ادبستان

رویش کا بلاگ: اداس اور خالی دور میں محمد عزیز کی آواز ساون کی طرح تھی

محمد عزیز کے کئی گانوں میں امیری اور غریبی کا فرق نظر آئے ‌گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ گلوکار کو گانے اتفاق سے ہی ملتے ہیں پھر بھی عزیز ان کے گلوکار بن گئے جن کو کہنا نہیں آیا، جن کو لوگوں نے نہیں سنا۔

گلوکار محمد عزیز۔ (فوٹو بشکریہ : pinterest)

گلوکار محمد عزیز۔ (فوٹو بشکریہ : pinterest)

کام کی مصروفیت کے بیچ  ہمارے عزیز محمد عزیز دنیا کو الوداع کہہ گئے۔ محمد رفیع کے قریب  ان کی آواز پہچانی گئی لیکن عزیز کا اپنا مقام رہا۔ عزیز اپنے حال میں  رفیع صاحب کے ماضی کو جیتے رہے یا جیتے ہوئے دیکھے گئے۔ یہ عزیز کے ساتھ ناانصافی ہوئی۔ محمد عزیز کی آواز بند گلے کی تھی مگر بند گلی سے نکلتے ہوئے جب چوراہے پر پہنچتی تھی تب سننے والا بھی کھل جاتا ہے۔ ایک بند گرہ کے کھل جانے کی آواز تھی محمد عزیز کی۔ یہیں پر محمد عزیز محفلوں سے نکل‌کر محلوں کے گلوکار ہو جاتے تھے۔ عزیز عظیم تر ہو جاتے تھے۔

ایک اداس اور خالی دور میں عزیز کی آواز ساون کی طرح تھی۔ سننے والوں نے ان کی آواز کو گلے تو لگایا مگر عزیز کو اس کا کریڈٹ  نہیں دیا۔ اپنی مقبولیت کی اونچائی  پر بھی وہ گلوکار بڑا گلوکار نہیں مانا گیا جبکہ ان کے گانوں کی Classicalism کمال کی تھی۔ عزیز گا نہیں سکنے والوں کے گلوکار تھے۔ ان کی نقل کرنے والے آپ کو کہیں بھی مل جائیں‌گے۔ ان کی آواز دور سے آتی لگتی ہے۔ جیسے بہت دور سے چلی آ رہی کوئی آواز قریب آتی جا رہی ہو۔ کئی بار وہ قریب سے دور لے جاتے تھے۔

فلم ‘ سندور ‘ کے گانوں میں لتا گا رہی ہیں۔ پت جھڑ ساون بسنت  بہار۔ پانچواں موسم پیار کا، انتظار کا۔ کوئل کوکے بلبل گائے ہر اک موسم آئے جائے۔ گانا ایک طرفہ چلا جا رہا ہے۔ تبھی عزیز صاحب اس لائن کے ساتھ گانے میں داخل ہوتے ہیں ‘ لیکن پیار کا موسم آئے۔ سارے جیون  میں ایک بار ایک بار۔ ‘ عزیز کے آتے ہی گانا دمدار ہو جاتا ہے۔ جوش آ جاتا ہے۔ گانے میں ساون آ جاتا ہے۔ 64 سال کی زندگی میں 20 ہزار گانے گاکر گئے ہیں۔ ان کے کئی گانوں پر فدا رہا ہوں۔ ‘ مرتے دم تک ‘ کا گانا بھی پسند آتا ہے۔ چھوڑیں‌گے نہ ہم نہ تیرا ساتھ، او ساتھی مرتے دم تک۔

سبھاش گھئی کی فلم رام لکھن کا گانا مائی نیم از لکھن اس دور کو دمدار بناگیا تھا۔ انل کپور کو اس گانے نے گھرگھر میں دلارا بنا دیا۔ محمد عزیز اس گانے میں انل کپور میں ڈھل گئے تھے۔ یہ ان کے اعلیٰ ترین گانوں میں سے ایک تھا۔ محمد عزیز کو کاغذ پر عام نغمہ ہی ملے لیکن انہوں نے اپنے سروں سے اس کو خاص بنا دیا اور جب خاص نغمہ ملے اس کو آسمان پر پہنچا دیا۔

مہیش بھٹ کی فلم ‘ نام ‘ کا گانا یاد آ رہا ہے۔ یہ آنسو یہ جذبات، تم بیچتے ہو غریبوں کے حالات بیچتے ہو امیروں کی شام غریبوں کے نام۔ محمد عزیز کی آواز ہی اس وقت کے ہندوستان کے اشرافیہ  طبقے کو چیلنج دے سکتی تھی۔ بہت خوب دی۔ ان کی آواز کی وطن پرستی بے مثال  ہے۔ آپ کوئی بھی انتخابی ریلی بتا دیجئے جس میں ‘ کرما ‘ فلم کا گانا نہ بجتا ہو۔ ریلیوں کا سماج  ہی بندھتا ہے محمد عزیز کی آواز سے۔ ‘ ہندو مسلم سکھ عیسائی ہم وطن ہم نام ہیں، جو کریں ان کو جدا مذہب نہیں الزام ہے، ہم جئیں‌گے اور مریں‌گے، اے وطن تیرے لئے ۔دل دیا ہے، جاں بھی دیں‌گے اے وطن تیرے لئے۔ ‘

ہم نے ہندی ریاستوں کی سڑکوں پر رات برات یہاں-وہاں سے نکلتے ہوئے اپنی کار میں محمد عزیز کو خوب سنا ہے۔ ان کے گانوں سے ہلکا ہوتے ہوئے گاؤوں کو دیکھا ہے، قصبوں کو دیکھا ہے۔ تیزی سے گزرتے ٹرک سے جب بھی عزیز کی آواز آئی، رگوں میں سنسنی پھیل گئی۔ عزیز کے گانے ٹرک والوں کے ہم سفر رہے۔ ڈھابوں  میں ان کا گانا سنتے ہوئے ایک کپ چائے اور پی لی۔ ان کا گایا ہوا بگاڑ‌کر گانے میں بھی مزہ آتا تھا۔ فلمیں فلاپ ہو جاتی تھیں مگر عزیز کے گانے ہٹ ہو جاتے تھے۔

ونود کھنہ کی اداکاری والی فلم  ‘ سوریا ‘ کا گانا سن‌کر لگتا ہے کہ کمیونسٹ مینی فسٹو ہے۔ اس گانے کو سنتے ہوئے اکثر لگتا رہا کہ تمام تکلیفوں کو مٹانے ‘ سوریا ‘ آ رہا ہے۔ سوریا کے آتے ہی سب ٹھیک ہو جائے‌گا۔ ناانصافی سے لڑتے رہنا ہے۔ صبح ہوگی۔ بعد کی پڑھائی نے سمجھا دیا کہ مسیحا کبھی نہیں آتا۔ کسی ایک کے آنے سے سب ٹھیک نہیں ہوتا ہے۔

یہ سچ ہے کہ میں نے ‘ سوریا ‘ کے اس گانے کو لاتعداد بار سنا ہے۔ سوچتا رہتا ہوں کہ ممبئی کے نغمہ لکھنے والوں نے کتنی خوبی سے ایسے گانے پبلک اسپیس میں لافانی کر دیے۔ اس گانے کو آپ کسی کسان ریلی میں بجا دیجئے، پھر اثر دیکھیے۔

جو حل چلائے، اس کی زمیں ہو

یہ فیصلہ ہو، آج اور یہیں  ہو

ابتک ہوا ہے، پر اب نہ ہوگا

محنت کہیں ہو دولت کہیں ہو

یہ حکم دنیا کے نام لےکر آئے‌گا سوریا

ایک نئی صبح کا پیغام لےکر آئے‌گا سوریا

آسماں  کا دھرتی کو سلام لےکر آئے‌گا سوریا

عزیز صاحب ہم آپ کے قرض دار ہیں۔ آپ کے گانوں نے مجھے نئے خواب دئے ہیں۔ لوگ کہتے تھے کہ آپ کی آواز لوکل ہے۔ شکریہ آپ کی وجہ سے میں لوکل بنا رہا۔ مجھے اس ملک کے گاؤں اور قصبے آپ کی آواز کے جیسے لگتے ہیں۔ دور سے قریب آتے ہوئے اور قریب سے دور جاتے ہوئے۔ ہندی فلموں کے گانے نہ ہوتے تو میری رگوں میں خون نہیں دوڑتا۔

میں آپ کو آپ کے تمام چاٹ گانوں کے لئے بھی سراہتا ہوں۔ آپ نے کئی چاٹ گانوں کو سننے لائق بنایا۔ کئی گانوں کو نہیں سنے جا سکنے لائق بھی گایا۔ رام اوتار کا ایک گانا جھیلا نہیں جاتا ہے۔ ‘ پھول اور انگارے ‘ کا گانا آج بھی سن‌کر ہنستا ہوں اور آپ کو سراہتا ہوں۔

تم پیو تو گنگا جل ہے یہ

ہم پیئے تو ہے یہ شراب

پانی جیسا ہے ہمارا خون

اور تمہارا خون ہے گلاب

سب خیال ہے سب فریب ہے

اپنی صبح نہ شام ہے

تم امیر ہو خوش نصیب ہو

میں غریب ہوں بد نصیب ہوں

پی پی کے اپنے زخم سینے دو

مجھے پینا ہے پینے دو

مجھے جینا ہے جینے دو

محمد عزیز میرے گلوکار ہیں۔ رفیع کے وارث ہیں مگر رفیع کی نقل نہیں ہیں۔ حالانکہ ان میں رفیع کی اونچائی بھی تھی لیکن وہ ان گم نام لوگوں کی خاطر نیچے بھی آتے تھے جن کی کوئی آواز نہیں تھی۔ عزیز کے کئی گانوں میں امیری اور غریبی کا فرق دکھے‌گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ گلوکار کو گانے اتفاق سے ہی ملتے ہیں پھر بھی عزیز ان کے گلوکار بن گئے جن کو کہنا نہیں آیا، جن کو لوگوں نے نہیں سنا۔ ان کو عزیز کا انتظار تھا اور عزیز ملا۔

آپ نے ہندی فلموں کے گانوں کی توسیع کی ہے۔ نئے سامعین بنائے۔ آپ چلے گئے۔ مگر آپ جا نہیں سکیں‌گے۔ ‘ آخر کیوں ‘ کا گانا کیسے بھول سکتا ہوں

ایک اندھیرا لاکھ ستارے

ایک مایوسی لاکھ سہارا

سب سے بڑی سوغات ہے جیون

ناداں ہے جو جیون سے ہارے

بیتے ہوئے کل کی خاطر تو

آنے والا کل مت کھونا

جانے کون کہاں سے آکر

راہیں تیری پھر سے سنوارے

الوداع عزیز۔ آپ کی بنائی روش پر چلتے ہوئے ہم تب بھی گنگنایا کریں‌گے جب آپ میرےہم سفر نہیں ہوں‌گے۔ جب بھی ہم 80 اور 90 کی دہائی کو یاد کریں‌گے، عزیز صاحب آپ کو گنگنائیں‌گے۔ آپ کو سنتے رہیں‌گے۔ آپ کا ہی تو گانا ہے۔ ‘ دیش بدلتے ہیں ویش بدلتے نہیں دل بدلتے نہیں دل،ہم بنجارے۔’ہم بنجاروں کے عزیز کو آخری سلام۔

(یہ مضمون بنیادی طور پر رویش کمار کے بلاگ قصبہ پر شائع ہوا ہے۔)