فکر و نظر

اب وقت آگیا ہے کہ کانگریس کو ایودھیا تنازعے کا حل پیش کرناچاہیے       

شترمرغ کی طرح اس مسئلہ سے منہ چرانا کوئی حل نہیں ہے۔ابھی وقت ہے کہ کانگریس پارٹی کا خصوصی اجلاس طلب کر کے اپنے کارکنان کے خیالات جانے اور قرارداد لا کر ملک و قوم کے سامنے ایک نیا راستہ پیش کرے۔

فوٹو: ٹی نارائن

فوٹو: ٹی نارائن

اس وقت جبکہ رام جنم بھومی آندولن ایک بار پھر زور پکڑتا جا رہا ہے، ایسے میں کانگریس کے لیے اشد ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کو لے کر ایک واضح حکمت عملی طے کر لے۔ راہل گاندھی مندروں میں درشن کو جا رہے ہیں۔ اپنا گوتر و جنیو نیز اکثریتی طبقے کے عقیدے سے اپنا تعلق دکھا رہے ہیں۔ ان عوامل کے ساتھ انہیں ووٹرس کو یہ سمجھانا پڑے گا کہ ایسے سب کام کرنے والی نریندر مودی کی بی جے پی  سے ان کی قدیم اورتاریخی پارٹی کیوں الگ ہے۔

ٹی وی پر اپنی آنکھوں کے سامنے خاموشی سے بابری مسجد کو مسمار ہوتے دیکھ رہے وزیر اعظم پی وی نرسِمہا راو نے اپنی کتاب’ایودھیا دسمبر 6’میں ایسے کانگریسی نیتا ؤں کا ذکر کیا ہے، جن کا کردار اس معاملے میں مشکوک رہا۔ انہوں نے لکھا؛

اس واقعے (بابری مسجد مسمار ی)کے بعد بڑی بڑی باتیں کی جانے لگیں اور لوگ ایسے دانشمند بننے لگے جیسے سب انہیں پہلے ہی سے پتہ تھا۔ کہنا ضروری ہے کہ یہ سب اداکاری تھی۔ انہوں نے ایک بڑا مسئلہ نہ صرف پیدا کیا بلکہ تباہی کی اس ہنگامہ بازی میں سرگرم بھی رہے۔ وہ چاہتے تھے کہ تاریخ میں ان کا نام درج ہو جائے، بھلے ہی کسی غلط کاز کے لیے۔

کارسیوکوں کے ذریعے بابری مسجد مسمار کرنے سے چند دن پہلے نرسمہاراؤ کی حکومت میں وزیر اور ان کے ناقد بھی آنجہانی ارجن سنگھ، اتر پردیش کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ سے ملے اور اس بات کا اعلان کیا کہ سب ٹھیک ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی ارجن سنگھ نرسمہا راؤ کے خلاف الزام تراشی کی مہم چلا رہے تھے کہ انہوں نے مسجد مسمار کیے جانے کے حالات تیار کر دیے ہیں۔

ایودھیا پر سابق وزیر اعظم کی اس کتاب میں جہاں بابری مسجد گرائے جانے کے لیے پوری طرح کلیان سنگھ سرکار اور بی جے پی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے، وہیں انہوں نے اپنے کانگریسی ساتھیوں پر بھی انگلی اٹھائی ہے، جو اپنے ‘سیاسی مفادات اور ووٹوں کی فصل’ کو سامنے رکھتے ہوئے چل رہے تھے۔

‘انہوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ کسی ایک شخص کو اس تاریخی سانحہ کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا ہے، سو انہوں نے اس ہتھیار کا استعمال میرے اوپر کر لیا۔ میں اسے خوب سمجھتا ہوں۔’

اس کتاب کے ایک باب میں انہوں نے کچھ کانگریسی رہنماؤں کا نام لیے بغیر کہا کہ ان لوگوں نے 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد گرائے جانے سے پہلے ہی ایک حتمی فیصلہ کر لیا تھا۔ اس وقت راؤ وشو ہندو پریشد اور آر ایس ایس والوں سے درپردہ گفتگو کر رہے تھے۔ راؤ کے مطابق کانگریس کے مذکورہ نیتاؤں نے طے کر لیا تھا کی اگر مصالحت ہو جاتی ہے تو اس کا کریڈِٹ انہیں بھی ملے گا۔ اس طرح کامیابی میں حصےداری پانے کی خواہش رکھتے ہوئے انہوں نےخود کو بچا بھی رکھا تھا۔

اپنی کتاب میں انہوں نے راجیو گاندھی کے لیے بھی ایک گڑھا کھود دیا۔ 1989 میں راجیو نے ایودھیا میں مندر کے ‘شِیلانیاس’کی اجازت دے دی۔ راؤ نے اس پر بحث کی ہے کہ یہ شِیلانیاس متنازعہ مقام پر کیا گیا یا غیر متنازعہ مقام پر۔ مختلف سرکاری رِیکارڈس اور بیانات کی بِنا پر انہوں نے لکھا ہے کہ شِیلانیاس غیر متنازعہ مقام پر کیا گیا تھا۔ 202 صفحات کی اس کتاب میں انہوں نے مسجد ڈھائے جانے کے معاملے میں خود کو’واقعتاً، آئینی، سیاسی اور قانونی طور پر’درست ٹھہرانے کی کوشش کی ہے۔ وہ اصرار کرتے ہیں کہ اُس اتوار کو جو کچھ ہوا وہ ان کے قبضہ اختیار سے باہر تھا۔

ان کی دلیل ہے کہ قانوناً موقعہ کا قبضہ مرکزی سرکار کے پاس نہیں تھا۔ پھر شہر میں ڈیرہ ڈال کر بیٹھی مرکزی فورسِز کو مجسٹریٹ نے موقعہ پر جانے کی اجازت نہیں دی۔ ان کے مطابق وہاں ایک ہی آئین سے چلنے والی دو سرکاریں متصادم تھیں۔ ایسے میں مرکزی فورسِز نے آئین کی حدود میں رہ کر کام کیا۔ کتاب کے تعارف میں وہ کہتے ہیں کی صفائی پیش کرنے کے لیے نہیں بلکہ حقائق سے پردہ اٹھانے کے لیے انہوں نے یہ کتاب لکھی ہے۔ ایسے ہی انہوں نے اس وقت اتر پردیش میں آئین کی شق 356 کا استعمال کر کے وہاں صدر راج کا نفاذ نہ کر پانے کی بھی توضیح پیش کی ہے۔

ادھر ایودھیا تنازعہ پر راجیو، سونیا اور راہل گاندھی مختلف موقعوں پر متضاد باتیں کہتے آئے ہیں، لیکن انہیں اس کا کوئی سیاسی فائدہ نہیں مل پایا۔ 1989 میں وزیر اعظم راجیو گاندھی نے ایودھیا میں سریو ندی کے کنارے سے لوک سبھا کی چناوی مہم کا آغاز ‘رام راجیہ’ کا وعدہ کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ وہاں، راؤکے مطابق متنازعہ مقام پر “شِیلانیاس” بھی کیا۔ لیکن اس چناؤ میں کراری ہار اور مسلم ووٹوں کے چھِٹک جانے پر انہوں نے رام راجیہ کی بات بند کر دی۔

البتہ سونیا گاندھی نے غالباً پہلی بار اپنی سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا، جب 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد ڈھا دیے جانے کے خلاف راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک سخت بیان جاری کیا۔ بطور آر جی ایف چیئر پرسن انہوں نے پی چدمبرم و اپنے دیگر مشیروں کے مشوروں کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ اگر راجیو حیات ہوتے تو بابری مسجد کو گرانے نہیں دیتے۔

باقاعدہ سیاست میں آ نے کے بعد جنوری 1998 میں سونیا نے حیدرآباد میں مسلمانوں کے جمِّ غفیر سے خطاب کرتے ہوئے وہ بات کہی تھی، جو راہل نے اپریل 2007 میں اتر پردیش میں دوہرائی۔ سونیا نے کہا تھا کہ گاندھی خاندان کا کوئی فرد اس وقت ملک سنبھال رہا ہوتا تو بابری کا ڈھانچہ مِسمار نہ ہوا ہوتا۔ اصل میں مئی 1991 میں اپنی موت سے ایک ماہ قبل راجیو گاندھی نے سونیا سے کہا تھا کہ اگرکسی نے بابری مسجد کو چھونے کی بھی کوشش کی تو وہ اس کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ انہیں پہلے میری جان لینی ہوگی۔

2004 میں ایک خصوصی ٹی وی انٹرویو کے دوران سونیا نے پھر بابری مسجد مسمار کیے جانے والے دنوں کو یاد کیا؛

‘ہاں، تب میں سیاست میں نہیں آئی تھی۔ راجیو گاندھی فاونڈیشن کی چیئر پرسن کی حیثیت سے ہم نے ایک سخت بیان جاری کیا تھا۔ ایک بار پھر وہ ایک ایسا دن تھا، جسے میں کبھی بھول نہیں پاؤں گی۔ حقیقت میں وہ ہمارے لیے صرف آنسوؤں کی برسات ہی نہیں لایا، بلکہ ہم سب بے حد پریشان و گھبرائے ہوئے تھے… ہاں، مرکز میں کانگریس کی سرکار تھی لیکن یہ مت بھولیے کہ اُتر پردیش میں بی جےپی کی سرکار تھی۔’

الیکشن کے نقطہ نظر سے بات کریں تو رام راجیہ لانے کے وعدے سے لے کر بابری مسجد کی حفاظت کا بھروسہ دلانے کی بات تک، 1992 سے تا حال ووٹ لانے کا موضوع ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔ حیدرآباد میں مسلمانوں سے سونیا گاندھی کی ایک مشروط معافی کا بھی کوئی خاص اثر نہیں ہوا، بلکہ صورتحال اور خراب ہو گئی۔ نوبت یہ آ گئی کہ سن 1998 میں جب عام انتخابات کے نتائج آئے تو کانگریس کے متلون مزاج قومی صدر سیتارام کیسری نے یہ کہہ دیا کہ کانگریس وہ زیادہ تر سیٹیں ہار گئی، جن پر سونیا گاندھی نے چناؤپرچار کیا تھا۔ اتر پردیش میں بھی یہی معاملہ رہا۔ 1998 اور بعد کے چناؤ میں وہاں سے کانگریس کا صفایا ہوتا رہا۔

مسلم اکثریت والے حلقوں میں بھی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کانگریس کے زیادہ تر نیتا اپنی ذاتی گفتگو میں بھی بابری مسجد یا رام جنم بھومی کے بارے میں بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ شترمرغ کی طرح اس مسئلہ سے منہ چرانا کوئی حل نہیں ہے۔ ابھی وقت ہے کہ کانگریس پارٹی کا خصوصی اجلاس طلب کر کے زمینی سطح کے اپنے کارکنان کے خیالات جانیں اور ہمیشہ ابال کھاتے رہنے والے ایودھیا تنازعہ پر قرارداد لا کر ملک و قوم کے سامنے ایک نیا راستہ پیش کرے۔