فکر و نظر

مولانا اسرارالحق قاسمی: کسان کا بیٹا جو انسانی خدمت کے لیے جانا جائےگا…

کشن گنج میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شاخ کے لئے مولانا نے جو جد جہد کی اور علاقہ کے لوگوں کوجس طرح اس تحریک سے وابستہ کیا وہ سیمانچل کی  تاریخ کا زریں باب ہے جس کو بھلایا نہیں جا سکتا ہے۔

فوٹو: سوشل میڈیا

فوٹو: سوشل میڈیا

بزرگ رہنما اور مشہور عا لم دین مولانا محمداسرارا لحق قاسمی 7دسمبر کو کشن گنج میں انتقال کر گئے۔کم و بیش 2 لاکھ لوگوں نے جنازے میں شرکت کی۔ملک کے معروف ملی رہنماؤں کے علاوہ  بہار، بنگال، جھارکھنڈ ، دہلی، گجرات سمیت ملک بھرسے قد آور سیاسی قائدین نے ان کو خراج عقیدت پیش کیا۔

مولانا اسرارالحق قاسمی کی پوری زندگی قوم و ملت اور ملک کے مسائل کے حل کی فکر میں گزری ۔قدیم ضلع پورنیہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں ٹپو میں منشی امید علی اور آمنہ خاتون کے گھر میں جب ان کی پیدائش ہوئی تو کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں رہی ہوگی کی ایک کسان کا بیٹا آگے چل کر نامور عالم دین اور سیاسی رہنما بنے گا۔

 1964میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد کچھ عرصہ تک وہ دینی مدارس میں درس و تدریس سے وابستہ رہے۔چند سال بعد وہ جمیعت علماء ہند سے وابستہ ہوئے جہاں 1974میں پہلے وہ سکریٹری اور پھر1981میں اس کے جنرل سکریٹری کے عہدہ پر فائز ہوئے، لیکن اتنی بڑی تنظیم کے اتنے اہم منصب پردودہائی تک فائزہونے کے با وجود ان کے اندر خود نمائی کی کوئی خو نظرنہیں آئی، بلکہ عجز و انکساری اور سادگی میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔جمعیت میں انہوں نے نہ صرف ملک کے حالات سے آگہی حاصل کی، بلکہ ملک کے گوشے گوشے کا دورہ کیا اور جب کہیں کو ئی واقعہ رو نما ہوا، کوئی سانحہ پیش آیا وہاں پہنچ کر بلا تفریق مذہب و مسلک سب کی اشک شوئی کی اور ان کے کام آئے۔جمعیت سے الگ ہونے  کے بعد ان کی مالی حالت ویسی ہی تھی جیسی اس سے پہلے۔

 انہوں نے قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب کے ساتھ مل کر آل انڈیا ملی کا ؤنسل کی بنیاد رکھی اور ملک بھر میں ملی اتحاد کی زبردست تحریک چلائی۔ صرف ادارہ بدلا تھا، ارادہ وہی مضبوط، بلکہ اب اس میں مزید پختگی آچکی تھی۔ ملی کاؤنسل کو انہوں نے نہ صرف ایک بڑی پہچان دلائی بلکہ اس کے ذریعہ مسلمانوں میں سیاسی شعور پیدا کرنے کا کام کیا۔ قاضی صاحب کی گونا گوں علمی مصروفیات کی وجہ سے مولانا اسرارالحق کو ان کے بہت سے کاموں کو انجام دینے کا موقع ملا۔ان سب کے با وجود ان کا جی اندر ہی اندر انہیں کچھ اور کرنے پر آمادہ کرتا رہا۔ اس طرح5مئی2000میں آل انڈیا تعلیمی و ملی فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں آیا۔

اپنے ایک قریبی پرویز احمد اعظمی کے مکان کے ایک حصے میں فاؤنڈیشن نے اپنا کام شروع کیا ، چند سال بعد حاجی ابوالکلام اعظمی صاحب نے اپنا ایک فلیٹ ملی فاؤنڈیشن کو دفتر کے لئے دیا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے مولانا کو اپنے کاموں کو آگے بڑھانے میں کافی سہولت ہوئی۔ ملی فاؤنڈیشن نے ملک کی چار پسماندہ ریاستوں کے غریب علاقوں میں کئی مدارس اور مکاتب قائم کئے یا وہاں موجود اداروں کی سرپرستی کی ۔

 ملی گرلس اسکول / فوٹو : منظر امام

ملی گرلس اسکول / فوٹو : منظر امام

فاؤنڈیشن کا سب سے نمایاں کام کشن گنج ضلع کے ایک دیہی علاقہ میں ملی گرلس اسکول کا قیام ہے ،جہاں اس وقت تقریباً 400بچیاں زیر تعلیم ہیں۔ یہ سی بی ایس ای بورڈ سے ملحق ایک رہائشی اسکول ہے جو کئی ایکڑ زمین پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ غازی آباد ضلع کے لونی میں ایک معیاری مدرسہ ہے جو روز اول سے عمدہ تعلیم کے لئے جانا جاتا ہے۔ چند سال قبل مولانے اپنے گاؤں میں مدرسۃ الصفہ نامی حفظ قرآن کےلیے  ایک بہت ہی خوبصورت مدرسہ کی بنیا ڈالی جہاں کے طلبہ نے مختصر عرصہ میں ملک بھر میں اپنانام روشن کیا ہے۔

کشن گنج میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شاخ کے لئے مولانا نے جو جد جہد کی اور علاقہ کے لوگوں کوجس طرح اس تحریک سے وابستہ کیا وہ سیمانچل کی  تاریخ کا زریں باب ہے جس کو بھلایا نہیں جا سکتا ہے۔ اگست2017میں سیمانچل میں سیلاب نے زبردست تباہی مچائی جس میں سینکڑوں جانیں تباہ ہوئیں، گھر، جائیداد برباد ہوئے، بو ڑھے، بچے کھانے پینے کو محتاج ہو گئے تھے۔ اس موقع پر مولانا نے لوگوں کی اشک شوئی کا کام کیا اور جتنا ممکن ہو سکا ان کا تعاون کیا۔

عالم دین ہونے کے ناطے مولانا کے سر پر ایک بڑی ذمہ داری لوگوں کی دینی رہنمائی تھی۔ اس فریضہ کوانہوں نے اپنی آخری سانس تک ادا کیا۔ وہ ایک درد منددل رکھنے والے عالم تھے۔ گاؤں گاؤں اصلاح معاشرہ کے جلسوں میں کثرت سے شرکت کرتے اور عوام و خواص ان کی باتوں کو غور سے سنتے تھے۔

 تقریر کے ساتھ ساتھ مولانا تحریری میدان کے بھی ایک باکمال شہ سوار تھے ۔انہوں نے زمانہ طالب علمی سے ہی لکھنا شروع کردیا تھا۔ وہ الجمیعۃ اور ملی اتحاد کے مدیر ہوئے۔ ان کے مضامین کو ملک کے سبھی بڑے اردو اخبارات و رسائل میں جگہ ملتی ۔ ان کے کچھ مضامین انگریزی اور گجراتی میں ترجمہ ہوکر بھی شائع ہوئے۔ا س سلسلے کا ایک بڑا کام ان کے فکرانگیز مقالات کے مجموعے ہیں جو کتابی شکل میں موجود ہیں۔مختلف موضوعات پر ایک درجن سے زائدکتابیں جن میں، ہندوستانی مسلمان: مسائل اور مزاحمتیں،دعا عبادت بھی! حل مشکلات بھی!، اسلام اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں، معاشرہ اور اسلام، خطبات لیسٹر، عورت اور مسلم معاشرہ، حقیقت نماز،انسانی اقدار،دین فطرت، سیرت کا پیغام،بچوں کی تعلیم و تربیت اور والدین کی ذمہ داریاں شامل ہیں۔

 ان کی کتاب معاشرہ اور اسلام کا انگریزی ترجمہ Islam and Societyہے جو خاکسارنے کیا۔ان کی آراء پر مشمل ایک تحریر کا انگریزی ترجمہIndian Muslims: Problems and Obstructionsکے نام سے شائع ہوا تھا۔ان کی کچھ کتابوں کا گجراتی ترجمہ بھی شائع ہوکر مقبول ہوا۔ملک و ملت کے اس قابل فخر فرزندنے اپنی زندگی ایک قیمتی حصہ خدمت انسانی، فسادات کے دوران ریلیف و راحت کاری اور ضرورت مندوں کی دلجوئی اور داد رسی میں صرف کیا۔ملک میں جہاں فسادات ہوتے آپ وہاں پہنچ کر مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے۔ اگست2016میں میوات علاقہ کے ایک گاؤں میں ایک بڑادل دہلانےوالا حاثہ پیش آیا جہاں مولانا تشریف لے گئے ، ان کے ساتھ میں بھی موجود تھا۔ انہوں نے مصیبت زدہ خاندان کی مدد کے لئے نہ صرف آواز بلند کی بلکہ ریاست کے وزیر اعلیٰ اور ملک کے وزیر داخلہ کو خط لکھ کران مظلوموں کے لئے جلد از جلد انصاف کا مطالبہ کیا۔

ان کی سادگی ، خلوص اور ملک و ملت کے تئیں دردمندی کا نتیجہ تھا جس کی وجہ سے آپ کو ہر جگہ عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا۔آپ پندرہویں اور سولہویں لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے۔ آپ اے ایم یو کورٹ کے ممبر، جے این یو کورٹ کے ممبر، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ممبرتھے اور دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے بھی رکن تھے۔ ان کے علاوہ آپ پارلیامنٹ کی کئی اہم کمیٹیوں جیسے وزارت تعلیم، وزارت اقلیت کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے ممبر تھے۔

مولانااسرارالحق قاسمی جن خوبیوں کے مالک تھے اور وہ جو کام کرنا چاہتے تھے اس کے لئے پیسوں کے ساتھ ساتھ ایسے افراد کی ضرورت تھی جن میں صلاحیت کے ساتھ اخلاص ہو۔ایسے افراد میسر نہ ہونے سے کچھ کام تو ہو جاتے ہیں مگر بہت کچھ کمی بھی رہ جاتی ہے۔مولانا نے، جنہیں مرحوم لکھتے انگلیاں کا نپ رہی ہیں، سینکڑوں یادیں چھوڑی ہیں اور جاتے جاتے اپنے ساتھ اخلاص، انسانیت،بھائی چارہ،تہذیب،دردمندی،حلم، شفقت، شرافت، محبت، متانت، مروت،پاکیزگی، کسر نفسی جیسی خصوصیات لے کر چلے گئے جوشاید اس انداز واسلوب کے ساتھ کسی ایک شخص کی ذات میں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں:

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

(مضمون نگار مولانا اسرارالحق قاسمی کے لوک سبھا کی دونوں مدت میں ان کے معاون اور مراسلات کی ڈرافٹنگ کے ذمہ دارتھے۔)