فکر و نظر

جھارکھنڈ : کیا بھوک سے ہونے والی موتیں 2019 انتخابات میں مدعا بنیں‌گی؟

جھارکھنڈ حکومت نے تو بھوک مری کے مدعے سے اپنا منھ ہی پھیر لیا ہے۔  الٹا، جو لوگ بھوک مری کی صورت حال کو اجاگر کر رہے ہیں، حکومت ان کی منشا پر لگاتار سوال کر رہی ہے۔

جھارکھنڈ کے وزیراعلیٰ رگھوبر داس۔  (فوٹو بشکریہ : فیس بک)

جھارکھنڈ کے وزیراعلیٰ رگھوبر داس۔  (فوٹو بشکریہ : فیس بک)

گزشتہ دنوں جھارکھنڈ میں بھوک سے ایک اور موت ہوئی-دمکا کے 45 سالہ کلیشور سورین کی۔ آدھار سے لنک نہ ہونے کی وجہ سے ان کی فیملی کا راشن کارڈ ردکر دیا گیا تھا۔ستمبر 2017 سے لےکر اب تک ریاست میں کم سے کم 17 لوگوں کی موت بھوک سے ہو چکی ہے۔مرنے والوں  میں 8 آدیواسی تھے، 4 دلت اور باقی 5پسماندہ ذات کے۔ان سبھی کی فیملی کے لئے خاطر خواہ کھانااور تغذیہ  کی کمی عام تھی۔  کئی فیملی میں تو مہینوں سے دال تک نہیں بنی تھی۔  مرنے کے دن گھر میں نہ اناج تھا اور نہ ہی پیسے۔

  فیملی ممبروں کے پاس ذریعہ معاش اور روزگار کے  ذرائع نہیں تھے۔یہ اموات جھارکھنڈ میں بڑے پیمانے پر بھوک مری کی حالت کا ثبوت ہیں ۔  یہ اموات تذکرے اور عام مباحثے میں اسی لئے آ پائیں کیونکہ مقامی اخباروں اور سماجی کارکنوں  نے ان کو اجاگر کیا۔  ایسی کئی اموات کا تو پتہ بھی نہیں چلتا ہوگا۔ریاست میں غذائی قلت کی خوفناک حالت بھی عدم تحفظ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔  لیکن ریاست کی تشکیل کے 18 سالوں کے بعد بھی بھوک مری کے معاملے پر سیاسی وابستگی کی کمی دکھتی ہے۔

اشیائےخوردنی کو لے کر عدم تحفظ کی حالت میں جی رہے لوگوں  کے لئے سماجی-اقتصادی حقوق  جیسے راشن، دوپہر کاکھانا، پینشن، منریگا میں کام وغیرہ لائف لائن کی طرح ہیں۔  بھوک سے موت کے شکار ہوئے زیادہ تر فیملی مختلف وجوہات سے Public Distribution System  سے ملنے والے اناج سے محروم تھے۔  کئی مہینوں سے منریگا میں کام بھی نہیں ملا تھا۔  کچھ سنگل خواتین اور بزرگ  پینشن سے بھی محروم تھے۔

ان اموات سے پبلک ویلفیئر اسکیم  کے محدود دائرے اور ان کی غیر ذمہ دارانہ حرکتیں اجاگر ہوتے ہیں۔  حالانکہ ریاست میں 2015 میں نیشنل فوڈ سیکورٹی قانون نافذ ہونے کے بعدپبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کا دائرہ کافی بڑھا، لیکن ابھی بھی کئی فیملی کا راشن کارڈ نہیں بنا ہے۔آدھار سے نہ جڑنے کی وجہ سے پچھلے 2 سالوں میں لاکھوں راشن کارڈ کو ‘فرضی’بول‌کر رد بھی کیا گیا ہے۔  پبلک ڈسٹری بیوشن میں آدھارمبنی بایومیٹرک تصدیق کی ضرورت کی وجہ سے ہر مہینے لاکھوں راشن کارڈوالے راشن نہیں لے پاتے۔  اس انتظام کی وجہ سے اب کارڈوالوں کااناج  کے لئے راشن کی دکان پر چکر کاٹنا عام بات ہو گئی ہیں۔

سوشل سیکورٹی پینشن اسکیم کے دائرے سے ریاست کے تقریباً آدھے ضعیف، بیوہ اور معذور باہر ہیں۔  ریاستی حکومت نے 2017 میں دعویٰ کیا تھا کہ آدھار کی مدد سے تین لاکھ فرضی پینشن پانے والوں کو فہرست سے ہٹایا گیا ہے۔  لیکن حکومت نے وسیع پیمانے پر ویسے پینشن پانے والوں کو بھی فہرست سے ہٹایا ہے جن کی پینشن اسکیم یا بینک کھاتا آدھار سے نہیں جڑا تھا۔حال میں، آزاد انہ تحقیق کر نے والوں انمول سومنچی اور رشبھ ملہوترا کے ذریعے کھونٹی میں فہرست سے ہٹائے گئے ایسے 103 ‘فرضی’ پینشن پانے والوں  کے سروے سے پتہ چلا ہے کہ ان میں سے ایک تہائی آدمی ایسے تھے جو گاؤں میں ہی رہتے ہیں، پر ان کو پینشن ملنی بند ہو گئی ہے۔

رسمی روزگار کے ذرائع کی کمی میں جھارکھنڈ کے مزدوروں کے لئے منریگا انتہائی اہم سہارا ہے۔  لیکن آج کل گاؤں میں منریگا کی کچی اسکیمیں نہ کے برابر چلتی ہیں۔دلچسپ بات ہے کہ منریگا کی ویب سائٹ میں انہی گاؤں میں کئی متحرک اسکیمیں دکھتی ہیں۔  زمینی اندازے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف منریگا میں لوگوں کو روزگار نہیں مل رہا ہے اور دوسری طرف رقم کی بڑے پیمانے پر فرضی نکاسی ہو رہی ہے۔بھوک مری پر وار کرنے کے لئے، کارروائی  سے متعلق مسائل کا حل کرنے کے ساتھساتھ، سماجی-اقتصادی حقوق کا دائرہ بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔  پبلک ڈسٹری بیوشن  میں فی الحال مل رہے اناج کی مقدار 5 کلو فی شخص سے بڑھانی ہوگی اور اس کو دیہی علاقے میں یونیورسل کرنا ہوگا۔

غذائی قلت کم کرنے کے لئے پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم  میں سستی شرحوں پر دال اور تیل کوشامل کرنا ہوگا۔  بچوں کی غذائیت  میں اصلاح کے لئے دوپہر کا کھانا اور آنگن باڑیوں میں ملنے والے انڈے کی تعداد اوراس کے  معیار بڑھانا ہوگا۔پڑوسی ریاست چھتیس گڑھ میں ہی پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم میں ماہوار فی شخص 7 کلو اناج اور ساتھ میں دال دی جاتی ہے۔  ریاست کے تمام ضعیف، سنگل خواتین اور معذور کو بنا کسی شرط پینشن اسکیموں سے جوڑنا ہوگا۔

ساتھ ہی، پینشن کی موجودہ رقم 600 روپے فی ماہ سے بڑھانی ہوگی۔  ان اسکیموں کا آدھار سے جڑاؤ ان کی پسماندگی  کی ایک بڑی وجہ بن گیا ہے۔  اس لئے، تمام فلاحی اسکیموں سے آدھار کی ضرورت ختم کرنی ہوگی۔جھارکھنڈ حکومت نے تو بھوک مری کے مدعے سے اپنا منھ ہی پھیر لیا ہے۔  الٹا، جو لوگ بھوک مری کی حالت کو اجاگر کر رہے ہیں، حکومت ان کی منشا پر لگاتار سوال کر رہی ہے۔

بھوک سے ہو رہی اموات پر 2017 سے سیاست تو جم کر ہوئی ہے، لیکن اشیائےخوردنی کو لے کرعدم تحفظ کی روک تھام پر زیادہ تر حزب مخالف جماعتوں کی حکمت عملی واضح نہیں ہے۔  چاہے آدھار-مبنی بایومیٹرک تصدیق سسٹم  کو ہٹانے کی مانگ ہو یا پینشن کو یونیورسل کرنے کی، حزب مخالف جماعتیں ان پر خاموش ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا 2019 کے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں بھوک مری، راشن، پینشن، منریگا اور آدھار کے مدعوں پر سیاسی دنگل دیکھنے کو ملے‌گا؟

(مضمون نگار سماجی کارکن ہیں۔)