خبریں

آر ٹی آئی ترمیم کی مخالفت میں اترے کارکن، سابق انفارمیشن کمشنر نے لکھا صدر جمہوریہ کو خط

سابق سینٹرل انفارمیشن  کمشنر شری دھر آچاریہ لو نے صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کو خط لکھ‌کر انفارمیشن  کمشنر کی تقرری اورآر ٹی آئی قانون میں ترمیم نہیں کرنے کی مانگ کی ہے۔

دہلی میں آر ٹی آئی ترمیم کے خلاف  مظاہرہ کرتے لوگ۔  (فوٹو : دی وائر)

دہلی میں آر ٹی آئی ترمیم کے خلاف  مظاہرہ کرتے لوگ۔  (فوٹو : دی وائر)

نئی دہلی: سابق سینٹرل انفارمیشن  کمشنر  شری دھر  آچاریہ لو  نے گزشتہ  سوموار کو صدرجمہوریہ رامناتھ کووند کو خط   لکھ‌کر سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں کمشنر کی تقرری اورآر ٹی آئی قانون میں ترمیم نہیں کرنے کی مانگ کی ہے۔ آچاریہ لو  نے صدر سے یہ یقینی بنا نے کے لئے کہا ہے کہ مرکز کی مودی حکومت کے ذریعے مجوزہ  انفارمیشن کمشنر  کی ‘مدت کار، درجہ اورتنخواہ ‘سے متعلق ترمیم نہ کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ انفارمیشن  کمشنر  کی آزادی اور خودمختاری ویسی ہونی چاہیے جیسا کہ آر ٹی آئی  قانون کے تحت ان کو دیا گیا  ہے۔

واضح ہو کہ مودی حکومت آر ٹی آئی ترمیم بل لےکر آئی ہے جس میں مرکزی  انفارمیشن کمشنر  اور ریاستی انفارمیشن کمشنر  کی تنخواہ اور ان کی مدت کار کو مرکزی حکومت کے ذریعے طے کرنے کا اہتمام رکھا گیا ہے۔آر ٹی آئی قانون کے مطابق ایک انفارمیشن کمشنر  کی مدت کارپانچ سال یا 65 سال کی عمر، جو بھی پہلے پورا ہو، کا ہوتا ہے۔ابھی تک چیف انفارمیشن کمشنر  اور  انفارمیشن کمشنر  کی تنخواہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنر کی تنخواہ کے برابر ملتی تھی۔  وہیں ریاستی چیف انفارمیشن کمشنر  اور ریاستی  انفارمیشن کمشنر  کی تنخواہ الیکشن کمشنر اور ریاستی حکومت کے چیف سکریٹری کی تنخواہ کے برابر ملتی تھی۔

آر ٹی آئی ایکٹ کے آرٹیکل 13 اور 15 میں سینٹرل انفارمیشن کمشنر اور ریاستی  انفارمیشن کمشنر  کی تنخواہ، بھتہ اور دیگر سہولیات طے کرنے کا انتظام دیا گیا ہے۔  مرکز کی مودی حکومت اسی میں ترمیم کرنے کے لئے بل لےکر آئی ہے۔آر ٹی آئی کے شعبے میں کام کرنے والے لوگ اور تنظیم اس ترمیم کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔  اس کو لےکر عام شہریوں  اور سابق کمشنر نے سخت اعتراض جتایا ہے۔  گزشتہ بدھ کو دہلی میں مرکز کے ذریعے مجوزہ آر ٹی آئی ترمیم کے خلاف   مظاہرہ ہوا تھا جہاں پر 12 ریاستوں سے لوگ آئے تھے۔

 آچاریہ لو  نے صدرکووند کو لکھے اپنے خط میں گزارش  کی ہے کہ کمشنر کی مدت کار، پوزیشن اور تنخواہ ویسی  نہ ہو جیسا مرکزی حکومت کے ذریعے مجوزہ ہے۔ آچاریہ لو  نے کہا،’حکومت یہ متعین کرے کہ وہ سینٹرل انفارمیشن کمیشن کے کام کاج میں مداخلت نہیں کرے‌گی اور        چیف انفارمیشن کمشنر  دفتر یا کمشنر کو پی ایم او یا وزارت ڈی او پی ٹی جیسے اپنے کسی دفتر سے براہ راست یا بلاواسطہ دباؤ سے آزاد رکھے‌گی۔  ‘انہوں نے صدر سے یہ بھی یقینی بنانے کی گزارش  کی کہ نئےچیف انفارمیشن کمشنر  ایڈمنسٹریشن (آئی اے ایس افسر یا بابو)سے نہ ہوں۔

انہوں نے آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 12 (5) کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آر ٹی آئی قانون معزز شخصیتوں کے انتخاب کی بات کرتا ہے جس میں قانون، سائنس اور ٹکنالوجی، سماجی خدمت، ایڈمنسٹریشن، صحافت یا انتظامیہ کے شعبے سے لوگوں کی تقرری بطور  انفارمیشن کمشنر  کی جائے۔انہوں نے کہا کہ اگر حکومت پھر سے سابق نوکرشاہوں کا انتخاب کرتی ہے تو یہ آر ٹی آر آئی قانون کی دفعہ 12 (5)کے جذبہ کے خلاف ہوگا۔سابق انفارمیشن کمشنر  نے کہا کہ انتخاب کمیٹی کو یہ متعین کرنا چاہیے کہ تقرری پانے  والے نئے کمشنر کو آر ٹی آئی قانون میں مدت کار،پوزیشن اور تنخواہ سے متعلق مکمل آزادی ہو۔

لاءکے سابق پروفیسر شری دھرآچاریہ لوگزشتہ21 نومبر کو سینٹرل انفارمیشن کمشنر  کے عہدے سے سبکدوش ہو گئے۔  ان کے کچھ وقت بعد چیف انفارمیشن کمشنر  آر کے ماتھر اور  انفارمیشن کمشنر یشووردھن آزاد اور امیتاو بھٹاچاریہ بھی سبکدوش ہو گئے۔واضح ہو کہ اس وقت سینٹرل انفارمیشن کمیشن تقریباً قیادت کے بغیرہے۔یہاں پر کل 11 عہدے منظور شدہ ہیں لیکن اس وقت کمیشن میں صرف تین ہی کمشنر کام کر رہے ہیں۔ اس طرح سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں کل 8عہدے خالی ہیں۔وہیں ریاستی سطح پر بھی انفارمیشن کمشنر  کی تقرری نہیں ہو رہی ہے۔

ملک کے مختلف انفارمیشن کمیشن کی صورت حال

آر ٹی آئی کے تحت انفارمیشن کمیشن اطلاع پانے سے متعلق معاملوں کے لئے سب سے بڑا اورآخری ادارہ ہے، حالانکہ انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں چیلنج دیا جا سکتا ہے۔سب سے پہلے امید وار سرکاری محکمے کے پبلک انفارمیشن افسر کے پاس درخواست دیتا ہے۔اگر 30 دنوں میں وہاں سے جواب نہیں ملتا ہے تو امید وار فرسٹ اپلی کیشن  افسر کے  پاس اپنی درخواست بھیجتا ہے۔

ویڈیو:’آر ٹی آئی ایکٹ میں ترمیم عوام کے حقوق اور انفارمیشن کمیشن کی آزادی پر حملہ ہے‘

اگر یہاں سے بھی 45 دنوں کے اندر جواب نہیں ملتا ہے تو امید وار سینٹرل انفارمیشن کمیشن یا ریاستی انفارمیشن کمیشن کی پناہ لیتا ہے۔لیکن ملک بھر‌کے انفارمیشن کمیشن کے حالات بےحد خراب ہیں۔عالم یہ ہے کہ اگر آج کے دن انفارمیشن کمیشن میں اپیل ڈالی جاتی ہے تو کئی سالوں بعد سماعت کا نمبر آتا ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کمیشن میں کئی سارے عہدے خالی پڑے ہیں۔

آندھر پردیش کے ریاستی انفارمیشن کمیشن میں ایک بھی انفارمیشن کمشنر  نہیں ہے۔  یہ ادارہ اس وقت پوری طرح سے غیرفعال ہے۔

مہاراشٹر ریاستی انفارمیشن کمیشن میں اس وقت 40000 سے زیادہ اپیل اور شکایتں زیر التوا ہیں لیکن یہاں پر ابھی بھی4عہدے خالی پڑے ہیں۔

کیرل ریاستی انفارمیشن کمیشن میں صرف ایک انفارمیشن کمشنر  ہے۔یہاں پر 14000 سے زیادہ اپیل اور شکایتں زیر التوا ہیں۔

کرناٹک ریاستی انفارمیشن کمیشن میں انفارمیشن کمشنر  کے 6 عہدے خالی پڑے ہیں جبکہ یہاں پر 33000 اپیل اور شکایتں زیر التوا ہیں۔

اڑیسہانفارمیشن کمیشن صرف 3انفارمیشن کمشنر  کے بھروسے چل رہا ہے جبکہ یہاں پر 10000 سے زیادہ اپیل/شکایتں زیر التوا ہیں۔ اسی طرح تلنگانہ کے انفارمیشن کمیشن میں صرف 2انفارمیشن کمشنر  ہیں اور یہاں پر 15000سے زیادہ اپیل اور شکایتں زیر التوا ہیں۔

مغربی بنگال کی حالت بہت زیادہ خوفناک ہے۔  یہاں حالت یہ ہے کہ اگر آج وہاں پر کوئی اپیل فائل کی جاتی ہے تو اس کی سماعت 10 سال بعد ہو پائے‌گی۔  یہاں پر صرف 2انفارمیشن کمشنر  ہیں۔

وہیں گجرات، مہاراشٹر اور ناگالینڈ جیسی جگہوں پرچیف انفارمیشن کمشنر  ہی نہیں ہیں۔  یہاں پر  انفارمیشن کمشنر         چیف انفارمیشن کمشنر  کے بغیر کام کر رہے ہیں۔

غور طلب ہے کہ مودی حکومت پر الزام ہے کہ وہ ترمیم کے ذریعے آر ٹی آئی قانون کو کمزور کر رہی ہے اور  انفارمیشن کمشنر  پر دباؤ ڈالنا چاہتی ہے تاکہ وہ ایسے فیصلے نہ دے سکیں جو حکومت کے خلاف ہوں۔آر ٹی آئی کو لےکر کام کرنے والےسترک ناگرک سنگٹھن اور  نیشنل کیمپین فار پیپلس رائٹ ٹو انفارمیشن ( این سی پی آر آئی)سے  تعلق رکھنے والی انجلی بھاردواج نے کہا، ‘آر ٹی آئی میں ترمیم کے بعد مرکزی حکومت کو یہ حق مل جائے‌گا کہ وہ  انفارمیشن کمشنر  کی تنخواہ طےکریں۔اس کی وجہ سے انفارمیشن کمیشن آزادانہ طورپر کام نہیں کر پائیں‌گے اور ان پر بہت برا اثر پڑے‌گا۔  اس ترمیم کے ذریعے حکومت انفارمیشن کمیشن کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ‘