خبریں

حکومت سینٹرل انفارمیشن کمشنر کو مقدموں کے ذریعے ڈرا رہی ہے: سابق انفارمیشن کمشنر

سابق انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریولو نے صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کو خط لکھ‌کر کہا ہے کہ سینٹرل انفارمیشن  کمیشن کو حکومت کے ذریعے اس کے خلاف دائر مقدموں کے خطرے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سابق انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریولو۔ (فوٹو بشکریہ : فیس بک)

سابق انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریولو۔ (فوٹو بشکریہ : فیس بک)

نئی دہلی : سابق انفارمیشن  کمشنر شری دھر آچاریولو نے صدر  جمہوریہ رام ناتھ کووند کو خط لکھ‌کر الزام لگایا ہے کہ سینٹرل انفارمیشن  کمیشن کو حکومت کے ذریعے اس کے خلاف دائر مقدموں کے خطرے کا سامنا  کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے اس میں صدر رامناتھ کووند کی مداخلت کی مانگ کی ہے۔ صدر کو لکھے ایک خط میں انہوں نے Strategic Litigation Against Public Participation ( ایس ایل اے پی پی) کے عالمی رجحان پر روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے کہا کہ، ‘ایس ایل اے پی پی ایک قسم کا تعصب آمیز مقدمہ ہے، جس کا مقصد جیتنا نہیں بلکہ کسی تنظیم یا ایک فرد کے خلاف بولنے جیسے عوامی اظہار کو روکنے کے لئے خوف زدہ کرنا ہے۔ ‘

انہوں نے اپنی بات صحیح نقطہٴ نظر سے رکھنے کے لئے ریزرو بینک آف انڈیا سے متعلق دو احکام کا حوالہ دیا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ یہاں سی آئی سی اور شہریوں  کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے سرکاری ادارہ سی آئی سی اور شہریوں، جو آر ٹی آئی ایکٹ  کے تحت اطلاع مانگ رہے ہیں، کے خلاف ہرطرف سے رٹ عرضیاں دائر کر رہے ہیں۔ ‘ آچاریولو نے کہا کہ آر بی آئی نے سی آئی سی کو دو الگ الگ معاملوں میں حزب بناتے ہوئے بامبے  ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کی ہے۔ آچاریولو نے جان بوجھ کر قرض نہیں چکانے والوں کے ناموں کا انکشاف  کرنے کے سپریم کورٹ کے احکام پر  عمل کرنے کو لےکر ریزرو بینک کو حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے جان بوجھ کر قرض نہیں چکانے والوں کے ناموں کا انکشاف کرنے کو لےکر سابق انفارمیشن  کمشنر شیلیش گاندھی کا حکم برقرار رکھا تھا۔ اس حکم کی توہین کے لئے آچاریولو نے آر بی آئی کے گورنر ارجت پٹیل کو وجہ بتاؤ نوٹس بھی جاری کیا تھا۔ آر بی آئی نے سی آئی سی کے ایک دوسرے  حکم کو 4 جولائی کو چیلنج کیا تھا۔ اس میں ریزرو بینک کے انفارمیشن آفیسر کو مقامی غیر سرکاری تنظیموں  کے فارین ڈونرس کے تفصیلی بیورے کا انکشاف نہیں کرنے کے لئے انفارمیشن  کمشنر سدھیر بھارگو نے وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا تھا۔

آچاریولو نے کہا کہ سرکاری دفتر پارلیامنٹ  کی خواہش کے مطابق یونین آف انڈیا کے ذریعے بنائے گئے انفارمیشن  کمیشن سے اپنے حقوق کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘ یونین آف انڈیا، جس میں سی آئی سی ایک حصہ ہے، سی آئی سی کے احکام کو یہ کہتے ہوئے چیلنج دیتا ہے کہ ایک سرکاری ملازم کی تعلیمی صلاحیت ان کی نجی  جانکاری اور اس کا انکشاف  کرنا ان کی رازداری کے غیر مناسب غیرقانونی مداخلت کی وجہ بن جائے‌گی۔ ‘

انہوں نے کہا، ‘ میرا صرف ایک سوال ہے کہ جب میں، سی آئی سی کے طور پر، یونین آف انڈیا کا حصہ ہوں، اور جب یونین آف انڈیا خودہی میرے حکم کے خلاف لڑتا ہے تو میرا بچاؤ کون کرے‌گا۔ ‘ آچاریولو نے کہا کہ سی آئی سی کے خلاف تقریباً 1700 رٹ عرضیاں دائر کی گئی ہیں، جن میں سے زیادہ تر، حکومت اور آر بی آئی وغیرہ جیسے اس کے اداروں کے ذریعے دائر کی گئی ہے جو حیرت انگیز اور افسوس کی بات ہے۔

انہوں نے کہا، ‘ میں مانتا ہوں کہ آئینی عدالتوں کے پاس سی آئی سی کے احکام کے عدالتی تجزیہ کا حق ہے۔ لیکن کیا حکومت باقاعدگی سے سی آئی سی کو اس طرح کی ہر عرضی میں مدعا علیہ تعداد ایک بنا سکتی ہے۔ ‘ اچاریولو نے کہا، ‘ میں  صدر  جمہوریہ سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ لوگوں کے حقِ اطلاعات کو ایسے مقدموں (ایس ایل اے پی پی) سے بچائیں اور سرکاری بلدیاتی کے ذریعے رٹ عرضیاں اور آر ٹی آئی میں غیر قانونی ترمیم سے سینٹرل انفارمیشن  کمیشن کی حفاظت کریں۔ ‘ واضح ہو  کہ ایم شری دھر آچاریولو 22 نومبر 2013 سے 21 نومبر 2018 تک سینٹرل انفارمیشن  کمیشن میں سینٹرل انفارمیشن  کمشنر تھے۔

شری دھر آچاریولو کے ذریعے صدر  جمہوریہ رام ناتھ کووند کو بھیجے گئے پورے خط کو پڑھنے کے لئےیہاں کلک کریں۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)