خبریں

’کسان خود کشی کرنے پر مجبور ہیں اور مرکزی حکومت کارپوریٹ قرض معاف کر رہی ہے‘

مظاہرین کا ایک اہم مطالبہ یہ ہے کہ کسانوں کے مسائل کولے کر پارلیامنٹ میں ایک اسپیشل سیشن ہونا چاہیے اور اس میں کسانوں کے حق میں ایک بل پاس ہونا چاہیے۔

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

نئی دہلی: ملک کے مختلف علاقوں سے دہلی آئے ہوئے ہزاروں کسانوں میں مرکز کی نریندر مودی حکومت اور اپنی ریاستی حکومتوں کے خلاف زبردست غصہ ہے۔ گزشتہ 3 مہینے میں یہ تیسرا موقع ہے جبکہ ملک کے مختلف علاقوں سے کسان دہلی پہنچے ہیں۔یہ کسان جمعرات کو آل انڈیا کسان سبھا(AIKS) کی طرف سے منعقد دو روزہ ‘کسان مکتی یاترا’میں حصہ لینے تاریخی میدان ،رام لیلا گراؤنڈ پہنچے اور انہوں نے جمعہ کو پارلیامنٹ کی طرف مارچ کیا۔

اتر پردیش کے غازی پور سے آئے 63 سالہ نصیرالدین نے دی وائر کو بتایا کہ ان کے علاقہ میں کسانوں کی صورت حال بدحال ہے اور ریاست کی یوگی حکومت کسانوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔ان کے مطابق علاقے کے کسان آوارہ مویشیوں کی وجہ سے پریشان ہیں۔اس کے ساتھ ہی لوگ بجلی کی شرح میں اضافہ، یوریا کے بڑھتے دام اوربڑھتی  بیروزگاری سے پریشان ہیں۔انہوں نے الزام لگایا کہ آوارہ مویشیوں کی وجہ سے ان کے ڈھائی بیگھہ کھیت میں سے آدھا بیگھہ کھیت کی فصل برباد ہو گئی، جس کا کوئی معاوضہ نہیں ملا۔نصیر الدین نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے ساتھ ان کے ضلع سے 200 افراد آئے ہیں۔یہ پوچھے جانے پر کہ کسانوں کے مسائل حل کرنے کے لئے ریاست کی یوگی حکومت کچھ نہیں کر رہی؟ ان کا کہنا تھا؛ یوگی جی صرف مذہبی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مہاراشٹر کے کولہاپور سے منگل کی صبح نکل کر جمعرات کو دہلی پہنچے والی رما بائی کا کہنا تھا کہ قرض معافی کے مسئلے کو لے کر وہ اتنا لمبا سفر کر کے آئی ہے۔ 60 سالہ رما بائی کے ساتھ ان کی ہم عمر دروپدی بائی کا کہنا تھا کہ ہم یہاں ہمارے ساتھ ہوئی وعدہ خلافی کو لے کر آواز بلند کرنے آئے ہیں۔ دونوں خواتین کھیت میں مزدوری کا کام کرتی ہیں، اس لیے ان کا کہنا تھا کہ قرض معافی کے ساتھ ساتھ پینشن دینے کی بھی ضرورت ہے، خاص طور پر ان کو جو مزدوری کا کام کرتے ہیں۔ ان دونوں خواتین کی طرح نصیرالدین کا بھی کا کہنا تھا کہ کسانوں کے لئے پینشن کا بھی انتظام ہونا چاہیے۔

FarmersProtest_MahtabAlam

چھتیس گڑھ کے بلاسپور سے آئے پھاگن سنگھ کا کہنا تھا کہ وہ اس لئے آئے ہیں کیونکہ ان کو زمین کا پٹہ چاہیے، اس پر مالکانہ حق چاہیے۔ ان کے ساتھی اومنت سنگھ کی بھی یہی مانگ تھی۔پھاگن کا کہنا تھا کہ مودی جی کا وعدہ تھا کہ آدیواسیوں کو زمین پر مالکانہ حق ملے گا پر ابھی تک نہیں ملا۔ اومنت نے کہا کہ پٹہ کے ساتھ ساتھ آبپاشی کے لئے پمپ بھی چاہیے۔ ان کا یہ بھی الزام تھا کہ 15 سال سے حکومت کرنے والی ریاست کی بی جے پی حکومت نے بھی ان کے لئے کچھ نہیں کیا۔ ان کے مطابق، ان کے علاقہ سے 18 لوگ اس مارچ میں شامل ہو رہے ہیں۔

مدھیہ پردیش کے جھابوآ ضلع سے آئی  ہوئیں خواتین کے ایک گروپ میں شامل شانتی اور چھدن بائی نے دی وائر کو بتایا کہ ان کے علاقہ میں کسانوں کے لئے پانی اور بجلی کی بڑی قلت ہے۔ ان کا کہنا تھا؛ بار بار شکایت کرنے کے باوجود حکومت کچھ نہیں کر رہی ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ کسانوں اور ان کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کے علاوہ کسانوں کے اس مارچ کو لیکر دہلی اور اطراف کے عام لوگو نے بھی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا۔ دہلی کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے سینکڑوں اسٹوڈنٹ نے شرکت کی۔ جمعرات کی رات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کچھ ڈاکٹرز اور میڈیکل اسٹوڈنٹ نے کسانوں کے لئے رام لیلا گراؤنڈ میں کسانوں کے لئے میڈیکل چیک اپ کا کیمپ لگایا۔ ساتھ ساتھ پارلیامنٹ اسٹریٹ پر بھی کچھ مسلم تنظیموں کے بینر دیکھنے کو ملے۔

مظاہرین کا ایک اہم مطالبہ یہ ہے کہ کسانوں کے مسائل کولے کر پارلیامنٹ میں ایک اسپیشل سیشن ہونا چاہیے اور اس میں کسانوں کے حق میں ایک بل پاس ہونا چاہیے۔دریں اثنا جمعہ کو پارلیامنٹ اسٹریٹ پر ہوئے جلسہ سے مختلف سیاسی رہنماؤں نے خطاب کیا۔ جس میں سیتا رام ییچوری، راہل گاندھی، شرد یادو، فاروق عبداللہ اور اروند کیجریوال کے نام سر فہرست ہیں۔اس موقع پر راہل گاندھی نے مودی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ؛ مودی حکومت  کارپوریٹ قرض معاف کر رہی جبکہ قرض کی وجہ سے ہزاروں کسان خود کشی کرنے پر مجبور ہیں۔