فکر و نظر

رویش کا بلاگ: 5 ہزار کروڑ کے اشتہارات کے نیچے چھپا ہے 35 لاکھ لوگوں پر نوٹ بندی کی مار کا درد

میں گزشتہ دنوں دہلی اور ممبئی میں کئی لوگوں سے ملا ہوں جن کا نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے پہلے اچھاخاصہ کاروبار چل رہا تھا مگر اس کے بعد وہ برباد ہو گئے۔  کسی کا 60 لاکھ کا پیمنٹ پھنس گیا تو کسی کا آرڈر اتنا کم ہو گیا کہ وہ برباد ہو گیا۔  ان میں سے کئی لوگ اولا ٹیکسی چلاتے ملے جو نوٹ بندی کے پہلے 200سے300 لوگوں کو کام دیا کرتے تھے۔

jobs-reuters

علامتی تصویر / فوٹو : رائٹرز

وزیر اعظم کے ایک فیصلے سے 35 لاکھ لوگوں کی نوکریاں چلی جائیں، اس بات کو ڈھکنے کے لئے مودی حکومت اشتہارات پر اور کتنے ہزار کروڑ پھونکے‌گی۔ ساڑھے 4 سال میں 5000 کروڑ اشتہارات پر خرچ کرنے والی حکومت کی ایک پالیسی کی وجہ سے اتنے لوگوں  کا گھر اجڑ گیا۔  نوٹ بندی ہندوستان کی اقتصادی حاکمیت پر حملہ تھا۔  اس کے پیچھے کے فیصلوں اور فائدہ پانے والوں کی کہانی ابھی نہیں جانتے ہیں مگر ا س کے اثر کا ڈھول اب پھٹنے لگا ہے۔  الیکشن  کمشنر او پی راوت نے ریٹائر ہونے کے فوراً بعد کہہ دیا کہ بلیک منی میں کوئی کمی نہیں آئی۔

ریزرو بینک آف انڈیاکے سابق گورنر اور مودی حکومت کے سابق اکانومک ایڈوائزربھی کھل‌کر کہہ رہے ہیں کہ نوٹ بندی کی وجہ سے ہندوستان کی اقتصادی رفتار دھیمی ہوئی ہے۔  اس دھیمے پن کا کتنا اثر نوکری کر رہے اور نوکری میں آنے کی چاہ رکھنے والے کتنے نوجوانوں اور گھروں پر پڑا ہوگا، ہم اس کو ٹھیک ٹھیک نہیں جان سکے ہیں۔  نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے برباد گھروں کی ذاتی کہانیاں ہمارے سامنے نہیں ہیں۔

آل انڈیا مینوفیکچرز ایسوسی ایشن (AMIO)نے ٹریڈر، مائکرو، اسمال اور میڈیم سیکٹر میں ایک سروے کرایا ہے۔اس سروے میں اس سیکٹر کے 34000 انٹرپرائزز کو شامل کیا گیا ہے۔  کسی سروے کے لئے یہ چھوٹی موٹی تعداد نہیں ہے۔  اسی سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس سیکٹر میں 35 لاکھ نوکریاں چلی گئیں ہیں۔  ٹریڈر سگمنٹ میں نوکریوں میں 43 فیصدی، مائکرو سیکٹر میں 32 فیصدی، اسمال سیگمنٹ میں 35 فیصدی اور میڈیم سیکٹر میں 24 فیصدی نوکریاں چلی گئی ہیں۔

  2015سے16 تک اس سیکٹر میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا لیکن نوٹ بندی کے بعد گراوٹ آ گئی جو جی ایس ٹی کی وجہ سے اور تیز ہو گئی۔  AMIO نے حساب دیا ہے کہ 2015  سے پہلے ٹریڈرس سیکٹر میں 100 کمپنیاں منافع کما رہی تھیں تو اب ان کی تعداد 30 رہ گئی ہے۔تنظیم نے بیان دیا ہے کہ سب سے برا اثر خود روزگار کرنے والوں پر پڑا ہے۔ اس میں درزی، موچی، حجامت، پلمبر، الیکٹریشین کا کام کرنے والوں پر پڑا ہے۔یہ کتنا خوف ناک ہے۔دن بھر کی محنت کے بعد معمولی کمائی کرنے والوں پر نوٹ بندی نے اتنا سخت اثر ڈالا ہے۔  2015سے16 تک ان سیکٹر میں کافی تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔

لیکن نوٹ بندی کے بعد ہی اس میں گراوٹ آنے لگی جو جی ایس ٹی کی وجہ سے اور بھی تیز ہو گئی۔ اب حکومت سے پوچھا جانا چاہیے کہ کرنسی لون کو لےکر جو دعویٰ کر رہی ہے اس دعویٰ کی بنیاد کیا ہے۔  مئی 2017 میں امت شاہ نے دعویٰ کیا تھا کہ کرنسی لون کی وجہ سے 7.28 کروڑ لوگوں نے سیلف  روزگار حاصل کیا ہے۔  ستمبر 2017 میں SKOCH کی کسی رپورٹ کے حوالے سے پی ٹی آئی نے خبر دی تھی کہ کرنسی لون کی وجہ سے 5.5 کروڑ لوگوں کو سیلف روزگار ملا ہے۔  اس دعویٰ کی بنیاد کیا ہے۔  35 لاکھ لوگوں پر منحصر فیملی کی تعداد نکالیں تو ڈیڑھ دو کروڑ لوگ اس فیصلے سے سیدھے متاثر دکھتے ہیں۔  وہ لوگ بڑے سیٹھ نہیں ہیں۔  عام لوگ ہیں۔

میں گزشتہ دنوں دہلی اور ممبئی میں کئی لوگوں سے ملا ہوں جن کا نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے پہلے اچھاخاصہ کاروبار چل رہا تھا مگر اس کے بعد وہ برباد ہو گئے۔  کسی کا 60 لاکھ کا پیمنٹ پھنس گیا تو کسی کا آرڈر اتنا کم ہو گیا کہ وہ برباد ہو گیا۔  ان میں سے کئی لوگ اولا ٹیکسی چلاتے ملے جو نوٹ بندی کے پہلے 200سے300 لوگوں کو کام دیا کرتے تھے۔اس لئے میں کہتا ہوں کہ نوٹ بندی کی کہانی ابھی سامنے نہیں آئی ہے۔  اس کی تکلیف لئے نہ جانے کتنے لوگ اس جھوٹ کو جی رہے ہیں جو ان پر تھوپا گیا کہ یہ کوئی انقلابی قدم تھا۔  انتخابی ہار-جیت‌کے قصوں میں اس درد کو ہمیشہ پیچھے کر دیا جاتا ہے مگر جس پر اس کی مار پڑی ہے وہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے دعووں کے اشتہارات کو دیکھ‌کر اکیلے میں سسکتا ہوگا۔

(بہ شکریہ رویش کمار فیس بک پیج)