فکر و نظر

اسمبلی انتخابات 2018: اگر دیہی ووٹنگ کا یہی پیٹرن رہا تو 2019میں مودی کی واپسی مشکل  ہو گی

مودی نے شہری علاقوں سے کچھ وسائل ہٹاکر دیہی علاقوں کی طرف موڑنے کا داؤ چلا، لیکن کیا یہ کامیاب رہا ہے؟

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

اس بات کے کافی ثبوت ہیں کہ دیہی رائےدہندگان بھارتیہ جنتا پارٹی سے دوربھاگ رہے ہیں۔یہ نریندر مودی کے لئے ایک بری خبر ہے۔مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ اسمبلی انتخاب کے لئے کرائے گئے کچھ اگزٹ پول کے نتیجے بھی اس رجحان کو مضبوطی فراہم کرنےوالے تھے۔مثال کے طور پرانڈیا ٹوڈے-ایکسس اگزٹ پول نے ووٹ فیصد کے معاملے میں تین ریاستوں میں دیہی رائےدہندگان کے درمیان کانگریس کے اچھے خاصےاضافہ کو3فیصد سے 10فیصد تک دکھایا۔

گجرات اسمبلی انتخابات میں بھی یہ رجحان دیکھا گیا تھا، جس میں کانگریس نے دیہی رائےاکثریتی حلقوں کی 90 میں سے 56 سیٹوں پر جیت حاصل کی۔ ان حلقوں میں بی جے پی صرف 29 سیٹیں ہی جیت پائی تھی۔حالانکہ بی جے پی کسی طرح سے کافی کم فرق کے ساتھ گجرات کو جیتنے میں کامیاب رہی، کیونکہ وہاں شہری آبادی 50 فیصد سے زیادہ ہے، لیکن ہندی پٹی کی ریاستوں میں جہاں دیہی رائےدہندگان 75 فیصدی سے زیادہ ہیں، ایسا شاید ہی ہو۔


یہ بھی پڑھیں : کیا کانگریس کے’اچھے دن‘ آگئے ہیں؟


دیہی بحران؛جس کی ایک وجہ لگاتار قحط پڑنا تھا،اورطے شدہ  آمدنی نے جس کی شدت کو بڑھانے کا کام کیا-نے بی جے پی کی مقبولیت کو کم کر دیا ہے۔زرعی آمدنی میں اضافہ کے معاملے میں مودی حکومت کا ریکارڈ غالباً سب سے خراب رہا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے جس کو اس سال کی شروعات میں سابق چیف اکانومک ایڈوائزر اروند سبرامنین کے ذریعے دئے اقتصادی سروے میں سرکاری طور پر سامنے رکھا گیا تھا۔

بی جے پی کے لئے ایک اور منفی رجحان یہ ہے کہ حال کے چندسالوں میں دیہی علاقوں  میں ایک اچھاخاصا Reverse migrationہوا ہے یعنی بڑی تعداد میں لوگ واپس گاؤں  لوٹے ہیں۔نیشنل سیمپل سروے  کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2004سے 2005اور2011سے2012 تک 3.5 کروڑ سے زیادہ لوگ غیرزراعتی روزگار کے شعبے میں شامل ہوئے جس کی وجہ عام اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ غالباً تعمیری شعبے میں اضافہ کی رفتار تیز تھی۔

لیبر  سے متعلق معاملوں کے جانکار سنتوش مہروترا کے مطابق ہندوستان کی روزگار کی تاریخ میں شاید یہ پہلی بار تھا کہ 2004 کے بعدکے 8 سالوں میں زراعتی روزگار میں 3.5 کروڑ کی کمی آئی۔حالانکہ ایسا کہا جاتا ہے کہ 2012سے 2013سے لیبر مارکیٹ میں 15 سے 29 سال کی عمر والے 2 کروڑ سے زیادہ لوگ واپس زراعتی شعبے میں شامل ہو گئے۔یہ کوئی اچھا رجحان نہیں ہے کیونکہ ریورس مائگریشن کی ایک بڑی وجہ شہروں میں خاص طور پر تعمیری شعبے میں روزگار کی کمی کی وجہ سے پیدا بحران ہے۔

ہو سکتا ہے کہ نوٹ بندی نے حالات کو اور بدتر بنایا ہو۔چونکہ تنظیمی  طور پر زراعتی شعبہ کم آمدنی والا روزگار مہیا کراتا ہے، اس لئے لیبر مارکیٹ  میں بڑا اضافہ لازمی طور پر صحت مند اشارہ نہیں ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی نے تھوڑی بہت مقدار میں دیہی بحران کے حل کے طور پر اجول گیس اسکیم، کم لاگت والی دیہی رہائش گاہ، زراعتی بیمہ، کرنسی بینک قرض جیسے سودمند اسکیموں کی رفتار بڑھانے اور کسانوں کے لئے کم از کم امدادی قیمت کو بڑھانے کا کام کیا ہے۔

لیکن ان میں سے کئی فلاحی  اسکیموں  کی طرف سنجیدگی سے دھیان 2017 کے درمیان کے بعد سے ہی دیا گیا اور ان کی عمل آوری ابھی بھی کمزور ہے۔انتخابی مہم کے دوران مدھیہ پردیش اور راجستھان یاترا کے دوران کوئی اس بات کو محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا کہ ایسی فلاحی  اسکیموں کی عمل آوری کافی کمزور ہے۔


یہ بھی پڑھیں : مدھیہ پردیش میں بی جے پی اور آر ایس ایس کا قلعہ کیسے ڈھے گیا ؟


مدھیہ پردیش کے ایک سینئر کابینہ  وزیر نے کہا کہ اگر ایسے فلاحی  پروگرام اپنی عمل آوری کی وجہ لوگوں  تک یکساں طو رپرنہیں پہنچتے ہیں، تو وہ اس کا فائدہ نہ ملنے والی اکثریت میں زیادہ ناراضگی کو جنم دیتے ہیں۔راجستھان کے ایک رکن پارلیامان نے بھی ایسی ہی بات کہی۔انہوں نے کہا،فلاحی  اسکیموں کی بڑی آبادی تک نہ پہنچنے اور خراب عمل سے بہتر ہے کہ کوئی اسکیم بنائی ہی نہ جائے۔ ‘2019 کی انتخابی مہم میں اترتے وقت یہ مودی کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔

پچھلے ساڑھے چار سالوں میں وزیر اعظم کا سب سے بڑا داؤ اب تک بلاواسطہ اور براہ راست سبسیڈی کے ایک بڑے حصے پر قبضہ جمانے والے مڈل کلاس  سے لےکر دیہی ہندوستان کو فلاحی  فنڈ اور سبسیڈی منتقل کرنا رہا ہے۔بچے ہوئے 15 فیصدی گاؤں میں بجلی پہنچانے کی کوشش یا اُجول اسکیم اسی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔

بی جے پی کے دل میں دیہی رائےدہندگان کی کانگریس کی طرف تاریخی جھکاؤ کو لےکر ایک مسلسل شک اور عدم تحفظ کا جذبہ رہا ہے۔آخر مڈل کلاس ووٹر ہمیشہ سے بی جے پی کے وفا دار رہے ہیں۔اس لئے مودی کا سیاسی اقتصادی داؤ شہری علاقے سے کچھ وسائل ہٹاکر دیہی علاقوں کی طرف موڑنا رہا ہے۔لیکن زمینی حقائق  سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کوشش آدھےادھورے دل سے کی گئی ہے۔

اور اگر پچھلے چار سالوں میں بی جے پی قیادت کی بیان بازیوں کے حساب سے دیکھیں، تو اس میں پیسہ بھی ضرورت سے کم لگایا گیا ہے۔ایسے میں اگر مدھیہ پردیش کے ایک کابینہ  وزیر یہ صاف گوئی کے ساتھ منظور کرتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کی مقبولیت کے باوجود بی جے پی ریاست کے دیہی علاقوں میں کمزور ہے، تو اس میں کچھ حیرت انگیز نہیں ہے۔

اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مرکز کے دیرینہ فلاحی پروگراموں کی خراب عمل آوری نے اپنے لئے ہی اقتدار مخالف جذبہ پیدا کرنے کا کام کیا ہے۔2019 میں دیہی رائےدہندگان مودی کے لئے چیلنج ہوں‌گے۔جس طرح کے اشارے مل رہے ہیں، ان سے ایسا لگتا ہے کہ یہ عوامل ان کی  مقبولیت پر بھی گہن لگا سکتا ہے۔