فکر و نظر

میزورم کے وزیراعلیٰ لال تھانہاولا کا انٹرویو ؛ میں کانگریسی ہوں اور مرتے دم تک کانگریسی ہی رہوں‌گا

انٹرویو: اسمبلی انتخاب سے پہلے میزورم کے وزیراعلیٰ لال تھانہاولا نے کانگریس چھوڑ‌کر بی جے پی میں جانے کی خبروں کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ آخری وقت میں ووٹروں کو پریشان کرنے کے لئے ایسی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔  اسمبلی انتخاب میں پارٹی کی حکمت عملی سمیت مختلف مدعوں پر ان سے سنگیتا بروا پیشاروتی کی بات چیت۔

میزورم کے وزیراعلیٰ لال تھانہاولا (فوٹو : سنگیتا بروا پیشاروتی/دی وائر)

میزورم کے وزیراعلیٰ لال تھانہاولا (فوٹو : سنگیتا بروا پیشاروتی/دی وائر)

آئیزول: سب سے لمبے وقت تک میزورم کے وزیراعلیٰ رہے لال تھانہاولا، ایک دہائی کے بعد ایک مشکل انتخابی موسم کا سامنا کر رہے ہیں۔  حکومت کے متعلق عدم اطمینان کے علاوہ اس لڑائی کا ایک اورزاویہ بھی  ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذریعے ان کے منصوبوں پر پانی پھیرنے کے لئے ان کی پارٹی کے فاتح ایم ایل اے کو توڑنے یا اقلیتی کمیونٹی کے درمیان ان کی عوامی حمایت کو کم کرنے کی کوششوں نے پورے منظر کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔

جہاں پارٹی صدر امت شاہ نے صرف ریاست کے اقلیتی علاقوں میں انتخابی ریلیوں کو خطاب کیا ہے، وہیں پارٹی رہنما ہیمنتا بیسوا شرما نے شمالی تریپورہ میں چکمہ پناہ گزین چھاؤنیوں میں انتخابی تشہیر کی ہے۔بی جے پی کی کوشش اقلیتوں کے تسلط والی پانچ سیٹوں پر قبضہ زمانے کی ہے، تاکہ وہ 11 دسمبر کو دونوں اہم کھلاڑیوں-کانگریس اور میزو نیشنل فرنٹ-کی معمولی اکثریت سے دور رہ جانے کی حالت میں حکومت بنانے کے کھیل میں شامل ہو سکے۔

دی وائر کو دئے گئے ایک انٹرویو میں، ریاستی کانگریس کمیٹی کے صدر لال تھانہاولا-جن کی قیادت میں پارٹی نے شمال-مشرق کی اس ریاست میں پانچ حکومتیں تشکیل کی ہیں-نے کہا کہ وہ میزورم انتخابات میں بی جے پی کا کوئی خاص کردار نہیں دیکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کو پورا اعتماد ہے کہ بھگوا پارٹی شمال-مشرق میں کانگریس کے آخری گڑھ کو جیت نہیں پائے‌گی۔  حالانکہ، سینئر میزو رہنما نے یہ جوڑا، ‘لیکن سوال ہے کہ انتخابی نتیجہ آنے کے بعد وہ حکومت کا حصہ بننے کے لئے کتنے امیدواروں کو خرید سکتے ہیں اور یہ مجھے پتہ نہیں ہے۔  ‘

پیش ہیں اس بات چیت کے اہم اقتباسات:

آپ لگاتار تیسری مدت  کے لئے عوام کے درمیان جا رہے ہیں۔  آپ کی پارٹی کے اقتدار میں بنے رہنے کا کتنا امکان ہے؟ اپوزیشن  پارٹیوں نے میڈیا میں یہ لگاتار کہا ہے کہ آپ کی حکومت کے خلاف عوام میں کافی عدم اطمینان ہے۔

جہاں تک اس انتخاب کا سوال ہے، ہم کافی اچھی حالت میں ہیں۔  ہمیں اکثریت ملے‌گی ؛ ہم نہ صرف 34 سیٹیں بچانے میں کامیاب ہوں‌گے، بلکہ یہ تعداد 37 تک جا سکتی ہے۔صرف سیاسی جماعتوں کو ہی میری حکومت اور پارٹی کے خلاف لوگوں میں ناراضگی نظر آرہی ہے۔  عوام کے درمیان ایسا جذبہ نہیں ہے۔اپوزیشن  پارٹیاں یہ بھی نہیں دیکھ سکتیں کہ میری حکومت کیوں کام کر رہی ہے۔  وہ صرف لوگوں کے عدم اطمینان کو دیکھ رہے ہیں، جس کو خود ریاست کی عوام نہیں دیکھ رہی ہیں۔  گاؤں کے لوگ میری حکومت کے خلاف ایسا کوئی عدم اطمینان نہیں دیکھ رہے ہیں۔

اہم اپوزیشن  پارٹی-میزو نیشنل فرنٹ (ایم این ایف)کے ذریعے آپ کی حکومت کے خلاف اٹھائے گئے سب سے بڑے مدعوں میں سے ایک مدعا 2014 میں آپ کی حکومت کے ذریعے ریاست میں شراب کی فروخت اور پینے سے پابندی ہٹانے کا فیصلہ ہے۔  ایسا لگتا ہے کہ چرچ اس سے ناراض ہے۔

میں نے فروری 1997 میں چرچ کے ہی کہنے پر شراب بندی کی تھی۔  لیکن آج میں آپ کو یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ بری طرح سے ناکام رہا، کیونکہ اس کو کامیاب بنانے میں چرچ نے میری حکومت کی کبھی مدد نہیں کی۔شراب کی فروخت اور اس کے پینے پر لگی پابندی نے شراب سے آزاد سماج بنانے میں مدد نہیں کی۔ اس نے صرف کالا بازاری کو بڑھانے کا کام کیا۔  کوئی بھی غیر ملکی شراب جس کی قیمت عام طور پر 300-400 روپے ہوتی،1000سے1500 میں بکتی تھی۔  یہ ایک پھلتا-پھولتا کاروبار ہو گیا۔

پڑوسی آسام میں کئی شراب کی دوکانیں صرف میزورم کے کالا بازار کی ضروریات کو پورا کرکے اچھا دھندا کر رہی تھیں۔  میری ریاست میں ملاوٹی شراب بھی لائی جانے لگی، جس سے لوگوں کی موتیں ہوئیں۔  ہمیں شرابیوں، اسمگلر ں کو گرفتار کرنا پڑا اور ان پر قانون کے تحت مقدمہ چلانا پڑا۔  کسی نے ہماری مدد نہیں کی۔

الٹے ان واقعات کے لئے صرف ہمیں ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔  صرف  ینگ میزو ایسوسی ایشن(وائی ایم اے)کے لوگ کبھی کبھی آگے آئے۔  اس لئے میری حکومت نے جزوی طور پر پابندی ہٹانے کا فیصلہ کیا اور اس کو پرمٹ نظام کے تحت لایا گیا(ہر مہینے ذاتی استعمال کے لئے ہندوستان میں بنی غیر ملکی شراب کی 750 ملی کی 6بوتلیں اور بیئر اور وائن کی دس-دس بوتلیں)اور اس کو قانونی کاروبار بنایا گیا۔  اس سے اسمگلنگ بند ہوئی۔

ریاست کا ایک دوسرا مسئلہ بڑی مقدار میں ڈرگس کا استعمال ہے۔

ہاں، ہم اس مسئلہ کا حل نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔  ڈرگس لینے والوں کی بازآبادی کا انتظام کر رہے ہیں، لیکن کسی ایک ریاستی حکومت کے لئے اس مسئلہ سے نپٹنا آسان نہیں ہے۔  یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔میزورم میں گولڈن ٹرائنگل کی وجہ سے ڈرگس کی آمد ہوتی ہے۔  پڑوسی میانمار اس مسئلہ کا مرکز ہے اور میزورم کا استعمال اس کو ہندوستان کے دوسرے حصوں میں لےکر جانے کے لئے کیا جا رہا ہے۔  پڑوس کی ساری ریاستوں میں بدامنی ہے۔  ہماری ریاست پر امن ہے، اس لئے یہ راستہ بن گیا ہے۔  میزورم میں نشیلی اشیاء کا مسئلہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔

میزورم میں راہل گاندھی کی ایک انتخابی ریلی (فوٹو بشکریہ: ٹوئٹر /میزورم کانگریس)

میزورم میں راہل گاندھی کی ایک انتخابی ریلی (فوٹو بشکریہ: ٹوئٹر /میزورم کانگریس)

اپوزیشن  پارٹیوں کے ذریعے اٹھایا جانے والا ایک اور انتخابی مدعا آپ کی حکومت کی نئی لینڈ یوز پالیسی ہے، جس کو 2011 میں نافذ کیا گیا۔  یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ یہ صرف کانگریس حامیوں کی مدد کر رہی ہے۔

میری حکومت نے اس پالیسی کی کامیابی کی وجہ سے ہی 2013 میں اقتدار میں واپسی کی۔ حزب مخالف پارٹیوں کو یہ پتا ہے کہ یہ پالیسی زمین پر کتنی کامیاب ہے اور یہ بھی کہ نئی زمین استعمال پالیسی کی وجہ سے ہی کانگریس ریاست میں مضبوط ہے اور ان کے پاس اس کی کوئی کاٹ نہیں ہے۔  اس نے اب تب 1.68 لاکھ فیملیوں کو اقتصادی طور پر مضبوط بنانے میں مدد کی ہے۔

اس کو اپنی سیاسی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر پاکر ریاست کی تمام پانچ حزب مخالف پارٹیوں نے مل‌کر اس سال مئی میں اس پروگرام پر روک لگانے کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک اطلاع بھیجی۔  ان کا الزام تھا کہ یہ ایک انتخاب کو دھیان میں رکھ‌کر بنایا گیا پروگرام ہے اور ووٹ بینک کی سیاست کے لئے اس کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔

لیکن جب وزیر اعظم نریندر مودی کو اس پروگرام کے بارے میں پتا چلا، تو وہ اس سے متاثر ہوئے ؛ مجھے بتایا گیا کہ انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کو دوسری جگہوں پر بھی چلایا جانا چاہیے۔ آج نئی زمین استعمال پالیسی کی وجہ سے میزورم ٹاپ پانچ دولتمند ریاستوں کے کل گھریلو مصنوعات (جی ایس ڈی پی)کے برابر ہے۔  یہ ریاستوں کے درمیان سب سے تیزی سے آگے بڑھ رہی معیشت میں سے ایک ہے۔

نئی زمین استعمال پالیسی کی وجہ سے ہماری اقتصادی شرح نمو 8 فیصد ہے، جبکہ قومی اوسط 6.7 فیصد ہے۔  اس سال نیتی آیوگ اور دوسری ایجنسیوں نے دو نمبروں کی ترقی کی پیشین گوئی کی ہے۔ ہم نے ایک نیا پروگرام ‘ نئی اقتصادی ترقی پالیسی’ کو بھی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔  یہ نئی زمین استعمال پالیسی کا سپلیمنٹ ہوگا۔

ہم نے رہنمائی کے لئے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ(آئی آئی ایم)، کولکاتہ کے ساتھ قرار کیا ہے۔دوسری چیزوں کے ساتھ ہی اس کا  زور کاروبار پر ہوگا۔  ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں سے کئی صنعت کار بننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔  یہ قدم اسی کو دھیان میں رکھ‌کر اٹھایا گیا ہے۔  نارتھ ایسٹرن کاؤنسل (شمال-مشرقی کونسل)نے حال ہی میں شمال مشرق کی تین ریاستوں سے کہا کہ وہ این ای ڈی پی کو نافذ کئے جانے کے امکان کے حساب سے اس پر غور کریں۔

ایم این ایف اور دوسری علاقائی جماعتوں سے تو آپ کا مقابلہ ہے ہی، اس کے علاوہ پہلی بار میزورم اسمبلی انتخابات میں بی جے پی فیکٹر بھی ہے۔  حالانکہ پارٹی ریاست میں اکثریت پانے کی حالت میں نہیں ہے، لیکن اس انتخاب میں یہ آپ کی پارٹی کے لئے کس حد تک ایک بلاواسطہ خطرہ ہے؟

جہاں تک میزورم میں کانگریس کا سوال ہے، تو وہ ہمارے لئے کسی بھی طرح سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔  لیکن سوال ہے کہ انتخابی نتائج کے بعد وہ حکومت کا حصہ بننے کے لئے کتنے امیدواروں کو خرید سکتے ہیں۔  یہ مجھے نہیں پتا ہے۔وہ پہلے ہی انتخاب جیتنے کے لئے کچھ کو خرید چکے ہیں(دو کانگریس ایم ایل اے بی جے پی میں شامل ہو چکے ہیں ؛ دو دیگر ایم این ایف میں شامل ہو چکے ہیں، جبکہ ایک آزادامیدوار کے طور پر انتخاب لڑ رہا ہے)

بی جے پی اقلیتی علاقوں میں ہر چیز کا وعدہ کر رہی ہے، لیکن لوگ ان کی منشاء کو سمجھ سکتے ہیں۔  وہ صرف انتخاب جیتنے کے لئے لوگوں کے ساتھ کوئی بھی وعدہ کر سکتے ہیں ؛ انہوں نے دوسری جگہوں پر بھی ایسا کیا ہے، لیکن لوگ ان کے ارادوں کو سمجھ سکتے ہیں۔وہ وعدے کرنے کے عمل میں کمیونٹی کے درمیان دراڑ اور بدامنی پیدا کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔

بی جے پی کے ریاستی صدر اورنارتھ ایسٹ ڈیموکریٹک الائنس کے کنوینر ہمنتا بیسوا شرما، دونوں نے اس ہفتے کہا کہ آپ نے 2017 میں بی جے پی میں جانے کے لئے بی جے پی رہنما راجناتھ سنگھ سے رابطہ کیا تھا۔  شرما نے یہ بھی کہا کہ ان کے پاس انتخابات کے بعد میزورم میں حکومت بنانے کے لئے کانگریس کے ساتھ بھی اتحاد کرنے کا اختیار ہے۔

میں نے راجناتھ سنگھ سے رابطہ کیا تھا، یہ میرے لئے بھی ایک خبر تھی، جو سچ سے میلوں دور ہے۔  ایسا صرف ووٹروں کے درمیان آخری لمحے میں غلط فہمی پیدا کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔  میں پوری زندگی کانگریسی رہا ہوں اور میں مروں‌گا بھی کانگریسی ہی۔میں نے 1986 میں میزورم میں امن کے قیام کے لئے اقتدار چھوڑا تھا ؛ میری پارٹی نے اقتدار کو قربان کیا تھا تاکہ لوگوں کو ان کی ریاست مل سکے (مرکز حکومتی ریاست سے)۔  میں اب بی جے پی سے رابطہ کیوں کروں‌گا؟  جہاں تک کانگریس کی بی جے پی کے ساتھ کام کرنے یا انتخاب کے بعد کسی اتحاد میں شامل ہونے کا سوال ہے، تو یہ بھی ایک اور جھوٹ ہے۔