فکر و نظر

بوس اور پٹیل کے درمیان اختلافات پر مودی جی کب بولیں گے؟

سبھاش چندر بوس اور پٹیل میں نظریاتی اختلافات بھی تھے۔بوس جہاں سماجوادی نظریات میں پختہ یقین رکھتے تھے، وہیں پٹیل کی ہمدردی نجی سرمایہ کاروں کے ساتھ تھی۔بوس ہندو مسلم ایکتا کے پٹیل سے زیادہ حامی تھے۔

فوٹو : سوشل میڈیا

فوٹو : سوشل میڈیا

وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جےپی پوری طاقت سے نہرو خاندان اور کانگریس کے پیچھے پڑے ہیں۔ اس لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان تاریخ اور حقائق کا ہو رہا ہے۔ مثلاً بی جے پی کی کوشش ہے کہ جواہر لعل نہرو کو سردار ولبھ بھائی پٹیل اور سُبھاش چندر بوس کے مخالف کی شکل میں پیش کیا جائے۔ اس میں ایسی منظر کشی کی جائے مانو نہرو نے اپنے سارے وسائل بروئے کار لاتے ہوئے پٹیل اور بوس دونوں کو سیاسی طور پر درکنار کیا اور اپنی راہ صاف کر لی۔

معروف مؤرخ رام چندر گُہا نے اپنی نئی کتاب Gandhi: The Years That Changed the World میں ایک ناگوار واقعہ نقل کیا ہے، جو بتاتا ہے کہ ولبھ بھائی پٹیل اور سبھاش چندر بوس کے تعلقات تناؤ بھرے رہے ہیں۔ ولبھ بھائی پٹیل کے ایک بڑے بھائی تھے وِٹھل بھائی پٹیل۔ وہ موتی لعل نہرو اور سی آر داس کی قائم کردہ سوراج پارٹی کے کارکن تھے۔ وٹھل بھائی پٹیل اور سبھاش چندر بوس 1933 میں وِئینا کے ایک سینی ٹوریم میں ملے، جہاں دونوں ہی رو بہ صحت تھے۔ گاندھی جی نے جب سِوِل نافرمانی کی تحریک واپس لینے کا اعلان کیا، دونوں نے اس کے خلاف سخت الفاظ میں ایک مشترکہ بیان جاری کیا۔ اس میں تحریک آزادی کے لیے ایک نئی اور حوصلہ مند قیادت کی ضرورت جتائی گئی۔ اپنی عمر کے تیسرے دہے میں بوس، جواہر لعل نہرو کے ساتھ جواں سال ہیرو بن گئے۔ انہیں اتنی مقبولیت ملی کہ بھگت سنگھ، چندرشیکھر آزاد اور جتِن داس جیسے انقلابی بھی ان میں اپنا آئیڈیل دیکھنے لگے۔

1925 میں سی آر داس کی موت کے بعد بوس بنگال کے قدآور لیڈر ہو گئے۔ وہ صوبے کے باغی لیڈران کی نمائندگی کرتے تھے۔ باغیانہ تیور ایسے تھے کہ نہ صرف انگریزوں کے خلاف بلکہ کانگریس کی مرکزی قیادت کے خلاف بھی وہ آواز بلند کرتے رہتے تھے۔ اسی لیے وہ کانگریس کے نامزد امیدوار کو شکست دے کر کلکتہ (اب کولکاتا) کے مئیر بن گئے۔

وِٹھل بھائی پٹیل، بوس کے بڑے معتقد تھے۔ اتنے کہ انہوں نے اپنی جائیداد کا تین چوتھائی حصہ، غیر ممالک میں آزادی ہند کی تشہیر کے لیے بوس کے نام کر دیا۔  لیکن 1933 میں ان کی موت کے بعد اس وصیت کو لے کر چھوٹے بھائی ولبھ بھائی پٹیل نے مقدمہ دائر کر دیا۔ لمبی قانونی جنگ کے بعد ولبھ بھائی مقدمہ جیت گئے اور مذکورہ جائیداد بوس کو ملنے کے بجائے وِٹھل بھائی پٹیل کی اولاد کو ملی۔

1937 میں نہرو جی کی دوسری مدت کار پوری ہونے کے بعد ان کے جانشین کی تلاش شروع ہوئی۔ لوگ نہرو اور بوس دونوں کے حق میں تھے، لیکن گاندھی نے دوراندیشی سے بوس کی حمایت کی۔ دائیں بازو کے حامیوں کی قیادت سردار پٹیل کر رہے تھے۔ انہوں نے پوری شدت سے بوس کی مخالفت کی مگر گاندھی جی نے اعلان کر دیا کہ،”سبھاش کے علاوہ ایسا کوئی نہیں ہے، جو ‘راشٹرپتی’کے عہدے کا اہل ہو۔”(کانگریس صدر کو ان دنوں راشٹرپتی کہا جاتا تھا۔)

بوس کی پہلی مدت کار آسان رہی اور انہوں نے مرد، عورت اور بچوں سبھی کے لیے اچھی معیارِ زندگی اور تعلیم کا ہدف رکھا۔ نہرو ہی کی طرح وہ بھی ترقی کے لیے بڑی انڈسٹریز کے حامی تھے، مگر انہوں نے گاندھی وادیوں کو مطمئن کیا کہ گھریلو و دیہی صنعت کاری پر بھی ان کی توجہ ہے۔ آزادی کے بعد ملک کی سماجی، معاشی تعمیر نو کے لیے انہوں نے نیشنل پلاننگ کمیٹی کی تجویز رکھی۔ ان کی خواہش تھی کہ نہرو اس کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالیں، جو اس وقت یعنی 1938 میں یورپ میں تھے۔

ملک اور معاشرے کی ترقی و تعمیر میں نہرو و بوس دونوں خواتین کی حصے داری کے متمنی تھے۔ کراچی کانگریس (1931) میں منظور شدہ تجاویز کی بنیاد پر نیشنل پلاننگ کمیٹی نے خواتین کے بنیادی اور معاشی حقوق پر ایک عمدہ رپورٹ تیار کی تھی۔ جس میں ان معاشرتی، معاشی اور قانونی اڑچنوں کو دور کرنے کا ذکر کیا گیا تھا، جو خواتین کی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ ساتھ ہی انہیں برابری کا درجہ اور مواقع مہیا کرانے کی سفارشات بھی کی گئی تھیں، جو حیرت انگیز طور پر دورِ جدید سے ہم آہنگ تھیں۔ کمیٹی کا چیئرمین ہونے کے ناطے نہرو اس رپورٹ کی تیاری سے سیدھے جڑے تھے۔ بوس چونکہ کانگریس صدر تھے، اس لیے اس میں سیدھے دخل نہ دیتے ہوئے ذہنی غذا فراہم کر رہے تھے۔

جدید ترقی کے ساتھ قومی اتحاد پر بوس کی خاص نظر تھی۔ ان کے سامنے روس کی مثال تھی، جس نے “آدھے بھوکے کسانوں کا ملک والا طوق اتار کر چمچماتے لباسوں میں ملبوس صنعتی کارندوں”کے دیش کی شکل میں ترقی پا لی تھی۔ اسی صنعتی ترقی کے دم پر ہندوستان کو بھی وہ ایسا ملک بنا دینا چاہتے تھے، جس کے “عوام کی معیارِ زندگی” اونچی ہو۔

اپنے پہلے دورمیں کئی اہم کام کرنے کے باوجود بوس کو کانگریس میں موجود دائیں بازو کے حامیوں پٹیل، راجا جی، راجندر پرساد اور جی بی پنت جیسوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ نوبت دوبارہ انتخاب کی آئی۔ ان لوگوں کی پسند مولانا ابوالکلام آزاد تھے، مگر مولانا نے کمال ہوشمندی سے اس پچڑے میں پڑنے سے انکار کر دیا۔ آندھرا پردیش کے پٹّابھی سیتا رمیّا کو بوس کے خلاف کھڑا کیا گیا، جنہیں 1375 ووٹ ملے، جبکہ بوس 1580 ووٹ پانے میں کامیاب رہے۔

راج موہن گاندھی نے ولبھ بھائی کی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ ‘سبھاش کی اہلیت کے بارے میں ان (ولبھ بھائی پٹیل)کے خیالات ٹھیک نہیں تھے’؛ نیز ‘سبھاش سے ان کی عدم اتفاقی جگ ظاہر تھی’۔ پٹیل چاہتے تھے کہ 1937 میں چنی گئی کانگریس سرکار کام کرتی رہے مگر سبھاش کا ماننا تھا کہ ‘کانگریس کے تمام وزراء اپنے عہدے چھوڑ دیں اور انگریزی راج کے خلاف مورچہ کھول لیا جائے۔ پٹیل کی نظر میں ‘یہ ایک فضول اور غیر دانشمندانہ قدم تھا۔’راج موہن نے آگے لکھا ہے کہ دونوں کے بیچ ‘گاندھی کو لے کر بھی اختلاف تھا۔ سبھاش کے خیال میں اب ان کی ضرورت نہیں تھی، لیکن سردار کی نظروں میں ان کی موجودگی اشد ضروری تھی۔’

بوس کا دوبارہ انتخاب دائیں بازو کے کانگریسیوں کے لیے ایک کراری چوٹ تھی، جنہوں نے کہا تھا کہ بوس کا دوبارہ چنا جانا ملک کے کاز کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ مہاتما نے شکست قبول کرتے ہوئے اپنے فطری انکسار کے ساتھ کہا:”بہرحال سبھاش بابو اپنے ملک کے دشمن نہیں ہیں۔ ملک کے لیے انہوں نے بہت تکالیف جھیلی ہیں۔”

میدانِ سیاست میں تو پٹیل اور بوس ایک دوسرے سے نااتفاقی رکھتے ہی تھے، اس کے علاوہ ان میں نظریاتی اختلافات بھی پائے جاتے تھے۔ بوس جہاں سماجوادی نظریات میں پختہ یقین رکھتے تھے، وہیں پٹیل کی ہمدردی نجی سرمایہ کاروں کے ساتھ تھی۔ بوس ہندو مسلم ایکتا کے پٹیل سے زیادہ حامی تھے۔ اپنی کتاب ‘دی انڈین اسٹرگل’ (1935 میں پہلی بار شائع)میں انہوں نے ہندو مہا سبھا پر شدید تنقید کی ہے۔ مہا سبھائیوں کے لیے انہوں نے بار بار رجعت پسند کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ انہیں مسلم بنیاد پرستوں کی شبیہ اور انگریزوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والا قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ انگریزی حکمرانوں کی وجہ سے ہی وہ ہندو مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کرنے پر تلے ہیں، جسے گاندھی اور خود بوس نے فروغ دیا ہے۔

کیا مودی اور بی جےپی ان تمام حقائق پر ایک نظر ڈالیں گے اور ملک کی عوام کو ان سب باتوں سے روشناس کرائیں گے؟