فکر و نظر

چھتیس گڑھ اسمبلی انتخاب: یہاں ووٹ  فیصد معمہ  کیوں بن گیا ہے؟

خصوصی رپورٹ : 20 نومبر کو آخری مرحلے کی ووٹنگ کے بعد ووٹوں  کی گنتی میں تقریباً 47 ہزار ووٹ کا اضافہ ہوا ہے۔

رائے پور میں پولنگ بوتھ پر رائےدہندگان (فوٹو : پی ٹی آئی)

رائے پور میں پولنگ بوتھ پر رائےدہندگان (فوٹو : پی ٹی آئی)

چھتیس گڑھ کی ریاستی الیکشن کمیشن کے ذریعے رائے دہندگی کے جو اعداد و شمار جاری کئے جا رہے ہیں، وہ نیتی آیوگ کے جی ڈی پی کے اعداد و شمار سے بھی زیادہ پیچیدہ ہیں۔20 نومبر کو رائے دہندگی کے آخری مرحلے کی شام کو ریاست کے چیف الیکشن افسر سبرتو ساہو نے کل رائے دہندگی کا اعداد و شمار 72 فیصد بتایا تھا۔  اگلے دن یہ اعداد و شمار بڑھ‌کر 74 فیصد ہو گیا۔  تیسرے دن تک یہ اور اوپر بڑھ‌کر 76 فیصد تک پہنچ گیا۔ان ترمیمات کی زیادہ اہمیت نہیں ہوتی، لیکن ایک ہفتے کے بعد اعداد و شمار کا ایک نیا سیٹ جاری کیا گیا جس نے 46 انتخابی حلقوں میں رائے دہندگی کے فیصد کو بڑھا دیا، جس سے کل رائے دہندگی فیصد میں 0.26 نمبروں کا اضافہ ہو گیا۔

جہاں کانگریس کل رائے دہندگی کے اعداد و شمار میں آئی ان تبدیلیوں پر سوال اٹھا رہی ہے، وہیں بی جے پی نے بڑھتے ہوئے اعداد و شمار میں اپنی کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔  جبکہ اس کو بھی فطری طور پر فکرمند ہونا چاہیے تھا۔ساہو نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔  اصل میں انہوں نے سرکاری ویب سائٹ پر ترمیم شدہ اعداد و شمار بھی نہیں ڈالے ہیں۔وہ ساراقصور ریاست کے پی آر او  کو دیتے ہیں۔  لیکن، عوامی رابطہ کے کنوینر آلوک دیو کا کہنا ہے کہ انہوں نے صرف ویسے ہی اعداد و شمار عوامی کئے ہیں، جو ان کو ساہو کی طرف سے مہیا کرائے گئے تھے۔

اس پر ساہو کا جواب ہے کہ وہ  عوامی رابطہ کے اعداد و شمار کو دیکھنے کے بعد ہی کوئی تبصرہ کر سکتے ہیں۔  یہ ایک عجیب وغریب واقعہ ہے۔یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے کہ کم سے کم 8اسمبلی حلقوں میں رائے دہندگی میں آئی تبدیلی پچھلی بار کی جیت‌کے فرق سے زیادہ ہے۔  ان میں سے 6 پر بی جے پی جیتی تھی اور باقی دو سیٹیں کانگریس کے کھاتے میں گئی تھی۔کمیشن کے ذریعے 22 نومبر کو-یعنی دوسرے دور کی رائے دہندگی کے دو دن بعد-جاری کئے گئے آخری اعداد و شمار میں46377 ووٹ کا اضافہ ہو گیا ہے۔

یہ اعداد و شمار کتنا فیصلہ کن ہو سکتا ہے اس کا اندازہ اس  بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2013 میں دونوں پارٹیوں کے درمیان صرف 5 لاکھ ووٹ یا 0.75 فیصد ووٹ کا فرق تھا۔لیکن یہ صورت حال یہی ختم نہیں ہوتی ہے۔  12 نومبر کو پہلے مرحلے کے رائے دہندگی کے خاتمہ کے بعد ساہو کی قیادت میں ریاستی الیکشن کمیشن 5 بجے شام کو رائے دہندگی فیصد 60.66 فیصد بتا رہا تھا، جبکہ چیف الیکشن کمشنر اوپی راوت اسی وقت کل رائے دہندگی 70 فیصد بتا رہے تھے۔

راوت کو یہ اعداد و شمار کہاں سے ملے تھے، اس کی ابھی تک کوئی وضاحت نہیں ہو پائی ہے کیونکہ راوت کو ریاستی انچارج سے ہی اعداد و شمار ملا ہوگا۔اگلے دن تک ریاست نے ان اعداد و شمار میں تبدیلی لاتے ہوئے پہلے مرحلے کی 18 سیٹوں کے لئے کل رائے دہندگی کو 76.65 فیصد کر دیا، جو کہ غیر معمولی طریقے سے 16 فیصد کی اچھال تھی۔  ساہو نے رائے دہندگی فیصد میں ہوئے اس اضافہ کی صفائی میں کہا کہ دوردراز علاقوں سے کئی پولنگ پارٹیاں ضلع صدر دفتر میں دیر سے پہنچیں۔اگر لگاتار بدلتے رائے دہندگی فیصد پر یقین کیا جائے، تو ہمارے پاس بھرت پور سونہاٹ کا حیرت انگیز معاملہ ہے، جہاں 22 نومبر کو رائے دہندگی کا آخری اعداد و شمار 72.88 فیصد تھا، لیکن 29 نومبر تک جو بڑھ‌کر 84 فیصد ہو گیا۔

کیوں بار بار بدل رہے ہیں اعداد و شمار؟

رائے دہندگی کے بعد بوتھ افسر یا پریزائڈنگ  افسر کو ای وی ایم مشین کو بند کر دینا ہوتا ہے اور اس آخری اعداد و شمار کو درج کر لینا ہوتا ہے، جو اس پر دکھائی دیتا ہے۔اس اعداد و شمار کو اس کو اس کے پاس دستیاب طبعی اعداد و شمار سے ملانا ہوتا ہے، کیونکہ ہر رائےدہندگان اور اس کا شناختی کارڈ کی تفتیش ہوتی ہے اور ایک تصدیق نامہ پر نشان لگا دیا جاتا ہے۔  رات ہونے تک بوتھ افسر کو کم سے کم اپنے سینئر افسر کو ڈالے گئے ووٹ کے صحیح صحیح اعداد و شمار بتا پانے کی حالت میں ہونا چاہیے۔

چھتیس گڑھ کے ہر حلقہ انتخاب میں 200 سے 300 کے درمیان رائے دہندگی مرکز ہوں‌گے۔  ایسے میں اگلے دن تک، جب کلکٹر ای وی ایم مشینوں کو اسٹرانگ روم میں جمع کرنے کے لئے انتظار کرتا ہے، ہر حلقے کے لئے آخری اعداد و شمار کی گنتی کافی آسان ہونی چاہیے۔رائے دہندگی فیصد میں اضافہ باعث تشویش کیوں ہے؟  اس لئے کیونکہ اگر گنتی کے ایک معمولی عمل کو اس طرح سے الجھایا جا سکتا ہے کہ کچھ نہیں تو 46 حلقوں میں تقریباً4000 ووٹ کا فرق آ جائے، تو دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں۔  یا تو پورا نظام بےحد نااہل ہے یا دال میں کچھ کالا ہے۔

رائے دہندگی کے آخری مرحلہ اور نتیجہ کے اعلان میں21 دن کے وقفے نے حالات کو اور پیچیدہ بنا دیا ہے۔  اگر دونوں کے درمیان وقفہ نہیں ہوتا، تو کیا ہم 22 نومبر کے اعداد و شمار کو ہی آخری اعداد و شمار کے طور پر استعمال کرتے؟دی وائر نے دونوں پارٹیوں کے کئی امیدواروں سے یہ پتہ لگانے کے لئے رابطہ کیا کہ کیا اعداد و شمار میں اس تبدیلی کو لےکر کوئی قانونی اختیار ہے؟راجم سے کانگریس کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے والے امتیش شکلا نے کہا، ‘ہماری پارٹی نے الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور اپنی مخالفت درج کی ہے۔  ‘

کوئی بھی کم سے آخری فیصد کو عوامی کرنے کے لئے ہائی کورٹ کی پناہ میں جانے کے تئیں بےتاب نظر نہیں آ رہا ہے۔  ایسے میں جبکہ ساہو کوئی سیدھا جواب نہیں دے رہے ہیں، چھتیس گڑھ کا ترمیم شدہ رائے دہندگی فیصد 76.28 ہے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)