فکر و نظر

کیا آر بی آئی کے نئے گورنر شکتی کانت داس اپنی وفاداری بدل پائیں‌گے؟

پہلے بھی مرکزی حکومت کے قریبی مانے جانے والے افسر آر بی آئی تک پہنچے ہیں، لیکن انہوں نے اپنی آواز کو آزاد رکھا۔  کیا شکتی کانت داس ایسا کر پائیں‌گے؟

آر بی آئی کے نئے گورنر شکتی کانت داس (فوٹو : پی ٹی آئی)

آر بی آئی کے نئے گورنر شکتی کانت داس (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مئی، 2017 میں جب وزارت خزانہ کے ذریعے ایک روپے کا نیا نوٹ جاری کیا گیا تھا، اس وقت نارتھ بلاک سے ایک مذاق چلتا تھا کہ سینئر نوکرشاہ شکتی کانت داس، ایک بار پہلے چوک جانے کے بعد آخرکار ریزرو بینک آف انڈیاکے اگلے گورنر بنیں‌گے؟ایسا اس لئے تھا کیونکہ ایک روپے کے نوٹ پر ان کے دستخط تھے-روایت کے مطابق نئے چھاپے گئے کسی نوٹ پر آر بی آئی کے مکھیا کا دستخط ہوتا ہے۔ایک روپے کے (نئے) نوٹ کی انوکھی تاریخ کی وجہ سے-

اس کو سینٹرل  بینک کے بجائے وزارت خزانہ کے ذریعے چھاپا جاتا ہے-ان سارے نوٹوں پر یا تو راجیو مہرسی کے دستخط ہیں، جو 2015 کی شروعات میں ان کی چھپائی کے وقت مالی سکریٹری تھے یا داس کے دستخط ہیں، جو 2017 کی شروعات میں جب ان نوٹوں کو آخرکار جاری کیا گیا تھا، اقتصادی معاملات کے سکریٹری تھے۔ایک سال بعد مودی کے ذریعے نومبر، 2016 میں نوٹ بندی کے اعلان کے بعد نوٹ بندی کا عوامی چہرہ بن گئے داس منٹ اسٹریٹ (آر بی آئی) میں پہنچ چکے ہیں۔  وزیر خزانہ ارون جیٹلی کے کافی قریبی مانے جانے والے اس 61 سالہ نوکرشاہ کی تقرری کا وقت حالانکہ خوشنما نہیں کہا جا سکتا ہے۔

مودی حکومت اور آر بی آئی کےکافی بگاڑ والے تین مہینے کی کشیدگی  کے بعد ارجت پٹیل نے آر بی آئی کے گورنر کے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔پٹیل کا یہ استعفیٰ اچانک آیا اور سب کو حیران کر گیا۔  پٹیل 40 سالوں میں اپنی مدت  کے ختم ہونے سے پہلے استعفیٰ دینے والے پہلے آر بی آئی گورنر بن گئے۔اب کمان شکتی کانت داس کے ہاتھوں میں ہوگی اور ان کو اس عہدے کو سنبھالنا ہوگا جس میں پچھلے 20 سالوں میں سست رفتار سے ہی صحیح لیکن تبدیلی ضرور آئی ہے۔جیسا کہ ایک مبصر نے کہا، ہندوستان کے سینٹرل  بینکروں کو ان کی کم گوئی اور رکاوٹوں کوخاموشی سے حل کرنے کی صلاحیت کے لئے جانا جاتا تھا۔  ان کو اب ان کی عوامی امیج اور عوامی طور پر لکشمن ریکھا کھینچنے کی وجہ سے زیادہ جانا جاتا ہے۔

یقینی طور پرداس کی تقرری ہمیں اس زمانے میں واپس لےکر جانے والی ہے، جب آئی اے ایس افسر سینٹرل  بینک کے گورنر ہوا کرتے تھے۔اور کسی غفلت میں مت رہیے۔  وزارت خزانہ میں ان کو جاننے والے کئی لوگوں کے مطابق داس نوکرشاہوں کے نوکرشاہ کی خالص شکل ہیں۔  مشکل حالات میں قابل قبول نتیجہ حاصل کرکے دینے میں وہ ماہر ہیں۔نوٹ بندی کے دوران-جب داس سرکاری پریس کانفرنسوں میں فیصلے کا بچاؤ کرتے ہوئے اور بےشمار تبدیلیوں اور غلط فہمیوں کو سمجھانے والے اہم چہرہ بن گئے-ان سے ارجت پٹیل کی خاموشی کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔

انہوں نے بنا وقت گنوائے جواب دیا،’اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ کون بول رہا ہے۔  میں حکومت کی طرف سے بول رہا ہوں۔  میں نجی اختیارات  میں آپ کو خطاب نہیں کر رہا ہوں۔  اس لئے یہ بات غیر متعلقہ ہے کہ میں بول رہا ہوں یا کوئی اور بول رہا ہے۔  ” ایسی باتیں مت کیجئے۔  آپ تک بات پہنچانے کے مقصد سے یہ بات اہم نہیں ہے کہ کون خطاب کرتا ہے۔  منشا یہ ہے کہ حکومت کو بات پہنچانی چاہیے اور ساری اطلاعات شیئر کرنی چاہیے۔  ‘

تمل ناڈو سے مرکز تک

بنیادی طور پر اڑیسہ کے رہنے والے داس سینٹ اسٹیفن  کالج سے تاریخ میں ایم اے ہیں۔  وہ 1980 میں تمل ناڈو کیڈر کے افسر کے طور پر یو پی ایس سی  میں شامل ہوئے تھے۔  جیسا کہ زیادہ تر نئے-نویلے آئی اے ایس افسر کرتے ہیں، داس کو تمل ناڈو کے دو ضلعوں ڈنڈیگل اور کانچی پورم کی ذمہ داری سونپی گئی تھی جہاں انہوں نے کلکٹر کے طور پر کام کیا۔

اپنے سفر میں انہوں نے ریاستی حکومت کے اندر کئی اہم ایڈمنسٹریٹو عہدوں پر کام کیا، جن میں چیف سکریٹری(صنعت)اسپیشل کمشنر (ریونیو)، سکریٹری (ریونیو)اور سکریٹری (کامرشیل ٹیکس) شامل ہے۔ریاست کے اسپیشل اکانومک زون پالیسی کی کامیاب عمل آوری اور نجی آئی ٹی کمپنیوں کو سرکاری زمین کا فوری مختص کرکے ٹکنالوجی بوم میں تمل ناڈو کو کرناٹک کے مساوی لے آنے کو عام طور پر ان کی کامیابیوں کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔

حالانکہ، تمل ناڈو میں رہتے ہوئے داس کے حصے میں صرف تمل کا علم ہی نہیں آیا۔  سکریٹری (صنعت)کے طور پر ان کی مدت  نے بی جے پی رہنما سبرامنیم سوامی کے ذریعے لگائے گئے کئی غیر مصدقہ  الزامات کو جنم دینے کا کام بھی کیا۔جولائی، 2016 میں پی گروزنام کی ایک ویب سائٹ نے یہ الزام لگایا کہ داس کی مدت کار کے دوران امریکی کمپنی سینمینا ایس سی آئی کارپوریشن کو سستی شرح میں 100 ایکڑ سرکاری زمین کے مختص میں گڑبڑی ہوئی تھی۔

ماضی میں کئی رہنماؤں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پی گروزڈائیں بازوں  چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ایس گرومورتی سے جڑا ہوا ہے۔  گرومورتی فی الحال آر بی آئی کے بورڈ میں ہیں اور وہ داس کے ساتھ بورڈ کی میٹنگ میں شرکت کریں‌گے۔حالانکہ،یہ الزامات غیر مصدقہ ہیں،لیکن سوامی کے حملوں کے بعد جیٹلی کی طرف سے نجی طور پر اور وزارت کے ٹوئٹر ہینڈل سے ان الزامات کی تردید بنا  وقت گنوائے کی گئی۔

مشکلوں کے درمیان راستہ تلاش کرنے کا فن

یہ صحیح ہے کہ داس موجودہ نظام سے اپنی قربت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، لیکن مرکزی حکومت سے وہ یو پی اے-2 کے وقت 2008 میں جڑے جب ان کو جوائنٹ سکریٹری(اخراجات) بنائے گئے تھے۔  اس کے بعد ان کو  Ministry of Chemicals and Fertilizers  میں منتقل کر دیا گیا۔2014 میں این ڈی اے-2 کی حکومت بننے کے بعد ان کو ریونیو سکریٹری بناکر واپس نارتھ بلاک لایا گیا۔  یہ مودی حکومت کے ذریعے وزارت خزانہ میں کئے گئے کچھ اہم شروعاتی تبدیلیوں میں سے ایک تھا۔

انہوں نے جلد ہی اپنے لئے ایک اہم مقام بنا لیا۔  وہ کچھ چنندہ نوکرشاہوں کے اس چھوٹے سے گروپ کا حصہ تھا جن کو نوٹ بندی کی جانکاری تھی اور جو اس کے اعلان کے بعدکے ہفتوں اور مہینوں میں ا س کی عمل آوری کے لئے ذمہ دار تھا۔موجودہ نظام کے ساتھ داس کی قربت اور ایک لائق  مشکل کشا کے طور پر حکومت کے اندر ان کی امیج کا مطلب ہے کہ جب بھی کسی اہم مقام کے لئے مودی حکومت کو کسی کی تلاش ہوتی ہے، تب ان کا نام اکثر سامنے آتا ہے۔

2016 میں جب آر بی آئی گورنر کے طور پر رگھو رام راجن کی مدت ختم ہوئی  اس وقت بھی اس عہدے کے لئے ان کے نام پر غور کیا گیا تھا۔ایک سال کے بعد جب پونجی  بازار کے ریگولیٹری سیبی کا ٹاپ پوسٹ خالی ہوا، اس وقت بھی داس اس عہدے کے دعوے دار تھے۔  حالانکہ مرکز نے آخرکار اجئے تیاگی کے نام کو منظوری دی۔ان کو جس طرح سے آر بی آئی کا گورنر بنایا گیا، اس پر دھیان دیا جانا چاہیے۔  پٹیل کے جانے کے بعد مالیات کو لے کر اس  پالیسی سازوں  کے اجلاس میں سب سے پہلے یہ خیال سامنے آیا کہ مودی حکومت فی الحال کوئی عبوری بحالی کر سکتی ہے تاکہ ایک سرچ پینل تھوڑا وقت لےکر ایک مناسب اور مستقل آدمی کی تلاش‌کر سکے۔

لیکن جیسا کہ زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے،فنانشیل سیکٹر ریگولیٹری اپوائنٹمنٹ سرچ کمیٹی کو آناً فاناً میں تین ممکنہ امیدواروں شکتی کانت داس، اقتصادی معاملوں کے سکریٹری سبھاش گرگ اور سیبی چیف اجئے تیاگی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے لئے 10 دسمبر کی شام اور 11 دسمبر کی صبح کا بس کچھ گھنٹے کا ہی وقت ملا۔

یہ غیر واضح ہے کہ یہ باصلاحیت باہری امیدواروں پر یقین کر سکنے اور ان کے ساتھ کام کرنے میں مودی حکومت کی ناکامی کے بارے میں زیادہ بتاتا ہے یا پھر یہ بتاتا ہے کہ مودی حکومت وفا دار محنتی نوکرشاہ کے زیادہ عملی اختیارات کو اہمیت دیتی ہے۔2017 میں سبکدوشی کے باوجود جیٹلی، داس کو چھٹی دینے کے خلاف رہے ہیں۔  بزنس اسٹینڈرڈ کی ایک حالیہ رپورٹ میں جی-20 میں ان کے کام کے بارے میں اور کسی ہدف کو بخیریت حاصل کرنے کی ان کی صلاحیت کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

وجے مالیا یا نیرو مودی جیسے مستقبل کے مجرموں پر نکیل کسنے میں مدد کے لئے مودی جی-20 کے بلیٹن میں بھگوڑے اقتصادی مجرموں پر ایک پیراگراف جڑوانا چاہتے تھے، اور اس میں کافی محنت لگی۔اس رپورٹ میں ان کے حوالے سے کہا گیا ہے، ‘اس کو (اس آرٹیکل کو) کو شامل کرانے کے لئے ہماری طرف سے کافی محنت کی ضرورت تھی۔  اس مسئلے پر یورپی یونین کی رائے  الگ تھی اور ہمیں یہ سمجھانا پڑا کہ بھلے یہ ایک معمولی-سی چیز دکھائی دے، لیکن یہ عالمی مالی ڈھانچے کی بنیاد کو کھوکھلا کر سکتا ہے۔  ‘

کہاں ہے ان کی وفاداری؟

آر بی آئی کے نئے گورنر نے ماضی میں مودی حکومت کے ذریعے شروع کئے گئے اصلاحات میں اور ترقی پر پڑنے والے ا س کے اثرات میں اپنی وفاداری جتانے سے گریز نہیں کیا ہے۔ان کا بیان ہے، ‘کافی کم وقت کے اندر معیشت میں کی گئی وسیع تبدیلی کی وجہ سے ترقی میں آئی گراوٹ عارضی ہے۔  ‘ اس حکومت کے وطن پرست دل کے زیادہ قریب رہے دوسرے مدعوں پر بھی وہ اسی طرح سے بولڈ رہے ہیں۔

جب ہندوستانی ترنگے کی تصویر والے لیبل کے ساتھ کئی مصنوعات کو بیچنے کی وجہ سے امیجون تنازعہ میں گھر گئی تھی،اس وقت انہوں نے بلاواسطہ طور پر ٹوئٹ کے ایک سلسلے کے ذریعے آن لائن ای کامرس مہارتھی کووارننگ دی تھی۔اس وقت ان کا ٹوئٹ تھا، ‘ امیجون اپنی حد میں رہے اور ہندوستانی  علامتوں اور عظیم شخصیت کے ساتھ گندی حرکت کرنے سے باز آئے۔  اس معاملے میں بے حسی آپ کے لئے خطرناک ہوگی۔  ‘

لیکن اس کے آگے ان کی وفاداری کی بات اتنی اہم نہیں ہے، جتنی اہم ہے یہ حقیقت کہ آر بی آئی کے گورنر کے عہدہ کے ساتھ وہ کیا کر سکتے ہیں۔اقتصادی معاملات کے سیکرٹری کے طور پر، وہ مالی استحکام پر مصررہے اور یہاں تک کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جیٹلی کو اس راستے پر بنے رہنے کے لئے مجبور کیا، جبکہ ہو سکتا ہے کہ حکومت کی خواہش اس سے چھوٹ لینے کی رہی ہو۔

لیکن مرکز اور آر بی آئی کے درمیان کے موجودہ تنازعے میں وہ کس کے حق میں ہوں ‌گے یا ان کی وفاداری کس چیز کے متعلق ہے، یہ واضح نہیں ہے۔ماضی میں انہوں نے سینٹرل  بینک سے زیادہ ڈیویڈنڈ کی ترغیب  دی ہے، لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حکومت کے ذریعے آر بی آئی کی  ہنگامی فنڈ  پر ڈاکا ڈالنے کی حمایت کریں‌گے؟ماضی میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ بینک بیڈ لون  کا بہانہ بناکر ‘قرض دینا بند نہیں کر سکتے ہیں۔  ‘ لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پبلک سیکٹر کے کمزور قرض دہندہ پر قرض دینے کی شرطوں میں فوراً ڈھیل دے دیں‌گے؟

یہی ان کی مدت کار کی کامیابی یا ناکامی کو طے کرے‌گا۔  ماضی میں بھی مرکز کے قریبی مانے جانے والے آئی اے ایس اور نوکرشاہ منٹ اسٹریٹ پہنچے ہیں، لیکن انہوں نے اپنی وفاداری بدلنے کا فیصلہ کیا اور اپنی آواز کو آزاد رکھا۔  کیا شکتی کانت داس بھی ایسا کر پائیں‌گے؟