فکر و نظر

بہار: نریندر سے الگ ہوکر کتنے اور کس کے لئے اثردار ثابت ہوں‌گے اپیندر؟

کشواہا کے فیصلے کے بعد لوگوں کی نظر رام ولاس پاسوان پر بھی ہے۔ خاص طور پرکشواہا کمیونٹی کی اچھی خاصی موجودگی والے حاجی پور، سمستی پور اور ویشالی جیسی اپنی قبضے والی سیٹوں پر لوک جن شکتی پارٹی کی مشکلیں بڑھیں‌گی۔

فوٹو: مادھو آنند

فوٹو: مادھو آنند

تقریباً ڈیڑھ مہینے سے بہار این ڈی اے میں سیٹ بٹوارے کے فارمولے پر کھل‌کے ناراض چل رہے اور اس کے لئے سیاسی مول بھاؤ کر رہے راشٹریہ لوک سمتا پارٹی (آر ایل ایس پی) کے قومی صدر اور مرکزی ریاستی  وزیر اپیندر کشواہا نے سوموار کو مرکز کی نریندر مودی حکومت سے استعفیٰ دینے کے ساتھ-ساتھ نیشنل ڈیموکریٹک الائنز  یعنی این ڈی اے کا دامن بھی چھوڑ دیا ہے۔

سوموار سے پہلے جہاں انتظار اس بات کا تھا کہ کشواہا کیا فیصلہ لیتے ہیں وہی اب تذکرہ اس بات کا ہو رہا ہے کہ ان کے فیصلے کا بہار کی سیاست پر کیا اثر پڑے‌گا۔اس کی جانچ شروع کرنے سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ اپیندر کشواہا کا آج بہار کی سیاست میں قد کیا ہے؟  پربھات خبر(بہار)کے مدیر اجئے کمار بتاتے ہیں،ابھی کے دور میں اپیندر کشواہا نے اپنی امیج کشواہا کمیونٹی کے ایک بڑے رہنما کے طور پر گڑھی ہے۔

جیسا کہ 70 کی دہائی میں سمترا دیوی، ہری دوار سنگھ کی امیج تھی یا جیسا کہ بہار کے لینن کہے جانے والے جگدیو پرساد کو مانا جاتا ہے۔ استعفیٰ سے ان کو اپنی اس امیج کو نکھارنے میں اور مدد ملے‌گی۔اپیندر کشواہا کا یہ قد انتخابی ریاضی کے لحاظ سے بہار میں اس سبب اہم ہو جاتا ہے کہ بہار میں کشواہا سماج کی آبادی 7 سے 8 فیصد مانی جاتی ہے اور یہ بہار میں پسماندے طبقے کی کمیونٹی میں یادو کے بعد دوسری سب سے بڑی طاقت ہے۔

استعفیٰ دےکر دیا پیغام

اب بات کرتے ہیں ان کے این ڈی اے سے الگ ہونے سے بہار کی سیاست پر پڑنے والے اثر کی۔ سینئر صحافی سرور احمد بتاتے ہیں، کشواہا کمیونٹی کا آدھا ووٹ بھی اپیندر اگر اپنے دم پر کسی اتحاد میں ٹرانسفر کروا پاتے ہیں تو یہ اس اتحاد کے لیےموجودہ انتخابی فارمولے میں اضافہ کا باعث ہوسکتا ہے اور کشواہا اتنے طاقت ور دکھتے بھی ہیں۔  ساتھ ہی انتخابی سیاست میں تصورات کا بھی نفسیاتی  اثر پڑتا ہے۔ اسمبلی انتخاب کے نتائج کے پہلے ہی استعفیٰ دےکر انہوں نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ این ڈی اے اب ڈوبتی ہوئی کشتی ہے۔

وہیں اس سلسلے میں اجئے کمار کہتے ہیں،یہ تو صاف ہے کہ اپیندر کشواہا کے الگ ہونے سے این ڈی اے کو نقصان ہوا ہے اور اب یہ جس اتحاد کے ساتھ بھی جائیں‌گے اس کو طاقت دیں‌گے۔  ساتھ ہی یہ اس بات پر بھی منحصر کرتا ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاست کیا کروٹ لیتی ہے۔  بی جے پی کا اسمبلی انتخابات میں مظاہرہ اگر برا رہا تو کشواہا اور اثردار ثابت ہوں‌گے۔

استعفیٰ دینے کے 4 دن پہلے 06 دسمبر کو بہار کے موتیہاری میں منعقدایک جلسہ میں اپیندر کشواہا نے رام مندر کی تعمیر جیسے بی جے پی کے کور ایجنڈے کی تیکھی مخالفت کی تھی۔  لیکن استعفیٰ کے دن انہوں نے فیصلے کی اہم وجہ یہ بتائی کہ نریندر مودی حکومت ان کی کوششوں کے باوجود سماجی انصاف سے جڑے مدعے کو پورا کرنے پر ناکام رہی۔  اس تبدیلی پر اجئے کمار کہتے ہیں، مندر یا کہیں مذہبی مدعے سماج میں اس قدر پیٹھ بنا چکے ہیں کہ کشواہا کو یہ خطرہ لگ رہا ہوگا کہ فرقہ پرستی کے مدعے پر حکومت سے الگ ہونے پر ان کو لوگوں کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

فوٹو: مادھو آنند

فوٹو: مادھو آنند

کشواہا کے راستے

کشواہا نے سوموار کو اپنے مستقبل کی سیاست کے سلسلے میں تین باتیں کہیں۔ان کے مطابق ان کے پاس اکیلے لڑنے، تیسرا مورچہ بنانے اور مہاگٹھ بندھن  کے ساتھ جانے کے تین راستے ہیں اور اس میں سے وہ کس کا انتخاب کرتے ہیں اس کے بارے میں وہ جلد فیصلہ کریں‌گے۔  کشواہا کے ان اختیارات پر اجئے کمار یہ رائے رکھتے ہیں، کشواہا پہلے تو یہ دیکھیں‌گے کہ مہاگٹھ بندھن  میں ان کا مقصد کتنا پورا ہوتا ہے۔

اگر یہ پورا نہیں ہوا تو غیر-بی جے پی اور غیر-کانگریس کے نعرے کے ساتھ وہ کمیونسٹ پارٹیوں، شرد یادو، پپو یادو جیسی سیاسی طاقتوں کے ساتھ ایک الگ مورچہ بنا سکتے ہیں یا ایسی قواعد سے مہا گٹھ بندھن   پر دباؤ بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔وہی سرور احمد کشواہا کےاکیلے لڑنے یا تیسرا مورچہ بنانے کی بات کو سرے سے خارج کرتے ہوئے اس کو ان کا مول بھاؤ اور دباؤ کی حکمت عملی کے اگلے قدم کے طور پر دیکھتے ہیں۔

کشواہا کے فیصلے کے بعد لوگوں کی نظر لوک جن  شکتی پارٹی  کے قومی صدر اور مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان پر بھی ہے۔یہ بھی اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اب رام ولاس کا اگلا قدم کیا ہوگا۔سرور احمد کہتے ہیں،2014 کے انتخاب میں مودی لہر تھی لیکن اب جب کوئی لہر نہیں دکھائی دے رہی ہے اور نریندر مودی کی مقبولیت بھی ڈھلان پر دکھتی ہے تو ایسے میں کشواہا کے لگ ہونے کا این ڈی اے کے ساتھ-ساتھ لوک جن شکتی پارٹی پر بھی اثر ہونا ضروری ہے۔

  خاص طور پرکشواہا کمیونٹی کی اچھی خاصی موجودگی والا حاجی پور، سمستی پور اور ویشالی جیسے اپنے قبضے والی سیٹوں پر لوک جن شکتی پارٹی کی مشکلیں بڑھیں‌گی۔حالانکہ سرور احمد کے مطابق لوک جن شکتی پارٹی ،این ڈی اے سے الگ نہیں ہوگی کیونکہ پارٹی کے فیصلے اب چراغ پاسوان لیتے ہیں اور وہ مہاگٹھ بندھن  کے ساتھ جانے کے حق  میں نہیں ہیں۔

وہیں یہ بھی مانا جا رہا ہے کہ کسی خاص سیٹ یا سیٹوں کی دعوےداری آر ایل ایس پی اور غیراین ڈی اے جماعتوں کے درمیان کسی ٹکراؤ کی وجہ نہیں بنے‌گی اور سیٹ کی تقسیم اس میں الجھے‌گی بھی نہیں۔  ویسے اپیندر کشواہا نے کل یہ بھی اعلان کر دیا کہ وہ اپنی موجودہ سیٹ کاراکاٹ سے ہی اگلا لوک سبھا انتخاب لڑیں‌گے۔