خبریں

جیلوں کی حالت سے ناراض سپریم کورٹ نےکہا؛ کیا قیدیوں کے کوئی حقوق نہیں ہیں؟

عدالت نے کہا،’ تمام چیزوں کا مذاق بنا دیا گیا ہے۔ کیا قیدیوں کے کوئی حقوق نہیں ہیں؟ مجھے نہیں معلوم کہ افسروں کی نظر میں قیدیوں کو انسان بھی مانا جاتا ہے یا نہیں۔‘

(فوٹو : پی ٹی آئی)

(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی:سپریم کورٹ نے جمعرات کوملک کی جیلوں کی بری حالت پر مرکزی حکومت کی کھنچائی کی اور سوال کیا کہ افسروں کی نظر میں قیدیوں کو انسان مانا جاتا ہے یا نہیں۔ جسٹس مدن بی لوکور کی صدارت والی بنچ نے ہندوستان میں فارینسک سائنس تجربہ گاہوں میں تقریباً 48 فیصدی عہدوں کے خالی ہونے پر بھی نوٹس لیا اور مرکزی حکومت سے پوچھا کہ ایسی حالت میں زیر غور قیدیوں کے لیے جلد شنوائی کیسے ممکن ہوگی ؟

 جسٹس مدن بی لوکور نے کہا،’ تمام چیزوں کا مذاق بنا دیا گیا ہے۔ کیا قیدیوں کے کوئی حقوق نہیں ہیں؟ مجھے نہیں معلوم کہ افسروں کی نظر میں ان کو (قیدیوں) کو انسان بھی مانا جاتا ہے یا نہیں۔‘بنچ نے مرکزی حکومت کے وکیل سے کہا،’ اپنے افسروں سے جاکر جیلوں کی حالت دیکھنے کو کہیے۔ کئی سالوں سے پتائی نہیں ہوئی ہے۔ نل کام نہیں کر رہے ہیں۔ ٹوائلٹ کام نہیں کر رہے ہیں۔ سیوج نہیں ہے اور جیلوں میں حالت بہت بری ہے۔ ‘

سپریم کورٹ دو ججوں (ایک ریٹائرڈ)کے ذریعے پوائنٹ آؤٹ کی گئی جیلوں کی کمیوں سے متعلق معاملے کی شنوائی کر رہی تھی۔ ججوں نے اس سال جون میں فرید آباد جیل اور سدھار گریہہ کا دورہ کیا تھا۔ بنچ نے اس معاملے میں آگے کی شنوائی کے لیے 29 نومبر کی تاریخ طے کی ہے۔ گزشتہ ستمبر مہینے میں سپریم کورٹ نے سابق جج جسٹس امیتاؤ رائے کی صدارت میں 3 رکنی کمیٹی کی تشکیل کی تھی جو ملک بھر میں جیل اصلاحات کے سبھی پہلوؤں کو دیکھے گی اور ان کے لیے مشورے دے گی۔

جسٹس ایم بی لوکور کی صدارت والی بنچ نے کہا کہ کمیٹی جیلوں میں متعینہ تعداد سے زیادہ قیدیوں سمیت اور بھی کئی مدعوں کو دیکھے گی۔ سپریم کورٹ نے 27 اگست کو کمیٹی کی تشکیل کے مدعے پر  اپنا فیصلہ محفوظ ررکھ لیا تھا۔ کمیٹی خواتین قیدیوں سے جڑے مدعوں کو بھی دیکھے گی۔ واضح ہو کہ سپریم کورٹ پورے ہندوستان میں 1382 جیلوں میں غیر انسانی حالات سے جڑے مدعے کی شنوائی کر رہی ہے۔ کورٹ کے ذریعے بنائی گئی کمیٹی کو سرکاری افسروں کے ذریعے مدد دی جائے گی اور وقت – وقت پر سپریم کورٹ کے سامنے رپورٹ پیش کرے گی۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)