فکر و نظر

جنسی استحصال پر چپ رہنے کا فائدہ صرف ملزم کو ملتا ہے

انٹرویو: کام کرنے کی جگہ پر جنسی استحصال اور می ٹو تحریک سے جڑے مختلف پہلوؤں پر معروف مؤرخ اور حقوق نسواں کی علمبرداراوما چکرورتی اورامبیڈکریونیورسٹی کی استادوسودھا کاٹجو سے   سرشٹی شریواستو  کی بات چیت۔

وسودھا کاٹجواور اوما چکرورتی

وسودھا کاٹجواور اوما چکرورتی

پچھلے کچھ مہینوں سے مختلف شعبوں  میں کام کرنے والی خواتین#می ٹو مہم کے تحت اپنے ساتھ ہوئے جنسی استحصال کے تجربات شیئر کر رہی ہیں۔خواتین نے سوشل میڈیا پر اپنے ساتھ ہوئے زیادتی کے معاملوں پر آپ بیتی بتاتے ہوئے ان مردوں کے نام بھی کھل‌کر لکھے جن کی وجہ سے ان کو جسمانی اور ذہنی تکلیف سے گزرنا پڑا اور کئی بار تو نوکری بھی چھوڑنی پڑی۔اس سلسلے میں کئی بڑے نام سامنے آئے اور اس پر بہت سے رد عمل بھی آئے۔  بہت سے ملزمین  نے اس پر خاموشی اختیار کرنا ٹھیک سمجھا اور کئی لوگوں  نے اس پر ‘وکٹم بلیمنگ’اور ‘ وکٹم شیمنگ’یعنی اس کے لئے متاثرہ کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا اور اس کو شرمسار کرنے کی کوشش کی۔

جب کبھی بھی ریپ، جنسی استحصال اور چھیڑچھاڑ کے واقعات سامنے آتے ہیں تو سماج اکثر خواتین کو اس کے لئے ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔اس سلسلے میں کئی بار خواتین سے ہی سوال کئے جاتے ہیں کہ آخر وہ اس وقت  اس جگہ پر موجود کیوں تھیں یا انہوں نے کیسے کپڑے پہنے تھے یا وہ اس آدمی کے ساتھ کیوں گئیں، کسی پر اعتماد کیوں کیا یا جب پریشانی تھی تو نوکری یا کالج چھوڑ کیوں نہیں دی۔مطلب سماج میں اعتماد توڑنے اور زیادتی کرنے والے کو نہیں بلکہ متاثرہ کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور کئی ایسے معاملے بھی سامنے آئے جن میں متاثرہ کو کسی منظم سپورٹ سسٹم کے نہ ہونے کی وجہ سے نوکری تک چھوڑنی پڑی۔

# می ٹو تحریک اپنے آپ میں کئی معنوں میں خاص تھی۔اس کی سب سے بڑی خصوصیت تھی کہ خواتین ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی نظر آئیں۔وشاکھا گائیڈلائن آنے کے بعد بھی بہت سی یونیورسٹیوں اور کام کرنے کی جگہوں میں آئی سی سی کی تشکیل نہیں ہوئی ہے اور کچھ میں آئی سی سی تشکیل ہونے میں صحیح پروسس پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے شفافیت میں بہت سی خامیاں ہیں۔ کہیں آئی سی سی ہونے کے بعد بھی جنسی استحصال کے معاملے میں متاثرہ اور ملزم دونوں کے حقوق کو اہمیت نہ دے پانے کی ایک بڑی وجہ اداروں میں’پاور اکویشن’ہے یعنی الگ الگ عہدوں پر ہونے کی وجہ سے طاقت کا استعمال، جس کو سمجھتے ہوئے ہی وشاکھا گائیڈلائن لائی گئی۔

سپریم کورٹ نے سال 1992 میں کام کرنے کی جگہ پر ہونے والے جنسی استحصال کو لےکر گائیڈ لائن بنائے گئے تھے۔راجستھان حکومت اور وشاکھا این جی او کے درمیان یہ ایک تاریخی مقدمہ تھا، جس نے سماج میں خواتین کی حالت مضبوط کرنے میں کافی مدد کی۔اس دوران   بچپن کی شادی کو روکنے کے لئے راجستھان حکومت نے مہم چلائی تھی جس میں بھنوری دیوی نام کی خاتون راجستھان حکومت کی خواتین کی ترقی کےمنصوبہ سے جڑ‌کر کام کر رہی تھیں۔انہوں نے ایک سال کی بچی کی شادی روکنے کی کوشش کی تھی جس کے بعد 5 دیہاتیوں نے بھنوری کے شوہر کو باندھ‌کر ان کی آنکھوں کے سامنے ان کا ریپ  کیا تھا۔

چونکانے والی بات یہ تھی کہ ضلع اور سیشن عدالت نے بعد میں ان پانچوں ملزمین کوبری کر دیا۔  اس واقعہ کے بعد ‘وشاکھا ‘نام کی این جی او کے ذریعے سپریم کورٹ میں ایک عرضی ڈالی گئی۔اس میں درخواست گزاروں نے کام کرنے کی جگہ کو خواتین کے لئے محفوظ بنانے اور جنسی استحصال جیسے مسائل سے نپٹنے کے لئے ایک قانون بنانے کے لئے عدالتی مداخلت کی مانگ رکھی تھی۔اس معاملے میں کام کرنےوالی خواتین کو جنسی جرائم، ظلم وستم اور تشدد سے بچانے کے لئے کورٹ نے وشاکھا گائیڈلائن کو دستیاب کرایا اور اگست 1997 میں اس فیصلے میں کام کرنے کی جگہ پر جنسی استحصال کی بنیادی تعریفیں دیں گئی۔  جس کے بعد ہدایات تیار کئے گئے اور پھر قانون بنایا گیا اور عوامی اورنجی کام کرنے کی جگہوں میں ان پر عمل کرنا لازمی کر دیا گیا۔  سپریم کورٹ کے ذریعے اٹھایا گیا یہ قدم تاریخی تھا۔

اس کے بعد کام کرنے کی جگہ پر خواتین کی عزت کی حفاظت کے لئے ورک پلیس بل، 2012 بھی لایا گیا جس میں جنسی مساوات، زندگی اور آزادی کے حقوق کو لےکر سخت قانون بنائے گئے ہیں۔  لیکن اس پر قانون ہوتے ہوئے بھی ابھی بھی مسئلہ بہت زیادہ دکھتا ہے۔آج بھی زیادہ تر معاملوں میں متاثرہ کو ہی قیمت چکانی پڑتی ہے۔  بہت سی جگہوں پر آج بھی آئی سی سی نہیں ہے جہاں ہے بھی وہاں شفافیت نہیں اور طاقت کا غلط استعمال ہوتا ہے اور کئی جگہوں پر جہاں خواتین ٹھیکہ ملازم ہیں وہاں ان کو ملازم سمجھا ہی نہیں جاتا اور جنسی استحصال کی شکایت کرنے پر نوکری تک سے نکال دیا جاتا ہے۔

حال ہی میں   آکاشوانی میں جو ہوا وہ اس بات کی مثال ہے۔ وہاں جنسی استحصال کا الزام لگانے والی 9 خواتین ملازموں‎ کو نکال دیا گیا۔می ٹو تحریک کے ساتھ بہت سارے سوال بھی کھڑے ہوئے۔  اس کی اہمیت، دائرے، تاریخ اور طریقے پر بحث ہوئی۔  کچھ لوگوں کو کہنا تھا یہ ایلیٹ خواتین کی تحریک ہے، کچھ لوگوں نے اس کو ‘نیم اینڈ شیم’یعنی نام لےکر کسی کو بدنام کرنے کی کوشش کہہ‌کر اس تحریک کی مخالفت کی۔حالانکہ کچھ لوگ اس طریقے کے حق میں بھی تھے۔  کچھ خواتین کا کہنا تھا کہ اس طرح کی تحریک پہلی بار ہوئی ہے وہیں کچھ خواتین کہہ رہی تھیں کہ تاریخ میں چھوٹی سطح پر ہی صحیح لیکن کچھ خواتین کی مزاحمت کی وجہ سے ایک زمین تیار ہوئی جس پر بعد میں جنسی استحصال کو لےکر قانون بنا۔

ان تمام پہلوؤں کو    لےکر معروف مؤرخ اور    حقوق نسواں کی علمبردار    اوما چکرورتی اور امبیڈکر یونیورسٹی کی    استاد     وسودھا کاٹجو کی دی وائر کے ساتھ بات چیت۔  اوما نے ذات اور جنسی مساوات سمیت تاریخ کے کئی موضوعات پر کتابیں لکھیں ہیں۔  اوما کو ہندوستان میں حقوق نسواں کی تحریک کی’فاؤنڈنگ مدر ‘بھی کہا جاتا ہے۔   وسودھا لمبے وقت تک    حقوق نسواں کی  تحریک سے جڑی رہی ہیں۔  ان کو    استاد کے ساتھ-ساتھ سماجی کارکن کے طور بھی جانا جاتا ہے۔  دونوں ہی جنسی استحصال جیسے مدعوں پر بولڈ انداز میں اپنی آواز اٹھاتی رہی ہیں۔

ان دنوں خواتین می ٹو تحریک کے تحت کام کرنے کی جگہ پر ہونے والی زیادتی  کے اپنے تجربات کے ساتھ سامنے آئی ہیں۔  اس کے بارے میں آپ کیا سوچتی ہیں؟

  وسودھا :می ٹو تحریک ایک اہم شروعات ہے لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ پہلی تحریک نہیں ہے جس نے کام کرنے کی جگہ پر ہونے والے جنسی تشدد کا مدعا اٹھایا ہے۔  اس سے پہلے بھی کئی خواتین تنظیموں نے اس مدعا کو اٹھایا ہے جس کی وجہ سے وشاکھا گائیڈلائن قانونی شکل میں نافذ ہو سکا۔اس سے پہلے بھی کچھ خواتین نے اپنے کام کرنے کی جگہ پر ہونے والے جنسی استحصال کے خلاف قانونی کارروائی کی شروعات کی تھی۔  لیکن اس بار کی خاصیت یہ ہے کہ یہ ساری کہانیاں یا واقعات کھلے طور پر عام ہوئے ہیں۔

جو باتیں پہلے پوشیدہ  رہتی تھیں یا ان کہی رہ جاتی تھیں وہ اب پورے سماج کے سامنے آئی ہیں۔  جنسی استحصال کو    لےکر جو خاموشی ہوتی ہے، اس سے صرف ملزم کو فائدہ ہوتا ہے۔  جب یہ باتیں سامنے آتی ہیں تو یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ متاثرہ کو انصاف ملے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک خاتون کے بولنے سے اس بات کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے کہ دیگر خواتین بھی اپنی بات بولنے کی ہمت کر سکیں‌گی۔کسی کام کرنے کی جگہ پر جب ایک متاثرہ اپنی آپ بیتی بتاتے ہوئے شکایت درج کراتی ہے تو اس کے ساتھ مضبوطی سے لوگ کھڑے ہوتے ہیں تو اور دوسری خواتین کو بھی ہمت ملتی ہے۔

جیسا کہ آپ نے کہا کہ می ٹو مہم سے پہلے بھی بہت سے ایسے معاملے سامنے آئے جن کے ذریعے کام کرنے کی جگہ پر جنسی استحصال پر بحث شروع ہو سکی۔  می ٹو مہم سماج میں کیا تبدیلی لائے‌گی؟

   وسودھا :یہ بات صحیح ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا ہے کہ کام کرنے کی جگہ پر ظلم وستم کا مدعا سامنے آیا ہے۔ اس سے پہلے بھی کچھ بہت بڑے نام اس میں سامنے آ چکے ہیں جن میں جسٹس اے کے گانگولی، جسٹس سوتنترکمار اور ماہر ماحولیات اے کے پچوری کے نام شامل ہیں۔الگ الگ وقت میں سامنے آئے یہ الگ الگ معاملے اہم ہیں۔  اس سے پہلے کئی بار خواتین نے جنسی استحصال کے ساتھ کام کرنے کی جگہ پر ہونے والی جانبداری، تنخواہ میں فرق اور خواتین کے لئے بنیادی سہولت کی مانگ اٹھائی ہے، جن کا اثر بھی ہوا ہے۔می ٹو تحریک نے خواتین کو ایک ساتھ آنے کا ایک موقع دیا، ان کہانیوں کو ایک رفتار دی جس سے وہ ایک دوسرے سے ہمت    لےکر سامنے آ پائی ہیں۔

وشاکھا گائیڈلائن کو میڈیا ہاؤس یا کسی بھی ادارے میں نافذ کرنے میں کیا کیا دقتیں آ رہی ہیں اور اس میں ادارے میں الگ الگ عہدوں کی وجہ سے ‘ پاور  اکویشن ‘ کیسے کام کرتا ہے؟

   اوما :سب سے پہلے تو ہمیں سمجھنا پڑے‌گا کہ ہر طرح کے کام کرنے کی جگہ میں جنسی استحصال کے مسائل سے نپٹنے کے لئے ایک منظم نظام بنانا بہت ضروری ہے۔وشاکھا گائیڈلائن نے اس بات کو صاف کیا ہے کہ یہ ذمہ داری مالک کی ہوتی ہے۔  زیادہ تر اداروں جیسے کہ میڈیا ہاؤس میں باس یا ایڈیٹر کے پاس بہت سی طاقتیں ہوتی ہیں۔  وہ ایک نامہ نگار کو کہیں بھی بھیج سکتے ہیں یا بلا سکتے ہیں، اپنے من کی چیزیں کرنے کا لائسنس ہوتا ہے۔

نامہ نگار کو نوکری دینا اور نکال دینا، پرموشن دینا پوری طرح سے ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے، ہمیں سمجھنا ہوگا مالک ہائر اینڈ فائر پالیسی کا استعمال کر سکتے ہیں۔20 -21 سال کی ایک خاتون کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ آج اس کو بتا پا رہی ہے، لیکن بہت سی خواتین ایسی بھی ہیں جو بیس سال پہلے کا واقعہ  شیئر کر رہی ہیں،اب جب وہ کسی پروفیشن میں سیٹل ہو گئی ہیں یا اس ادارے سے نکل‌کر کہیں اور نوکری کرنے لگی ہیں۔

مطلب اب ان کو ڈر نہیں ہے جیسا 20سال پہلے کیریئر کی شروعات میں تھا۔اس کی سیدھی وجہ ہے میڈیا اور این جی او جیسے اداروں کی جوابدہی میں کمی ہونا۔اگر ملا   زمین کی کوئی استحکامیت ہی نہیں ہوگی اور وہ ہر طرح سے ادارے کے مالک پر انحصار کریں‌گی ایسے میں طاقت کا غلط استعمال ہونا عام بات ہے۔اگر 20-22 سال کی کسی لڑکی کو ایڈیٹر کسی ہوٹل میں بلاتا ہے تو ان کا وہاں جانا مجبوری ہوتی ہے۔  آخر وہ مالک ہے جو نوکری دیتا ہے یا نوکری سے نکال سکتا ہے۔

کسی بھی ادارے میں اس طرح کا منظم نظام ہونا ضروری ہے جو خواتین کے متعلق جواب دہ ہو اور ادارے میں خاتون کو چیز کی طرح نہ دیکھا جائے۔جس طرح کی کہانیاں باہر آ رہی ہیں وہ دل دہلانے والی ہیں کسی خاتون کو کام کرنے کی جگہ پر غلط طریقے سے چھوا جا رہا ہے، غلط باتیں بولی جا رہی ہیں، دھمکایا جا رہا ہے، اس سے خطرناک اور کیا ہو سکتا ہے۔وشاکھا گائیڈلائن نے اس بات کو صاف طریقے سے کہا کہ کسی بھی ادارے میں خواتین کے متعلق جواب دہ ایک منظم نظام کا ہونا مالک یا باس کی ذمہ داری ہے۔

اس پروفیشن میں اتنی ساری خواتین آئی ہیں، پر اس حساب سے انتظام ٹھیک نہیں کیا گیا، کسی نے نہیں سوچا کہ خواتین آکر کام کریں‌گی تو اس جگہ کا ماحول بھی سدھارا جائے، محفوظ بنایا جائے اور ایسی پالیسیاں ہوں جو خواتین کے متعلق جواب دہ ہوں۔جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ خاتون کو عوامی طور پر لکھ‌کر ‘نیم اینڈ شیم’نہیں کرنا چاہیے وہ خود بتائیں کہ طریقہ کیا بچا ہے۔  جب جنسی استحصال کے مسائل سے نپٹنے کے لئے کسی بھی ادارے میں شفاف اور مضبوط نظام ہے ہی نہیں تو خواتین کے پاس ایک ہی راستہ بچتا ہے وہ ہے عوامی طور پر آکر # می ٹو کہنا۔

اگر آپ کا نظام شفاف، غیر جانبدار اور مضبوط نہیں ہے کہ خاتون کو اس پر اعتماد ہو سکے تو اس کو جو طریقہ صحیح لگ رہا ہے اس کو وہ اپنانا ہی چاہیے۔ہر ادارے میں منتخب ہوئی آئی سی سی ہونی ضروری ہے، ہر ادارے کو اس کے محکمہ جات میں تقسیم کیا جانا چاہیے اور ہر محکمہ کا نمائندہ آئی سی سی میں ہونا چاہیے۔  ادارے میں طاقت کو سمجھتے ہوئے یہ بات بہت پہلے صاف کر دی گئی تھی آئی سی سی کے ممبر مالک کے ذریعے تقرر نہیں ہونی چاہیے۔

آپ نے الگ الگ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی ہے اور لمبے وقت تک درس وتدریس کا فریضہ بھی انجام دیا ہے۔  اس دوران استحصال سے متعلق آپ کا کوئی تجربہ؟

   اوما : میں سال 1970 میں اپنے ریسرچ کے لئے خاص زبان کا کورس کر رہی تھی۔  اس کورس میں صرف تین طلبہ و طالبات تھیں۔  بعد میں 2 نے ڈراپ کر دیا تو میں اکیلی بچی۔  اب اکیلے کسی بھی اسٹوڈنٹ کو پورا کلاس روم تو نہیں دیا جا سکتا تو پروفیسر کے کیبن میں ہی کلاس ہوتی تھی۔

اس دوران ایک پروفیسر نے اپنی طاقت اور عہدے کا استعمال کرتے ہوئے مجھ سے کئی بار قابل اعتراض باتیں کہیں اور اس جگہ کو میرے لئے بہت ڈراونا بنا دیا۔خاص بات یہ ہے اس وقت جنسی استحصال جیسی چیزوں کو سمجھانے کے لئے زبان ہی نہیں ہوتی تھی ایک لفظ ہم جانتے ہیں وہ تھا ایو ٹیزنگ پر وہ لفظ تو سڑک کے غنڈہ کے ذریعے کی گئی چھیڑچھاڑ کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔

آخرکار میں نے کچھ نہیں کہا اور کلاس جانا ہی چھوڑ دیا۔  جب امتحان ہوا تو  ہر موضوع میں مجھے 70فیصدسے زیادہ نمبر ملے اور اس پروفیسر کے موضوع میں محض 40 فیصدنمبر ملے۔  خاموش رہنے کی اور نہ بول پانے کی قیمت آخرکار مجھے ہی چکانی پڑی۔ایسے بھی کچھ معاملے آئے جہاں روک تھام کا کوئی انتظام نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت ہم لوگوں نے پوسٹر لگاکر عوامی طور پرملزم کا نام لیتے ہوئے مظاہرہ کیا۔

اس وقت جب ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تو ہم نے بھی نیم اینڈ شیم کا طریقہ اپنایا۔بہرحال آج کے وقت میں خواتین جو کر رہی ہیں وہ بہت اچھا ہے اس سے اور خواتین کو ہمت ملے‌گی اور خواتین کے ساتھ ظلم وستم کرنے والے کچھ کرنے سے پہلے کم سے کم دو بار سوچیں‌گے۔

می ٹو تحریک میں شامل خواتین جس ذات یا طبقے سے آتی ہیں، کچھ لوگ اس کو ایلیٹ وومین کی تحریک بھی بتا رہے ہیں؟

   وسودھا : ایک طرح سے دیکھا جائے تو اس تحریک میں وہ عورتیں سامنے آئی ہیں جو اعلیٰ طبقہ کی ہیں اور زیادہ تر اعلیٰ ذاتوں سے ہیں لیکن یہ’ایلیٹ وومین’اپنے ذات اور طبقہ کی وجہ سے جنسی استحصال سے آزاد نہیں ہو جاتیں۔ہمیں سمجھنا ہوگا کہ سماج میں کسی بھی عہدے پر خواتین کو تشدد، جانبداری اور ظلم وستم جیسی چیزوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔یہاں اہم بات یہ ہے کہ خواتین کام کرنے کی جگہ میں ہونے والے جنسی تشدد اور ظلم وستم کا مدعا اٹھا رہی ہیں۔  کام کرنے کی جگہ کے مسائل بتاتے ہوئے اس کو ایک بہتر جگہ بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

می ٹو تحریک کی کیا حدود ہیں؟

   وسودھا : اس تحریک میں اب تک جنسی استحصال کی بہت ساری کہانیاں سامنے آ چکی ہیں۔  بہت ساری خواتین نے یہ بتایا ہے کہ ان پر کیا بیتی ہے۔لیکن آگے جب ان معاملوں پر کارروائی کی جائے‌گی تب بھی ان عورتوں کو مدد اور صحیح خواتین کے سہارے کی ضرورت ہوگی۔  آپ کو بتا دوں کہ ذاتی طور پر اور ایک ادارے کے طور ایسا سہارا دینا آسان نہیں ہے اور اس تحریک کے سامنے یہ ایک چیلنج ہے۔

دوسرا بڑا چیلنج ہے کہ خواتین کو خود اب اس سماج کو آگے کا راستہ دکھانا ہوگا۔  می ٹو تحریک کی وجہ سے  الگ الگ شعبوں میں جنسی استحصال کی کہانیاں سامنے آئی ہیں۔  ان شعبوں میں جس طریقے کا مالک-ملازم کے تعلقات ہیں اس کو بھی سمجھنا ہوگا۔جن جگہوں پر ملازم پرمانینٹ ہے اور جن جگہوں پر ملازم معاہدے پر ہیں، ان دونوں میں صورتحال اور لڑائی ایک جیسی نہیں ہوگی۔  ہمیں ان الگ الگ صورتحال میں جنسی استحصال جیسے مسائل سے نپٹنے کے لئے ایک نظام  تیار کرنا ہوگا۔