فکر و نظر

دبئی کی شہزادی لطیفہ سے مودی حکومت کا کیا رشتہ ہے؟

مودی جب سے برسراقتدار آئے ہیں، امریکی صدر ٹرمپ کی طرح عرب ممالک انہیں کچھ زیادہ ہی سر آنکھوں پر بٹھا رہے ہیں۔

Sheikha Latifa/ Credit: Video grab

Sheikha Latifa/ Credit: Video grab

اسی سال مارچ میں ایک امریکی پرچم بردار لگزری یاٹ’ نوسٹرومو‘ہندوستان کے مغر بی صوبہ گوا کی طرف رواں تھی کہ ساحل سے 50کلومیٹر دور نامعلوم بندوق برداروں نے اس کوگھیر لیا۔ فائرنگ کے بعد یاٹ کے اندر گیس چھوڑ دی گئی، جس سے لگ رہا تھا کہ بندوق بردار یاٹ کے اندر موجود افراد کو زندہ پکڑنے کی سعی کر رہے ہیں۔ چند لمحوں میں ماسک پہنے ہوئے 15مسلح افراد یاٹ کے اندر داخل ہو گئے اورکیبن میں موجود ایک مرد و خاتون کو باندھ کر اپنے جہاز میں منتقل کیا۔

یاٹ اور اسکے عملہ کو ہندوستانی کوسٹ گارڈ نے گھیر کر گوا پہنچایا۔ جیمز بانڈ ٹائپ کے اس آپریشن میں اگر ہندوستانی  کوسٹ گارڈ شامل نہ ہوا ہوتا ، تو اس کو بحری قزاقوں کے کھاتے میں ڈال کر خاموشی چھا گئی ہوتی۔ معلوم ہوا کہ یہ ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں کا ایک نہایت ہی حساس آپریشن تھا اور کوسٹ گارڈ کمانڈوز کو کور دے رہے تھے۔ جس خاتون کو انہوں نے یاٹ سے برآمد کیا وہ کوئی اور نہیں بلکہ دبئی کے فرمانروا اور متحدہ عرب امارات کے وزیر اعظم شیخ محمد بن رشید سعید المکتوم کی صاحبزادی شہزادی لطیفہ المکتوم تھی، جو ایک امریکی سہیلی ٹیناجوہیانین کے ہمراہ ایک فرانسی نژاد امریکی جاسوس ہروی جین پیری جوبرٹ کے ساتھ اس امریکی یاٹ پر عمان سے سوار ہوگئی تھی۔ وہ گوا ہوتے ہوئے امریکہ کی طرف رواں تھی، تاکہ وہاں سیاسی پناہ حاصل کرسکے۔

 شہزادی کے ان عزائم کی اطلاع جب متحدہ امارات کے حکمرانوں کو ملی، تو انہوں نے ہندوستان سے مدد مانگی۔ ذرائع کے مطابق قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال کی ایما پر وزیر اعظم نریندر مودی نے اس حساس آپریشن کی منظوری دی تھی۔ شہزادی لطیفہ کے ساتھ تعلقات کے افشا کی وجہ سے جوبرٹ 2010میں دبئی سے فرار ہوگیا تھا۔ شہزادی کے وکیل ٹوبی کیڈمین کے بقول اس کے بعد لطیفہ کو حبس بے جا میں رکھ کر خاصی اذیتیں دی گئیں۔ با لآخر 8سال بعد موقعہ ملتے ہی امریکی سہیلی کی مدد سے وہ پہلے عمان فرار ہوگئی جہاں جوبرٹ اس کا انتظار کر رہا تھا۔

ان کاخیا ل تھا کہ ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہونے کے ناطے ہندوستان عرب امارات کے دباؤ کو درکنار کرتے ہوئے ان کو گوا کے ساحل پر لنگر انداز ہونے کی اجازت دےگا ،جہاں سے وہ امریکی سفارت خانہ کی حفاظت میں آکر واشنگٹن روانہ ہونے والے تھے۔ شہزادی کو اسی رات بحیرہ عرب میں موجود متحدہ امارات کی بحریہ کے حوالے کیا گیا۔ ٹوبی کیڈمین کی ایما پر اقوام متحدہ کے دو ادارے کمشنر برائے انسانی حقوق اور گمشدہ افراد کی بازیابی سے متعلق گروپ اس واقعہ کی تحقیقات کر رہے ہیں اور ابھی تک وہ دو بار ہندوستان  اور اس کے قومی سلامتی مشیر کو نوٹس ایشو کر چکے ہیں۔

یہ طے ہے کہ عالمی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسا کوئی آپریشن اگر خطے کے کسی اور ملک نے کیا ہوتا تو مغربی ممالک نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہوتا۔بتایا جاتا ہے کہ امریکی جہاز پر ہوئے اس آپریشن کے لیے امریکی قومی سلامتی مشیر میک ماسٹر نے 21 مارچ کو ڈوبھال کو فون کرکے احتجاج درج کروایا ۔ اس کے جواب میں ڈوبھال نے مودی کو ووہان میں چھٹیاں منا رہے چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کرنے کی ترغیب دی، تاکہ امریکیوں کو پیغام دیا جائے۔

اس آپریشن نے یقیناًعرب ممالک میں قومی سلامتی مشیر ڈوبھال کا قد خاصا بلند کیا ہے۔ اس کے عوض امارات کے حکمراں بغیر کسی پس و پیش کے مفرور ملزموں کو ہندوستان کے حوالے کر رہے ہیں۔ شہزادی لطیفہ کے اس آپریشن کے فوراً بعد دبئی نے 1993کے ممبئی دھماکوں کے ملزم اور مبینہ گینگسٹر داؤد ابراہیم کے ساتھی فاروق ٹکلہ کو ہندوستان کے حوالے کیا۔ مگر حا ل ہی میں ایک برطانوی شہری کرسچین مشعل کی حوالگی ، ہندوستان کی ایک انتہائی سفارتی کامیابی ہے۔ معاشی محاذ پر ناکامی اور اپوزیشن کانگریس کی طرف سے فرانس سے ہوئے رافیل جنگی طیاروں کے سودے میں ہوئی مبینہ بد عنوانیوں کو اچھالنے سے مودی حکومت کی خاصی سبکی ہورہی تھی۔

جوں جوں عام انتخابات قریب آرہے ہیں اور رافیل کے حوالے سے آئے دن نئے انکشافات کی وجہ سے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور وزیر اعظم مودی خاصے تذبذب میں نظر آرہے تھے۔ اس کا توڑ کرنے کے لیے اور کانگریس کو اسی کی زبان میں جواب دینے کے لیے دبئی حکومت سے درخواست کی گئی کہ برطانوی شہری اور اسلحہ ڈیلر مشعل کو ہندوستانی حکومت کے حوالے کرے۔ پچھلی کانگریس حکومت کے دور میں مشعل نے اٹلی کی کمپنی آگستا ویسٹ لینڈ سے وی وی آئی پی افراد کیلئے ہیلی کاپٹر کے تین ہزار کروڑ کے سودے میں دلالی کا کام کیا تھا۔

2012میں سوئٹزرلینڈ کے حکام نے مشعل کے ساتھی گیوڈو ہاسشکی کے گھر سے ایک ڈائری برآمد کی تھی، جس میں ہاتھ سے لکھے کورڈ الفاظ میں اپوزیشن کی رہنما سونیا گاندھی، ان کے خاندان کے دیگر افراد اور انکے سیاسی مشیر احمد پٹیل کو رشوت دینے کا ذکر کیا گیا ہے۔ مشعل نے پچھلے سال انکشاف کیا تھا کہ دبئی کے ایک ہوٹل میں ہندوستانی  خفیہ ایجنسی کے کسی فرد نے اس کو پیشکش کی تھی کہ اگر وہ سونیا گاندھی اور احمد پٹیل کو اس دفاعی سودے میں ہوئی بد عنوانی میں ملوث کرتا ہے تو ہندوستان کی طرف سے اس کی حوالگی کی درخواست کو رد کیا جائےگا۔مشعل کے یہاں آتے ہی خود وزیر اعظم مودی نے اپنی انتخابی تقریر میں کہا کہ اب رازدار آچکا ہے اور کانگریسی لیڈروں کو خبردار کیا کہ اب ان کے راز آشکارا ہوجائیں گے۔

 خیر مودی جب سے برسراقتدار آئے ہیں، امریکی صدر ٹرمپ کی طرح عرب ممالک انہیں کچھ زیادہ ہی سر آنکھوں پر بٹھا رہے ہیں۔ ملک میں اقلیتوں کے تئیں خوف و ہراس کی فضا، ہندو تنظیموں اور حکومتی عناصر کی طرف سے آئے دن دل آزار بیانات پر لگام دینے کے لیے سفارتی اثر و رسوخ استعمال کرنے کے بجائے عرب حکمران مودی حکومت کی منہ بھرائی کیوں کر رہی ہیں؟ یہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ مگر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ فی الحال تو لگتا ہے کہ اپنی سخت گیر شبہہ اور مسلمانوں کے تئیں ناپسندیدگی ہونے کے باوجود موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال کا ان عرب ممالک میں اچھا خاصا اثر و رسوخ ہے۔

ان کے صاحبزادے شوریہ دوبال دبئی کی ایک کمپنی جیمنی کارپوریٹ فائننس لمیٹڈ کے ڈائریکٹر ہیں، جس کے دیگر حصہ دار سعودی شاہی خاندان کے مثال عبدالعزیز السعود ہیں۔ ہندوستان کی مرکزی تفتیشی ایجنسی سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کے ایک ڈی آئی جی نے سپریم کورٹ میں دائر ایک پٹیشن  میں الزام لگایا ہے کہ ملک کی بیرونی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ انالیسز ونگ (را) کے دبئی آپریشنز کے انچارج سمانتا گوئل اور منوج پرساد نے اس کمپنی کے تجارتی مفادات کو بڑھانے میں کلیدی رول ادا کیا۔ شوریہ ڈوبھال کی ایک اور فرم ٹارچ فائنانشل سروسز کے دفاتر بھی جدہ اور دیگر خلیجی ممالک میں ہیں۔

اپنے کیریئرکے دوران پنجاب میں سکھ انتہا پسندی سے نمٹنے اور اسلام آباد میں خفیہ ایجنسی ‘را‘ کے انڈرکور ایجنٹ کے طور پرکئی سال کام کرنے کی وجہ سے ڈوبھال کا ہدف ہی پاکستان کو نیچا دکھانا رہا ہے۔ہندوستان  کے ایک نامور تفتیشی صحافی جوزی جوزف نے اپنی کتاب A Feast of Vultures میں انکشاف کیا ہے کہ جولائی 2005ء میں دہلی اور ممبئی پولیس کی ایک مشترکہ ٹیم نے جب ایک بدنام زمانہ گینگسٹر وکی ملہوترا کا پیچھا کرتے ہوئے بالآخر اس کو گھیر لیا تو اس کی کار میں اسلحہ کی کھیپ تو تھی ہی مگر ان کی حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب گینگسٹرکے ساتھ کار کی پچھلی سیٹ پر حال ہی میں انٹلی جنس بیورو کے چیف کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے اجیت ڈوبھال بھی براجمان تھے۔ یہ واقعہ دبا دیا گیا مگر معلوم ہوا کہ ڈوبھال ریٹائر ہونے کے باوجود چھوٹا راجن گینگ کے ساتھ مل کر ایک آپریشن پرکام کر رہے تھے جس کا مقصد 1993ء کے ممبئی دھماکوں میں ملوث گینگسٹر داؤد ابراہیم کو ٹھکانے لگانا تھا۔

ہندوستان  میں نیوکلیر دھماکوں کے بعد اٹل بہاری واجپائی نے ایک سفارت کار برجیش مشرا کو ہندوستان  کا پہلا قومی سلامتی مشیر مقررکیا تھا جو ان کے پرنسپل سیکرٹری بھی تھے۔ اس کے بعد من موہن سنگھ نے اس عہدے کو بانٹ کر سفارت کار جے این ڈکشٹ اور انٹلی جنس کے سابق سربراہ ایم کے نارائنن کے حوالے کیا۔ ڈکشٹ کے انتقال کے بعد یہ عہدہ کلی طور پر نارائنن کے پاس آگیا حالانکہ اس دور میں بھی نارائنن پر الزام تھا کہ وہ پولیس کی تنگ ذہنیت سے باہر نہیں آپا رہے ہیں۔ مگر من موہن سنگھ کے پاس چونکہ شیام سرن اور بعد میں شیو شنکر مینن جیسے زیرک سفارت کار سیکرٹری خارجہ کے طور پر موجود تھے اس لئے نارائنن اس حد تک حاوی نہیں ہو سکے جس طرح موجودہ حکومت میں دوول ہیں۔

حکومتی ذرائع کے مطابق جب ڈوبھال  وزیر اعظم مودی کے کمرے میں آتے ہیں، تو کتنی ہی اشد ضرورت کیوں نہ ہو، حکم ہے کہ کوئی بھی کمرے میں نہیں آسکتا اور نہ ہی فون کے ذریعے وزیر اعظم کا پرائیوٹ سکریٹری ان کو کسی بھی طرح کی یاد دہانی کراسکتا ہے۔ حکومت چلانے کے لئے تدبر، تحمل اور معاملہ فہم ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، مہم جوئی فوج اور انٹلی جنس میں تو درست ہے مگر اعلیٰ سیاسی عہدوں میں اس طرح کا مزاج خطرناک ہوتا ہے۔پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے بھی مودی حکومت نے ڈوبھال  ڈاکٹرین اپنا کر اپنے آپ کوایک ایسی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے جہاں اس کے پاس آپشن انتہائی محدود ہو گئے ہیں۔ ڈوبھال  ڈاکٹرین کی وجہ سے پیدا شدہ تعطل اور جمود کی یہ صورت حال انتہائی تشویشناک ہے اور وہ کشیدگی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔