے۔  ان میں سے کئی کو عمر عبداللہ نے ری ٹوئٹ بھی کیا۔

کانگریس کے سینئر رہنما غلام نبی آزاد نے کہا کہ ایک مقبول  حکومت کی تشکیل کرنے کے لئے مذاکرہ شروعاتی مرحلے میں تھی اور مرکز کی بی جے پی حکومت اتنی فکرمند تھی کہ انہوں نے اسمبلی     تحلیل کر دی۔آزاد نے کہا، ‘واضح ہے کہ بی جے پی کی پالیسی یہی ہے کہ یا تو ہم ہوں یا کوئی نہیں۔  ‘ادھر، اسمبلی     تحلیل کئے جانے کے اعلان سے کچھ ہی دیر پہلے پیپلس کانفرنس کے رہنما سجاد لون نے بھی بی جے پی کے 25 ایم ایل اے اور 18 سے زیادہ دیگر ایم ایل اے کی حمایت سے جموں و کشمیر میں حکومت بنانے کا دعویٰ بدھ کو پیش کیا تھا۔

لون لندن سے دہلی کی ایک اڑان میں تھے۔  اسی دوران انہوں نے گورنر کو وہاٹس ایپ کے ذریعے پیغام بھیجا جس میں انہوں نے بھی حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کیا۔لون نے گورنر کو ایک خط لکھ‌کر کہا تھا کہ ان کے پاس حکومت بنانے کے لئے ضروری تعداد  سے زیادہ ایم ایل اے کی حمایت ہے۔ان کا کہنا تھا، ‘جموں و کشمیر میں حکومت تشکیل کے لئے فون پر ہوئی ہماری بات چیت کے بعد میں جموں و کشمیر ریاستی اسمبلی میں بی جے پی اور 18 دیگر منتخب ممبروں کی حمایت سے حکومت بنانے کا رسمی طور پر دعویٰ پیش کرتا ہوں۔  ‘

لون نے کہا تھا کہ جب ان سے کہا جائے‌گا تب وہ بی جے پی ایم ایل اے کی جماعت اور دیگر ممبروں کی حمایت کا خط پیش کریں‌گے۔اس سے پہلے دن میں سینئر پی ڈی پی رہنما الطاف بخاری نے دعویٰ کیا کہ تقریباً 60 ایم ایل اے 87 رکنی ایوان میں مجوزہ اتحاد کی حمایت کر رہے ہیں۔غور طلب ہے کہ جموں و کشمیر میں بھگوا پارٹی کے ذریعے حمایت واپس لئے جانے کے بعد پی ڈی پی-بی جے پی اتحاد ٹوٹ گیا تھا جس کے بعد 19 جون کو ریاست میں چھے مہینے کے لئے گورنر حکومت لگا دی گئی تھی۔  ریاستی اسمبلی کو بھی معطل رکھا گیا تھا تاکہ سیاسی پارٹیاں نئی حکومت کی تشکیل کے لئے امکان تلاش سکیں۔

اس پر رد عمل کا  اظہار کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)نے بدھ کو کہا کہ جموں و کشمیر میں بہتر راستہ یہ ہے کہ یہاں جلد سے جلد  اسمبلی انتخاب کرائے جائے۔بی جے پی نے اپوزیشن  پارٹیوں کے مجوزہ اتحاد کی مذمت کرتے ہوئے اس کو ‘دہشت-موافق پارٹیوں کا اتحاد’بتایا۔جموں و کشمیر میں حکومت بنانے کے لئے حریف جماعتوں کے دعووں کے درمیان گورنر کے ذریعے اسمبلی     تحلیل کئے جانے کے فوراً بعد بی جے پی نے ٹوئٹر پر کہا کہ سیکورٹی  کو دھیان میں رکھتے ہوئے یہ سرحدی ریاستی ایم ایل اے کی خرید فروخت عدم استحکام کا خطرہ نہیں اٹھا سکتا ہے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)