خبریں

سپریم کورٹ نے مرکز اور 8 ریاستوں سے پوچھا، انفارمیشن کمشنر کے عہدوں کو بھرنے کے لئے کیا کیا

سینئر  وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ مرکز اور ریاست کے انفارمیشن  کمیشن میں انفارمیشن  کمشنر کے عہدوں کا خالی رہنا جمہوریت کے لئے اچھا نہیں ہے۔ آر ٹی آئی ایکٹ  پاس  کرنے کااہم مقصد شفافیت متعین کرنا تھا۔

سپریم کورٹ اور وزیر اعظم نریندر مودی (فوٹو : پی ٹی آئی)

سپریم کورٹ اور وزیر اعظم نریندر مودی (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت، مغربی بنگال، آندھر پردیش، اڑیسہ ، تلنگانہ، مہاراشٹر، گجرات، کیرل اور کرناٹک حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ مرکزی اور ریاستی انفارمیشن  کمشنر کی تقرری کے لئے اٹھائے گئے قدم پر اسٹیٹس رپورٹ داخل کریں۔ سپریم کورٹ کے جسٹس اے کے سیکری اور جسٹس ایس  عبدالنظیر نے آر ٹی آئی کارکن انجلی بھاردواج کے ذریعے دائر مفاد عامہ عرضی پر سماعت کرتے ہوئے ان ریاستوں کو ایک ہفتے کے اندر یہ بھی بتانے کے لئے کہا ہے کہ ان خالی عہدوں کو کس طرح بھرا جائے‌گا۔

لائیو لاء  کے مطابق انجلی بھاردواج کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے کورٹ کے سامنے ایک چارٹ پیش کرکے بتایا کہ کس طرح سے ان ریاستوں میں انفارمیشن  کمشنر کے عہدے خالی ہیں اور حکومتیں خالی عہدوں کو بھر نہیں رہی ہیں۔ بھوشن نے بتایا کہ اس وقت سینٹرل انفارمیشن  کمیشن میں صرف تین انفارمیشن  کمشنر کام کر رہے ہیں اور 8 عہدے خالی ہیں۔ اس میں سے چیف انفارمیشن  کمشنر کا بھی عہدہ خالی ہے۔

پرشانت بھوشن نے کہا کہ نہ صرف سینٹرل انفارمیشن  کمیشن بلکہ کئی ریاستی انفارمیشن  کمیشن میں بھی کافی سارے عہدے خالی ہیں لیکن بھرتیاں نہیں ہو رہی ہیں۔ سینئر  وکیل بھوشن نے کہا، ‘ موجودہ حالت آر ٹی آئی ایکٹ  کے طریقہ کار کو کمزور کر رہی ہے۔ یہ جمہوریت کے لئے اچھا نہیں ہیں۔ آر ٹی آئی قانوپاس کرنے کے پیچھے کا اہم مقصد شفافیت متعین کرنا تھا۔ ‘ اس معاملے کی اگلی سماعت 13 دسمبر کو ہوگی۔

آر ٹی آئی  قانون کے تحت انفارمیشن  کمیشن اطلاع پانے سے متعلق معاملوں کے لئے سب سے بڑا اور آخری ادارہ ہے، حالانکہ، انفارمیشن  کمیشن کے فیصلے کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں چیلنج کیا  جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے امید وار سرکاری محکمے کے لوک انفارمیشن  افسر کے پاس درخواست کرتا ہے۔ اگر 30 دنوں میں وہاں سے جواب نہیں ملتا ہے تو امید وار پہلے  اپیل افسر کے پاس اپنی درخواست بھیجتا ہے۔

اگر یہاں سے بھی 45 دنوں کے اندر جواب نہیں ملتا ہے تو امید وار سینٹرل انفارمیشن  کمیشن یا ریاست کے انفارمیشن  کمیشن کی پناہ لیتا ہے۔ لیکن ملک بھر‌کے انفارمیشن  کمیشن کے حالات بےحد خراب ہیں۔ عالم یہ ہے کہ اگر آج کے دن انفارمیشن  کمیشن میں اپیل ڈالی جاتی ہے تو کئی سالوں بعد سماعت کا نمبر آتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کمیشن میں کئی سارے عہدے خالی پڑے ہیں۔

1۔ آندھر پردیش کے ریاستی اطلاعاتی کمیشن میں ایک بھی انفارمیشن  کمشنر نہیں ہے۔ یہ ادارہ اس وقت پوری طرح سے غیرفعال ہے۔

2۔ مہاراشٹر ریاستی اطلاعاتی کمیشن میں اس وقت 40000 سے زیادہ اپیل اور شکایتں زیر التوا ہیں لیکن یہاں پر ابھی بھی چار عہدے خالی پڑے ہیں۔

3۔ کیرل ریاستی اطلاعاتی کمیشن میں صرف ایک انفارمیشن  کمشنر ہے۔ یہاں پر 14000 سے زیادہ اپیل اور شکایتں زیر التوا ہیں۔

4۔ کرناٹک ریاستی اطلاعاتی کمیشن میں انفارمیشن  کمشنر کے 6 عہدے خالی پڑے ہیں جبکہ یہاں پر 33000 اپیل اور شکایتں زیر التوا ہیں۔

5۔ اڑیسہ  اطلاعاتی کمیشن صرف تین انفارمیشن  کمشنر کے بھروسے چل رہا ہے جبکہ یہاں پر 10000 سے زیادہ اپیل / شکایتں زیر التوا ہیں۔ اسی طرح تلنگانہ کے انفارمیشن  کمیشن میں صرف 2 انفارمیشن  کمشنر ہیں اور یہاں پر 15000 سے زیادہ اپیل اور شکایتں زیر التوا ہیں۔

6۔ مغربی بنگال کی حالت بہت زیادہ خوفناک ہے۔ یہاں حالت یہ ہے کہ اگر آج وہاں پر کوئی اپیل فائل کی جاتی ہے تو اس کی سماعت 10 سال بعد ہو پائے‌گی۔ یہاں پر صرف 2 انفارمیشن کمشنر ہیں۔

7۔ وہیں، گجرات، مہاراشٹر اور ناگالینڈ جیسی جگہوں پر چیف انفارمیشن  کمشنر ہی نہیں ہیں۔ یہاں پر انفارمیشن کمیشن چیف انفارمیشن کمشنر کے بغیر کام کر رہے ہیں۔