فکر و نظر

رویش کا بلاگ: پردھان منتری  جی، موبائل کمپنیاں 120 ہو گئی ہیں تو روزگار کتنوں کو ملا؟

وزیر اعظم مودی نے ٹوئٹ کیا ہے کہ 2014 سے پہلے ملک میں موبائل بنانے والی صرف 2 کمپنیاں تھیں، آج موبائل مینوفیکچرنگ کمپنیوں کی تعداد 120 ہو گئی ہے۔سوال ہے کہ کمپنیوں کی تعداد 2 سے 120 ہو جانے پر کتنے لوگوں کو روزگار ملا؟

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

وزیر اعظم مودی نے ٹوئٹ کیا ہے کہ 2014 سے پہلے موبائل بنانے والی صرف 2 کمپنیاں تھیں۔  آج موبائل مینوفیکچرنگ کمپنیوں کی تعداد 120 ہو گئی ہے۔اگر 120 کمپنیاں ہو گئی ہیں تو پھر ایکسپورٹ  ہونے لگا ہوگا یا پھر امپورٹ گھٹ گیا ہوگا۔  سب کچھ نہیں تو بہت کچھ ہندوستان میں بننے لگا ہوگا، جس کی وجہ سے روزگار پیدا ہوا ہوگا۔اکتوبر 2018 میں میں نے ایک بلاگ لکھا تھا۔  ہندوستان ٹائمس کے ونیت سچدیو کی رپورٹ کی بنیاد پر کہ ہندوستان نے 2014 میں چین سے 6.3 ارب ڈالر کا موبائل فون امپورٹ  کیا تھا جو 2017 میں گھٹ گیا اور 3.3 ارب ڈالر کا ہی امپورٹ ہوا۔  آپ کو لگے‌گا کہ یہ تو بڑی کامیابی ہے۔  ہندوستان میں ہی موبائل فون بننے لگا ہے۔

لیکن دوسرے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ موبائل کا پارٹ-پرزہ کاامپورٹ  کافی بڑھ گیا ہے۔2014 میں موبائل فون کے پارٹ-پرزہ کا امپورٹ1.3 ارب ڈالر کا ہی ہوا تھا وہ اب2017 میں 9.4 ارب ڈالر کا ہو گیا ہے۔اس طرح 2014 سے 2017 کے درمیان موبائل اور موبائل پارٹ-پرزہ کا کل امپورٹ 7.6 ارب ڈالر سے بڑھ‌کر 12.7 ارب ڈالر ہو گیا۔ہندوستان میں ہو کیا رہا ہے، فیکٹری کی چھت ڈال‌کے اسینبلنگ ہو رہی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔  اگر یہی کل پرزے یہاں بنتے تو کئی قسم کے چھوٹے-چھوٹے روزگار پیدا ہوتے۔مگر یہ تو ہو نہیں رہا ہے اس لئے اس معاملے میں میک ان انڈیا جھانسا ہے۔

یہ اعداد و شمار ہے۔آپ چیک کر سکتے ہیں۔  اس لئے جب وزیر اعظم یہ کہے کہ موبائل کمپنیوں کی تعداد 120 ہو گئی ہے تو ساری کہانی تعداد میں 120 ہو جانے کی نہیں ہے۔چین کی ایک موبائل کمپنی ہے HUAWEI، جس کو لےکر امریکہ میں کافی تنازعہ ہوتا رہتا ہے۔یہ دنیا کی تیسری بڑی موبائل فون پروڈکشن کمپنی ہے۔اس کمپنی کو ہندوستان میں 5G کے ٹرائل کی اجازت دی گئی ہے۔دنیا بھر میں اس کمپنی کو لےکر تنازعہ ہے۔  امریکہ مانتا ہے کہ یہ کمپنی چین کے لئے جاسوسی کرتی ہے۔  برٹن نے اس کو اپنی زمین پر اجازت دی ہے۔  ہندوستان میں خدشہ ظاہر کیا جاتا رہتا ہے۔

Telecom Equipment Manufacturers Association of India کے صدر این کے گوئل نے حکومت سے گزارش کی ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کا تجزیہ کرے۔  سیلولر آپریٹر ایسوسی ایشن آف انڈیا نے ٹیلی کام ڈپارٹمنٹ کو خط لکھا ہے کہ چینی کمپنیوں کو آنے سے نہیں روکا جائے۔  ہویئی کو لےکر اتنا تنازعہ کیوں ہو رہا ہے؟بزنس اسٹینڈرڈ کے سرجیت داس گپتا نے اس پر لمبی رپورٹ لکھی ہے۔  بتایا ہے کہ 2010 میں جب ہویئی اور زیڈٹی ای (ZTE) نے جی ایس ایم موبائل لائن کے لئے ٹینڈر میں حصہ لینے کی کوشش کی تھی۔  لیکن تب حکومت ہند نے بی ایس این ایل کو ہدایت دی کہ ان دو کمپنیوں کو روکا جائے۔

اس وقت کئی چینی موبائل کمپنیوں اور ہندوستانی کمپنیوں کے مشترکہ قرار کو بھی رد کر دیا گیا تھا۔  ردکرنے کی بنیاد یہ تھی کہ چینی اوزاروں میں جاسوس کے آلہ لگے ہو سکتے ہیں۔لیکن بعد میں اجازت دے دی گئی کیونکہ اس کے لئے اصول بدل دئے گئے۔  یہ کہ موبائل کمپنیاں اپنے ڈیزائن بھی شیئر کریں‌گی اور اوزاروں کی تفتیش کی جا سکے‌گی۔  تب بھی بی ایس این ایل نے اس کے خلاف کسٹم محکمے میں چیلنج کیا تھا۔اب سوال ہے کہ حکومت ہند ان کمپنیوں کو لےکر نرم کیوں ہو گئی؟  جس کمپنی کو 2010 کی حکومت نے روک دیا تھا، اس کمپنی کو 2014 کی بعد والی حکومت کیوں آنے دے رہی ہے؟

اس سوال پر آنے سے پہلے بزنس اسٹینڈرڈ کے سرجیت داس گپتا نے لکھا ہے کہ ہندوستانی موبائل کمپنیوں کو ڈر لگتا ہے کہ چینی کمپنیوں کے موبائل کے آگے وہ نہیں ٹک پائیں‌گی کیونکہ چینی فون 30 فیصد سستے ہوتے ہیں۔اسی لئے ٹیلی کام اکویپمینٹ اینڈ سروسیز ایکسپورٹ پرموشن (TEPC) نے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کو لکھا ہے کہ ان کمپنیوں کو ملکی مفاد کے لیے اجازت نہ دی جائے۔  دیگر کمپنیوں نے بھی ان پر پابندی لگائی ہے۔

مانا جاتا ہے کہ کسی بھی ضرورت کے مطابق فون بنانے کی اس کی صلاحیت کا مقابلہ یورپ کی کمپنیاں نہیں کر سکتی ہیں۔  ہویئی کے پاس 5G کے لئے اوزار بنانے کی اچھی صلاحیت ہے۔  امریکہ کا ماننا ہے کہ اس کی وجہ سے اس کی قومی سلامتی کا سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔اگر اس کمپنی کا داخلہ گہرا ہوا تو پاور گریڈ سے لےکر دفاعی اداروں کو خطرہ پہنچ سکتا ہے۔  اگر امریکہ اور چین کے تعلقات بگڑے تو ویسی حالت میں چینی حکومت اپنی کمپنی سے کہہ سکتی ہے کہ وہ اپنے اوزاروں سے جاسوسی کرے اور امریکہ کا ابلاغی نظام ٹھپ کر دے۔

فون کمپنی کے سی ای او کا کہنا ہے کہ ان باتوں کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔  ہندوستانی اداروں نے کہا ہے کہ چینی کمپنی کو لائسنس دینے سے پہلے تمام طرح کی شرطوں پر قرار کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔میک ان انڈیا کے دور میں ہندوستانی ٹیلی کام سیکٹر کو صحیح سے سمجھیں۔  وزیر اعظم تو سلوگن دےکے چلے جائیں‌گے مگر اسی سے ساری کہانی کا پتہ نہیں چلتا ہے۔  اتنا دعویٰ کرنے کے بجائے وہ سمپل اعداد و شمار بتا دیتے کہ ٹیلی کام سیکٹر اور موبائل مینوفیکچرنگ کمپنیوں میں کتنے لوگوں کو روزگار ملا۔موبائل کمپنیوں کی تعداد 2 سے 120 ہو جانے پر کتنے لوگوں کو روزگار ملا؟  پوچھا جا رہا ہے روزگار مگر جواب میں بتا رہے ہیں کمپنیوں کی تعداد۔  یہ بتانا کتنی دیر کا کام ہے؟

(یہ مضمون  رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)