خبریں

کیرل:’ لو جہاد ‘کی وجہ سے سرخیوں میں آئی ہادیہ کے والد کے ایم اشوکن بی جے پی میں شامل

ہادیہ کے والد نے بی جے پی میں شامل ہونے کے بعدکہا،صرف بی جے پی ہی اکیلی ایسی سیاسی پارٹی ہے جو ہندوؤں کے بھروسےکی حفاظت کر رہی ہے۔

Hadiya-Love-Jihad-Case

نئی دہلی: گزشتہ دو سال سے کیرل میں مبینہ’ لو جہاد’کی وجہ سے سرخیوں میں آئی ہادیہ کے والد کے ایم اشوکن   گزشتہ ہفتے ایک آن لائن ممبرشپ کیمپین کے ذریعے بی جے پی میں شامل ہو گئے ہیں۔انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق؛ بی جے پی کی کیرل یونٹ کے جنرل سکریٹری بی گوپال کرشن نے اشوکن کوٹی وی پورم میں سبری مالا پروٹیسٹ  کی میٹنگ کے دوران پارٹی کا ممبرشپ کارڈ دیا۔وائکوم حلقہ کے صدر پی جی بیجو کمار کے مطابق؛ اسی دن 50 سے زیادہ دوسرے لوگ بھی بی جے پی میں شامل ہوئے ۔

 بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد کے ایم اشوکن نے سبری مالا مندر معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر پارٹی کے رخ کی حمایت کی۔ انھوں نے کہا،’ صرف بی جے پی ہی اکیلی ایسی سیاسی پارٹی ہے جو ہندوؤں کے بھروسےکی حفاظت کر رہی ہے۔ ‘انھوں نے مزید کہا کہ’ وہ پہلے کمیونسٹ تھے، لیکن اب لیفٹ ونگ پارٹی  ووٹ بینک کی گندی سیاست کرنے لگے ہیں۔ اسی لیے وہ 3 سال پہلے ہی بی جے پی میں شامل ہو گئے تھے۔ اتوار کو تو صرف پارٹی کی آفیشیل ممبر شپ لی ہے۔’

غور طلب ہے کہ کیرل میں ہادیہ سے جڑا معاملہ لو جہاد  کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ہادیہ ہندو تھی جس نے شیفین نامی لڑکے سے شادی کے بعد اسلام قبول کر لیا تھا اور اپنا نام بدل کر ہادیہ کر لیا تھا۔ اس کے والد کی عرضی پر کیرل ہائی کورٹ نے اس شادی کو رد کر دیا تھا۔ اس بنیاد پر کہ یہ شادی زبردستی کرائی گئی ہے ۔ لیکن بعد میں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو رد کر دیا تھا اور یہ بھی کہا کہ ایجنسی ہادیہ کے نکاح کی جانچ نہیں کر سکتی ۔ سپریم کورٹ نے یہ سوال بھی کیا تھا کہ کیا ہائی کورٹ بالغوں کی شادی کو رد کر سکتی ہے۔ واضح ہو کہ این آئی اے اسی طرح کے 11 معاملوں کی جانچ کر رہی تھی جن میں 89 کپل نے دوسرے مذہب کے لڑکے یا لڑکی سے شادی کی تھی۔

پھر  کیرل میں این آئی نے  لو جہاد کے معاملوں میں یہ کہتے ہوئے جانچ بند کر دی  تھی کہ ان معاملوں میں لو تو ہے لیکن جہاد نہیں ہے۔ این آئی اے کے ایک افسر نے کہا  تھا کہ ہندوستان کا آئین تمام شہریوں کو  کسی بھی مذہب کو اپنانے اور ماننے کے بنیادی حقوق دیتا ہے۔ لو جہاد کے معاملوں کی جانچ سے جڑے ایک افسر نے نام نہ چھاپنے کی شرط پر بتایا تھا  کہ این آئی اے کو کوئی پختہ ثبوت نہیں ملے ہیں۔ ان معاملوں میں یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ مسلم -ہندو لڑکے لڑکیوں کے بیچ لو میرج ہوئی ۔ یہ بھی صحیح ہے کہ مذہب تبدیل کیا گیا۔ لیکن یہ سب کسی مجرمانہ سازش کے تحت کیا گیا، اس کا ثبوت نہیں ملا ہے۔