خبریں

1984سکھ مخالف فسادات: دہلی ہائی کورٹ نے 88 مجرموں کی 5-5 سال کی سزا برقرار رکھی

دہلی ہائی کورٹ نے 1984 سکھ مخالف فسادات معاملے میں ایک نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف کی گئی مجرموں کی 22 سالہ پرانی اپیلوں کو خارج کر دیا اور سزا کاٹنے کے لیے سرینڈر کرنے کو کہا۔

Credit: Reuters/Denis Balibouse

Credit: Reuters/Denis Balibouse

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے ایسٹ دہلی کے تری لوک پوری حلقے میں 1984 میں سکھ مخالف فسادات کے دوران ہوئے تشدد کے معاملے میں نچلی عدالت کے فیصلے کو بدھ کو برقرار رکھا ہے۔ نچلی عدالت نے 88 لوگوں کو فسادات کا مجرم ٹھہراتے ہوئے 5 سال کی سزا کا اعلان کیا تھا، جس پر 22 سال بعد ہائی کورٹ نے بھی مہر لگا دی ہے۔ جسٹس آر کے گوبا نے ایک نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف کی گئی مجرموں کی 22 سالہ پرانی اپیلوں کو خارج کر دیا اور سزا کاٹنے کے لیے سرینڈر کرنے کو کہا۔

مجرموں نے 27 اگست کو 1996 کو سنائے گئے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ ٹرائل کورٹ نے ان کو فسادات کرنے، گھر جلانے اور کرفیو کی خلاف ورزی کرنے کا مجرم ٹھہرایا تھا۔ 2 نومبر 1984 کو گرفتار کیے گئے 107 لوگوں میں سے 88 لوگوں کو ٹرائل کورٹ نے مجرم ٹھہرایا تھا۔ اب ہائی کورٹ نے بھی ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔

اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی 31 اکتوبر 1984 کو قتل کیے جانے کے بعد اگلے دو دنوں میں قومی راجدھانی میں وسیع پیمانے پر فسادات ہوئے تھے اور سکھوں کا قتل کیا گیا تھا۔ مختلف معاملوں میں فسادات متاثرین کی ترجمانی کر رہے سینئر وکیل ایچ ایس پھلکا نے بتایا کہ ترلوک پوری واقعہ کے سلسلے میں درج ایف آئی آر کے مطابق؛ فسادات میں 95 لوگوں کی موت ہوئی تھی اور 100 گھروں کو جلا دیا گیا تھا۔

پولیس نے اس سے پہلے کہا تھا کہ ہائی کورٹ کا رخ کرنے والے 88 مجرموں میں سے کچھ کی اپنی اپیلوں کے التوا میں رہنے کے دوران موت ہو گئی ہے۔ اس سے پہلےدہلی کی ایک عدالت نے گزشتہ 20 نومبر کو 1984سکھ مخالف فسادات کے ایک معاملے میں  یشپال سنگھ کو سزائے موت  اور نریش سہراوت کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ دونوں کو جنوبی دہلی کے مہیپال پور علاقے میں ہر دیو سنگھ اور اوتار سنگھ کے قتل کا مجرم پایا گیا تھا۔

این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق؛2015 میں مرکزی حکومت نے 1984 فسادات میں 220 سے زیادہ بند معاملوں کی جانچ کے لیے ایک ایس آئی ٹی کی تشکیل کا فیصلہ کیا تھا۔ جس کا ذکر  مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ‘قتل عام’کے طور پر کیا تھا۔ جسٹس (ریٹائرڈ )جی پی ماتھر کی صدارت والی پینل رپورٹ کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان معاملوں میں تازہ جانچ کی جاسکتی ہے جہاں ثبوت ہونے کے باوجود پولیس نے معاملے بند کر دیے ہیں۔ کمیٹی نے کہا کہ 225 ایسے معاملے تھے اور ان میں کانگریس رہنما سجن کمار اور جگدیش ٹائٹلر کے خلاف معاملے بھی شامل تھے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)