فکر و نظر

راجستھان: وسندھرا حکومت سے عوام کی ناراضگی بی جے پی کو پڑی بھاری

بنا چہرہ اعلان کئے میدان میں اترنے اور ٹکٹ بٹوارے میں کھینچ تان کی وجہ سے کانگریس یکطرفہ جیت سے چوک گئی، لیکن پارٹی نے حکومت بنانے لائق اکثریت حاصل کر لی ہے۔

وسندھرا راجے۔  (فوٹو : پی ٹی آئی)

وسندھرا راجے۔  (فوٹو : پی ٹی آئی)

راجستھان میں اسمبلی کے پچھلے 5 انتخابات سے کانگریس اور بی جے پی کے درمیان اقتدار کی تبدیلی کا سلسلہ اس بار بھی نہیں ٹوٹا۔ مشن 180+ کا ہدف لےکر میدان میں اتری بی جے پی کو ہار کا منھ دیکھنا پڑا۔  کانگریس کو 100 اور بی جے پی کو 73 سیٹوں پر جیت حاصل ہوئی ہے جبکہ 26 سیٹوں پر دیگر جماعتوں کے امیدوار اور آزاد امیدواروں نے جیت حاصل کی۔حالانکہ بی جے پی کی اس بار ویسی حالت نہیں ہوئی، جیسی 2013 کے اسمبلی کے انتخاب میں کانگریس کی ہوئی تھی۔  غور طلب ہے کہ پچھلے انتخاب میں کانگریس کو محض 21 سیٹوں پر اطمینان کرنا پڑا تھاجبکہ بی جے پی کو 163 سیٹوں پر جیت حاصل ہوئی تھی۔

وسندھرا حکومت کے خلاف Anti-incumbency کو دیکھتے ہوئے اس بار بی جے پی کا بھی یہی حشر ہونے کے قیاس لگائے جا رہے تھے، لیکن پارٹی باعزت سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔بی جے پی کے اس مظاہرے کی وجہ پارٹی صدر امت شاہ کی حکمت عملی اور وزیر اعظم نریندر مودی سمیت اسٹار پرچارکوں کی زوردار تشہیر کو مانا جا رہا ہے۔  خود وسندھرا خیمے کے رہنما یہ مانتے ہیں کہ اگر مودی-شاہ نے تشہیر کی کمان نہیں سنبھالی ہوتی تو بی جے پی کی حالت خراب ہوجاتی۔

بی جے پی کو یہ اندازہ تھا کہ صرف جارحانہ انتخابی تشہیر کے بل بوتے وسندھرا حکومت کے خلاف Anti-incumbency کو نہیں کاٹا جا سکتا۔  پارٹی کے حکمت عملی بنانے والوں نے اس کی کاٹ کے طور پر پولرائزیشن کرنے کی کوشش کی۔بی جے پی کے پالیسی میکرز  نے اس کے لئے پوری طاقت جھونکی۔  مسلم اکثریت سیٹوں پر تشہیر کے لئے اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو تشہیر میں اتارا گیا۔

بی جے پی کے پولرائزیشن کی یہ کوشش کئی سیٹوں پر تو کامیاب رہی، لیکن پوری ریاست کا انتخابی ماحول مذہبی رنگ میں نہیں رنگا۔  جن سیٹوں پر پولرائزیشن ہوا بھی، وہاں مقامی حالات کی وجہ سے ایسا ہوا۔خود بی جے پی کے رہنما یہ مانتے ہیں کہ کئی سیٹوں پر وہاں کے فارمولے کی وجہ سے پولرائزیشن ہر انتخاب میں ہوتا ہے۔

پولرائزیشن کے لحاظ سے ہاٹ سیٹ مانی جا رہی جیسلمیر ضلع کی پوکھرن سیٹ پر بی جے پی کو ہار کا منھ دیکھنا پڑا۔  پارٹی نے یہاں سے باڑمیر کے ناتھ کمیونٹی کے تاراترا مٹھ کے مکھیا پرتاپ پوری کو میدان میں اتارا جبکہ کانگریس نے سندھی مسلم صوفی غازی فقیر کے بیٹے صالح محمد کو امیدوار بنایا۔پرتاپ پوری نے یہاں کھلےعام ہندو کارڈ کھیلا۔  یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی ان کے یہاں جلسہ کیا، لیکن انتخاب نہیں جیت پائے۔

بی جے پی کو یہ پہلے سے پتہ تھا کہ ریاست میں وسندھرا حکومت کے خلاف ماحول ہے، لیکن وہ اس کی کاٹ نہیں ڈھونڈ پائے۔  حکومت سے ناراضگی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف 7وزیر انتخاب جیتنے میں کامیاب رہے ہیں۔وزیر داخلہ گلاب چند کٹاریہ، پنچایتی راج وزیر راجیندر راٹھوڑ، وزیر کالی چرن صراف، وزیر تعلیم کرن ماہیشوری، وزیر تعلیم واسودیو دیونانی، وزیر انیتا بھدیل اور وزیر پشپیندر سنگھ راناوت اپنی سیٹیں بچانے میں کامیاب رہے۔

وہیں، وزیر یونس خان، وزیر ڈاکٹر رام پرتاپ، وزیر گجیندر سنگھ کھینوسر، وزیر اجئے سنگھ کلک، وزیر راجپال سنگھ، وزیر ارون چترویدی، وزیر شری چندر کرپلانی، وزیر پربھو لال سینی، وزیر کرشنیندر کور دیپا، وزیر امرارام، وزیر بابو لال ورما اور وزیر سریندر پال سنگھ ٹی ٹی انتخاب ہار گئے ہیں۔بی جے پی کی طرف سے انتخاب ہارنے والوں میں ایک اور بڑا نام اشوک پرنامی کا ہے۔  وہ لمبے وقت تک راجستھان میں پارٹی کے صدر رہے۔  لوک سبھا کی دو اور اسمبلی کی ایک سیٹ کے لئے ہوئے ضمنی انتخاب میں پارٹی کی ہار‌کے بعد بی جے پی قیادت نے ان سے استعفیٰ لے لیا تھا۔

مودی-شاہ ان کی جگہ وزیر گجیندر سنگھ شیکھاوت کو کمان سونپنا چاہتے تھے، لیکن وسندھرا اس کے لئے تیار نہیں ہوئیں۔  آخرکار پارٹی نے مدن لال سینی کو صدر بنایا۔اس انتخاب میں اقتدار کی تبدیلی کا سلسلہ تو جاری رہا، لیکن کئی اور متھ ٹوٹ گئے۔  مثلاً پچھلے پانچ انتخابات سے اقتدار کے تخت تک وہی پارٹی پہنچی جس نے میواڑ-واگڑ میں جیت حاصل کی۔2013 کے انتخاب میں بی جے پی نے یہاں کی 28 سیٹوں میں سے 25 سیٹوں پر فتح حاصل کی تھی۔  بی جے پی نے اس بار بھی بڑھت بنائی ہے، لیکن اس کی اقتدار میں واپسی نہیں ہو پائی۔


یہ بھی پڑھیں: کیوں پوری طاقت جھونکنے کے باوجود راجستھان میں بی جے پی پولرائزیشن کرنے میں ناکام رہی


بی جے پی نے پارٹی کا گڑھ مانے جانے والے ہاڑوتی میں بھی نِسبتاً اچھا مظاہرہ کیا ہے۔  بی جے پی نے یہاں کی 17 سیٹوں میں سے 10 سیٹوں پر فتح حاصل کی ہے۔  حالانکہ 2013 میں یہاں سے پارٹی کو 16 سیٹوں پر جیت ملی تھی۔  بی جے پی کو سب سے زیادہ نقصان مشرقی راجستھان، شیکھاواٹی اور میواڑ میں جھیلنا پڑا ہے۔

بھرت پور، کرولی اور سوائی مادھوپور ضلع میں بی جے پی کو ایک بھی سیٹ پر جیت نصیب نہیں ہوئی۔  بی جے پی میں 10 سال بعد ڈاکٹر کروڑی لال مینا کی گھر واپسی کے بعد یہ مانا جا رہا تھا کہ مشرقی راجستھان میں پارٹی کی کشتی پار لگائیں‌گے، لیکن ان کی بیوی گولما دیوی سپوٹرا اور بھتیجے راجیندر مینا مہوا سے انتخاب ہار گئے۔  مینا اکثریت والی کرولی، سوائی مادھوپور اور دوسا ضلعوں میں بی جے پی کا پتہ صاف ہو گیا۔جاٹ اکثریت شیکھاوٹی میں بھی بی جے پی کی حالت پتلی رہی۔  کانگریس نے یہاں سے یکطرفہ جیت حاصل کی۔ سیکر، جھنجھنوں اور چور ضلع‎ کی کچھ سیٹوں پر ہی بی جے پی کو بہ مشکل جیت حاصل ہوئی۔

بی جے پی کا گڑھ مانے جانے والے جئے پور ضلع میں پارٹی کا مظاہرہ امیدوں کے مطابق نہیں رہا۔  19 سیٹوں میں سے محض 6 سیٹوں پر پارٹی کو جیت نصیب ہوئی۔  میواڑ سے بھی بی جے پی کو جھٹکا لگا ہے۔  پارٹی کو 29 سیٹوں میں سے محض 5 سیٹوں پر جیت حاصل ہوئی ہے۔کانگریس نے بی جے پی کو پٹخنی تو دے دی، لیکن وہ یکطرفہ جیت حاصل کرنے سے چوک گئی۔  سیاسی مبصرین اس کے پیچھے وزیراعلیٰ کا چہرہ اعلان نہیں کرنے اور آپسی کھینچ تان  کو ذمہ دار مان رہے ہیں۔

پارٹی نے الیکشن کا نقارہ بجنے سے پہلے ہی یہ طے کر لیا تھا کہ وہ اجتماعی قیادت میں میدان میں اترے‌گی۔  راہل گاندھی کی ہدایت پر پارٹی کے رہنما ایک ساتھ ضرور نظر آئے، لیکن وزیراعلیٰ عہدے کے دعوے دار کے درمیان خوب رسہ کشی ہوئی۔کانگریس کی ٹکٹ تقسیم میں اشوک گہلوت، سچن پائلٹ اور رامیشور ڈوڈی کے درمیان زبردست کھینچ تان دیکھنے کو ملی۔  یہ طے ہونے کے بعد کہ گہلوت اور پائلٹ انتخاب لڑیں‌گے، ان دونوں رہنماؤں اور ڈوڈی نے اپنے-اپنے چہیتوں کو ٹکٹ دلوانے کے لئے زور لگا دیا۔  اس زور-آزمائش سے کئی سیٹوں پر ایسے امیدواروں کا انتخاب ہو گیا۔

گہلوت، پائلٹ اور ڈوڈی کے درمیان رسہ کشی اگر بند کمرے میں ہوتی تو پھوٹ جگ ظاہر نہیں ہوتی، لیکن کئی سیٹوں پر ان سورماؤں کا سر-پھٹول عوامی ہو گیا۔کھینچ تان کا عالم یہ رہا کہ سینٹرل سلیکشن  کمیٹی کی بیٹھک میں راہل گاندھی اور سونیا گاندھی کے سامنے سچن پائلٹ اور رامیشور ڈوڈی میں تصادم ہو گیا تھا۔  دونوں کے درمیان جئے پور ضلع‎ کی پھلیرا سیٹ پر اپنی پسند کے رہنما کو ٹکٹ دینے کو لےکرتوتو-میں میں ہوئی۔

وزیراعلیٰ عہدے کے لئے دعوےداری جتا چکے حزبِ  مخالف جماعت کے رہنما رامیشور ڈوڈی نے نوکھا سیٹ سے خود کی سیٹ سے جیت متعین کرنے کے لئے پچھلے انتخاب میں ان کے سامنے آزاد انتخاب لڑ چکے کنہیّا لال جھنور کو کانگریس کی رکنیت دلوائی، بلکہ ان کو محض آدھے گھنٹے بعد بیکانیر مشرقی سیٹ سے پارٹی کا ٹکٹ بھی دلوا دیا۔  دوسری طرف پانچ بار ایم ایل اے رہے ڈاکٹر بی ڈی کلہ کو بیکانیر مغرب سے ٹکٹ نہیں ملا۔کلا کا ٹکٹ کٹنے سے ناراض ان کے حامیوں نے بیکانیر میں تیکھی مخالفت کی تو پارٹی نے ان کو امیدوار بنا دیا۔  وہیں، بیکانیر مشرقی سے کنہیّا لال جھنور کی جگہ یشپال گہلوت کو امیدوار بنا دیا۔

اس تبدیلی سےحزبِ مخالف کے  رہنما رامیشور ڈوڈی اکھڑ گئے۔  انہوں نے یہاں تک دھمکی دے دی کہ پارٹی نے کنہیّا لال جھنور کو ٹکٹ نہیں دیا تو وہ اسمبلی کا انتخاب نہیں لڑیں‌گے۔ڈوڈی کے اس ضد سے اعلیٰ کمان کے ہاتھ-پاؤں پھول گئے۔  پارٹی نے کنہیّا لال جھنور کو بیکانیر مشرقی سے امیدوار بنا دیا اور یشپال گہلوت کا ٹکٹ کاٹ  دیا۔  بار بار امیدوار بدلنے کو بی جے پی نے مدعا بنا لیا۔حالانکہ اتنی اٹھا پٹک کرنے کے باوجود رامیشور ڈوڈی انتخاب ہار گئے۔  کنہیّا لال جھنور بھی بیکانیر مشرقی سے انتخاب جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔  بیکانیر مغرب سے بی ڈی کلہ ضرور جیت گئے۔

آپسی کھینچ تان کی وجہ سے کانگریس کو 35 سیٹوں پر سیدھی بغاوت جھیلنی پڑی۔  اگر پارٹی ٹکٹ تقسیم سے پیدا ہوئی مخالفت کو روکنے میں کامیاب ہو جاتی تو پارٹی تقریباً دو درجن سیٹوں پر اور جیت درج کر سکتی تھی۔حالانکہ پارٹی کے آدھا درجن باغی آزاد انہ طور پرانتخاب جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ان میں بابو لال ناگر، مہادیو سنگھ کھنڈیلا،سئینم لوڈھا اور آلوک بینیوال بڑے نام ہیں۔کانگریس نے راجستھان میں فتح ضرور حاصل کی، لیکن پارٹی کے کئی بڑے رہنما انتخاب ہار گئے ہیں۔  ان میں حزبِ مخالف کے رہنما رامیشور ڈوڈی کے علاوہ ڈاکٹر گرجا ویاس، درّو میاں، ویریندر بینیوال، ڈاکٹر کان سنگھ یادو، ہرموہن شرما اور مانگیلال گراسیا بڑے نام ہیں۔

گرجا ویاس یو پی اے حکومت میں وزیر رہی ہیں جبکہ درّو میاں، ویریندر بینیوال، ہرموہن شرما اور مانگیلال گراسیا ریاستی حکومت میں وزیر رہے ہیں۔  وہیں، ڈاکٹر کرن سنگھ یادو الور سے رکن پارلیامان ہیں۔اس انتخاب میں ریاست میں تیسرے مورچے کے کھڑے ہونے کے امکانات پر بھی سکتہ لگا دیا ہے۔ آزاد ایم ایل اے ہنومان بینیوال نے انتخاب سے پہلے جئے پور میں بڑا جلسہ کر یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حمایت کے بغیر راجستھان کی اگلی حکومت نہیں بنے‌گی، لیکن ان کی راشٹریہ لوک تانترک‎ پارٹی محض تین سیٹوں پر انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوئی۔  انہوں نے کئی سیٹوں پر کانگریس اور بی جے پی کے لیے معاملے ضرور خراب کئے۔

وہیں، بی جے پی سے ناطہ  توڑ بھارت واہنی پارٹی کے بینر تلے کانگریس اور بی جے پی کو چیلنج دینے والے گھنشیام تیواڑی کا مظاہرہ بےحد پھیکا رہا۔ان کی پارٹی کو ایک سیٹ پر بھی جیت حاصل نہیں ہوئی۔  6 بار ایم ایل اے رہے تیواڑی سانگانیر سیٹ سے تیسرے نمبر پر رہے۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔  )