فکر و نظر

مشیر الحسن ہر طرح کی فرقہ پرستی کے خلاف تھے

معروف مؤرخ مشیرالحسن کا آج طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔وہ ایک ایسے مؤرخ تھے جن کی تحریروں میں اکثریت اور اقلیت کی فرقہ پرستی کے خلاف سخت احتجاج نظر آتا ہے۔

فوٹو : ایس عرفان حبیب/ٹوئٹر

فوٹو : ایس عرفان حبیب/ٹوئٹر

پروفیسر مشیرالحسن(1949-2018)کاطویل علالت کے بعد71 سال کی عمر میں آج انتقال ہو گیا۔ سیکولر ہندوستان نے آج نہ صرف ایک عظیم مؤرخ کھو دیا بلکہ ایک معروف دانشورسے بھی محروم ہوگیا۔ ان کی تاریخ دانی صرف اکادمک دنیا تک محدود نہیں تھی۔ انہوں نےہمعصر ہندوستان کے مسائل کو جدید تاریخ کی روشنی میں  عوام تک پہنچانے کی بھرپور سعی کی ۔

ان کی ابتدائی تعلیم کلکتہ میں ہوئی، جہاں ان کے والد پروفیسر محب الحسن ، شعبہ تاریخ میں استاد تھے۔اس کے بعد ان کے والد علی گڑھ مسلم یو نی ورسیٹی آگئے۔اس وجہ سے مشیرالحسن نے علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کےمنٹو سرکل یعنی ایس ٹی ایس ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا اور اسی یونیورسیٹی سے بی اے اور ایم اے کر کے دہلی یونیورسیٹی کے رام جس کالج میں استاد ہو گئے۔بعد میں وہ کیمبرج یونیورسیٹی گئے ۔وہاں انہوں نے پی ایچ ڈ ی کی ڈگری حاصل کی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں استاد ہوئے۔ نسبتاً کم عمر میں ہی پروفیسر بھی ہو گئے۔

ان کی پی ایچ ڈی کا مقالہ شائع ہو کر کافی مقبول ہوا اوراب تک  اس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں ۔اپنے مقالے میں انہوں نے 1930 تک کے ہندوستان کی فرقہ پرست سیاست پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ بعد میں انہوں نے تقسیم ہند کی تاریخ سے متعلق کئی اہم تحقیقی مضامین اور کتابیں شائع کیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ تاریخ نویسی میں ان سے قبل اردو ماخذ و دستاویزات کا استعمال بہت کم ہو رہا تھا۔

تقسیم ہند کی تاریخ کو لے کر، ایک عرصے تک مسلمانوں کو احساس جرم کا شکار بنا دیا گیا تھا۔ کہا جانا چاہیےکہ ان کی تحقیقات سے اس نا انصافی کا خاتمہ ہونا شروع ہوا۔ انہوں نے آزاد ہندوستان کے 50سالہ سفر میں مسلمانوں پر ایک کتاب لکھی، اودھ کے مسلمانوں میں تقسیم کی سیاست کی مخالفت پر بھی کتاب شائع کی، اس کے علاوہ، مولانا محمد علی جوہر، ڈاکٹر مختار انصاری، ولایت علی بمبوق،پربھی کتابیں شائع کیں اور دستاویزات کو محققین کے لیے دستیاب کرایا۔

علی گڑھ مسلم یو نی ورسیٹی پر بھی یہ الزام تھا کہ یہاں کے اساتذہ و طلبا نے تقسیم کی سیاست کی حمایت کی۔اپنےتحقیقی مقالوں سے انہوں نے مادر علمی کا قرض چکایا اور ایسے مفروضوں کی تردید، مضبوط ترین تاریخی شواہدات کی روشنی میں کی۔علی گڑھ کی طالبعلمی کے زمانے میں انہوں نے اسٹوڈنٹس یونین کا الیکشن بھی سکریٹری کے عہدے کے لیے لڑا تھا، حالاں کہ وہ بہت کم ووٹوں سے ہار گئے ۔مشیرالحسن  بحث و مباحثہ میں بڑے جوش و خروش سے حصہ لیتے تھے ۔ ان کو فلم بینی کا بھی خوب شوق تھا۔

بعض دفعہ وہ علی گڑھ میں دقیا نوسی سوچ رکھنے والوں  کے خلاف احتجاج کے طور پر لڑکیوں کے ساتھ رکشے میں بیٹھ کر بھی  فلمیں دیکھنے جاتے تھے۔جا معہ ملیہ اسلامیہ میں انہوں نے وائس چانسلر کی حیثیت سے نا قابل فراموش خدمات انجام دیے۔ملک اور بیرون ملک کے ہندوستانی اسکالروں کو بڑی تعداد میں بہ حیثیت استاد تقرریاں دیں، کئی خوبصورت عمارات تعمیر کروائیں، اورکئی معنوں میں  اکادمک توسیع کو ممکن بنایا۔

ان کی تحقیقات اور تحریروں میں اکثریت اور اقلیت دونوں کی فرقہ پرستی کے خلاف سخت احتجاج نظر آتا ہے۔ ان کے یہاں courage of conviction اور بے باکی بہت صاف دکھائی دیتی ہے۔ اس وجہ سے ان کو مسلم فرقہ پرستوں کا بھی نشانہ بننا پڑا تھا اور ہندو فرقہ پرستوں نے تو انہیں اپنا دشمن مان ہی رکھا تھا۔

آج ہندوستان اس نہج پر بہت نازک موڑ پر ہے کیوں کہ فرقہ پرست طاقتیں اپنے عروج پر ہیں اور اقتدار ہی میں نہیں بلکہ سماج میں بھی یہ زہر کافی پھیل چکا ہے۔ چنانچہ ان جیسے دانشوروں کی ہندوستان کو سخت ضرورت ہے۔ ہم لوگ اگر ان کی اس روایت کو مزید آگے بڑھائیں تو یہ ہماری طرف سے ان کو سب سے بہتر خراج  ہوگا۔

(مضمون نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں پروفیسر ہیں ۔)