خبریں

آرٹی آئی قانون کے غلط استعمال کی کوئی جانکاری نہیں ہے: مرکزی حکومت

یونین منسٹر جتیندر سنگھ نے لوک سبھا میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آرٹی آئی قانون، 2005 کے غلط استعمال کی کوئی جانکاری حکومت ہند کے علم میں نہیں ہے۔  غلط استعمال سے بچنے کے لئے آر ٹی آئی قانون میں پہلے سے ہی اہتمام کیا گیا ہے۔

RTI-2

نئی دہلی: مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ ان کے پاس آر ٹی آئی قانون کے غلط استعمال کرنے کی کوئی جانکاری نہیں ہے۔پی ایم او اوریونین منسٹر جتیندر سنگھ نے لوک سبھا میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آرٹی آئی قانون، 2005 کے غلط استعمال کی کوئی مخصوص جانکاری حکومت ہند کے علم میں نہیں لائی گئی ہے۔

سنگھ نے کہا کہ غلط استعمال سے بچنے کے لئے آر ٹی آئی قانون میں پہلے سے ہی اہتمام کیا گیا ہے۔  انہوں نے کہا،آر ٹی آئی کے تحت جانکاری مانگنے کا حق مطلق العنانیت نہیں ہے۔  غلط استعمال سے بچنے کے لئے آر ٹی آئی ایکٹ میں دفعہ 8 ہے جو کہ کچھ اطلاعات کا انکشاف کرنے سے چھوٹ دیتی ہے۔  ‘انہوں نے آگے کہا،اس کے علاوہ دفعہ 9 ہے جو کہ کچھ معاملات میں اطلاع نہیں دینے کی بنیاد ہے، دفعہ 11 کے تحت تھرڈ پارٹی سے متعلق جانکاری نہیں دی جا سکتی اور دفعہ 24 کے مطابق یہ قانون کچھ تنظیموں پر نافذ نہیں ہوتا ہے۔  ‘

لوک سبھا میں حکومت کے ذریعے دیا گیا جواب۔

لوک سبھا میں حکومت کے ذریعے دیا گیا جواب۔

جتیندر سنگھ کا یہ بیان ایسے لوگوں کے لئے جواب کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ آر ٹی آئی قانون کا لوگ غلط استعمال کرتے ہیں اور پریشان کرنے کے لئے اس کا استعمال کرتے ہیں۔آر ٹی آئی قانون کے تحت پبلک انفارمیشن افسر اس بات کو لےکر اعتراض جتاتے ہیں کہ کچھ درخواست گزار ایک ہی موضوع پر کئی بار درخواست کرتے ہیں اور کئی بار غلط سوال پوچھتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا کافی وقت خراب ہوتا ہے۔

حالانکہ سینٹرل انفارمیشن کمیشن کے سابق انفارمیشن کمشنر کا کہنا ہے کہ ایسے معاملے صرف 1سے2 فیصد ہی ہیں۔ انہوں نے انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں کہا تھا، دوسرے قانون کی طرح آر ٹی آئی قانون بھی غلط استعمال سے اچھوتا نہیں ہے۔چونکہ یہ آرٹی آئی کا قانون ہے،اس لئے زیادہ کوشش اطلاع دینے کے لئے کی جانی چاہیے۔  ‘شیلیش گاندھی نے کہا کہ اس معاملے کو حل کرنے کے لئے پورے ملک میں آر ٹی آئی درخواست دینے کے عمل کو آن لائن کیا جانا چاہیے۔  اگر درخواست آن لائن کئے جاتے ہیں، تو ہرایک آدمی کو پتا چلے‌گا کہ کون بار بار غلطی کر رہا ہے اور اس طرح سے یہ قدم مسئلہ  کے روک تھام کے طور پر کام کرے‌گا۔

واضح ہو کہ آرٹی آئی ممکنہ طور پر  عوام کے ذریعے سب سے زیادہ بار استعمال کیے جانے والے قوانین میں سے ایک ہے۔بد عنوانی اور شفافیت کے مدعوں پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل انڈیا کی رپورٹ کے مطابق سال 2005سے2016 کے درمیان ملک بھر میں کل دو کروڑ 43 لاکھ سے زیادہ آر ٹی آئی درخواست دائر کئے گئے۔ اس بیچ سب سے زیادہ مرکزی حکومت کے مختلف محکمہ جات میں 57 لاکھ 43 ہزار آر ٹی آئی درخواست دائر کئے گئے۔

وہیں مہاراشٹر میں 54 لاکھ 95 ہزار، کرناٹک میں 22 لاکھ 78 ہزار، کیرل میں 21 لاکھ 92 ہزار، تمل ناڈو میں 19 لاکھ 23 ہزار آر ٹی آئی درخواست دائر کئے گئے ہیں۔  ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل انڈیا نے سینٹرل انفارمیشن کمیشن اور ریاستی انفارمیشن کمیشن کے ذریعے مہیّا کرائی کئی جانکاری کی بنیاد پر یہ رپورٹ تیار کی ہے۔قابل ذکر ہے کہ مرکز کی مودی حکومت آر ٹی آئی ترمیم بل لےکر آئی ہے جس میں سینٹرل انفارمیشن کمشنر اور ریاستی انفارمیشن  کمشنر کی تنخواہ اور ان کی  مدت کار کو مرکزی حکومت کے ذریعے طے کرنے کا اہتمام رکھا گیا ہے۔  آر ٹی آئی قانون کے مطابق ایک انفارمیشن  کمشنر کی مدت کار پانچ سال یا 65 سال کی عمر، جو بھی پہلے پورا ہو، کا ہوتا ہے۔

ابھی تک چیف انفارمیشن  کمشنر اور انفارمیشن کمشنر کی تنخواہ چیف الیکشن  کمشنر اور الیکشن  کمشنر کی تنخواہ کے برابر ملتی تھی۔  وہیں ریاستی چیف انفارمیشن  کمشنر اور ریاستی  انفارمیشن  کمشنر کی تنخواہ   الیکشن  کمشنر اور ریاستی حکومت کے چیف سکریٹری کی تنخواہ کے برابر ملتی تھی۔آر ٹی آئی ایکٹ کے آرٹیکل13 اور 15 میں سینٹرل انفارمیشن  کمشنر اور ریاستی  انفارمیشن  کمشنر کی تنخواہ، بھتہ اور دیگر سہولیات طے کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔  مرکز کی مودی حکومت اسی میں ترمیم کرنے کے لئے بل لےکر آئی ہے۔

آر ٹی آئی کی سمت میں کام کرنے والے لوگ اور تنظیم اس ترمیم کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔  اس کو   لےکر  عام شہری اور سابق کمشنروں نے سخت اعتراض کیا ہے۔  گزشتہ  بدھ کو دہلی میں مرکز کے ذریعے مجوزہ آر ٹی آئی ترمیم کے خلاف مظاہرہ ہوا تھا جہاں پر 12 ریاستوں سے لوگ آئے تھے۔آر ٹی آئی  قانون کے تحت انفارمیشن  کمیشن اطلاع پانے سے متعلق معاملوں کے لئے سب سے بڑا اور آخری ادارہ ہے، حالانکہ، انفارمیشن  کمیشن کے فیصلے کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں چیلنج کیا  جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے امید وار سرکاری محکمے کے لوک انفارمیشن  افسر کے پاس درخواست کرتا ہے۔ اگر 30 دنوں میں وہاں سے جواب نہیں ملتا ہے تو امید وار پہلے  اپیل افسر کے پاس اپنی درخواست بھیجتا ہے۔

اگر یہاں سے بھی 45 دنوں کے اندر جواب نہیں ملتا ہے تو امید وار سینٹرل انفارمیشن  کمیشن یا ریاست کے انفارمیشن  کمیشن کی پناہ لیتا ہے۔ لیکن ملک بھر‌کے انفارمیشن  کمیشن کے حالات بےحد خراب ہیں۔ عالم یہ ہے کہ اگر آج کے دن انفارمیشن  کمیشن میں اپیل ڈالی جاتی ہے تو کئی سالوں بعد سماعت کا نمبر آتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کمیشن میں کئی سارے عہدے خالی پڑے ہیں۔

1۔ آندھر پردیش کے ریاستی اطلاعاتی کمیشن میں ایک بھی انفارمیشن  کمشنر نہیں ہے۔ یہ ادارہ اس وقت پوری طرح سے غیرفعال ہے۔

2۔ مہاراشٹر ریاستی اطلاعاتی کمیشن میں اس وقت 40000 سے زیادہ اپیل اور شکایتں زیر التوا ہیں لیکن یہاں پر ابھی بھی چار عہدے خالی پڑے ہیں۔

3۔ کیرل ریاستی اطلاعاتی کمیشن میں صرف ایک انفارمیشن  کمشنر ہے۔ یہاں پر 14000 سے زیادہ اپیل اور شکایتں زیر التوا ہیں۔

4۔ کرناٹک ریاستی اطلاعاتی کمیشن میں انفارمیشن  کمشنر کے 6 عہدے خالی پڑے ہیں جبکہ یہاں پر 33000 اپیل اور شکایتں زیر التوا ہیں۔

5۔ اڑیسہ  اطلاعاتی کمیشن صرف تین انفارمیشن  کمشنر کے بھروسے چل رہا ہے جبکہ یہاں پر 10000 سے زیادہ اپیل / شکایتں زیر التوا ہیں۔ اسی طرح تلنگانہ کے انفارمیشن  کمیشن میں صرف 2 انفارمیشن  کمشنر ہیں اور یہاں پر 15000 سے زیادہ اپیل اور شکایتں زیر التوا ہیں۔

6۔ مغربی بنگال کی حالت بہت زیادہ خوفناک ہے۔ یہاں حالت یہ ہے کہ اگر آج وہاں پر کوئی اپیل فائل کی جاتی ہے تو اس کی سماعت 10 سال بعد ہو پائے‌گی۔ یہاں پر صرف 2 انفارمیشن کمشنر ہیں۔

7۔ وہیں، گجرات، مہاراشٹر اور ناگالینڈ جیسی جگہوں پر چیف انفارمیشن  کمشنر ہی نہیں ہیں۔ یہاں پر انفارمیشن کمیشن چیف انفارمیشن کمشنر کے بغیر کام کر رہے ہیں۔

غور طلب ہے کہ مودی حکومت پر الزام ہے کہ وہ ترمیم کے ذریعے آر ٹی آئی قانون کو کمزور کر رہی ہے اور  انفارمیشن کمشنر  پر دباؤ ڈالنا چاہتی ہے تاکہ وہ ایسے فیصلے نہ دے سکیں جو حکومت کے خلاف ہوں۔آر ٹی آئی کو لےکر کام کرنے والےسترک ناگرک سنگٹھن اور  نیشنل کیمپین فار پیپلس رائٹ ٹو انفارمیشن ( این سی پی آر آئی)سے  تعلق رکھنے والی انجلی بھاردواج نے کہا، ‘آر ٹی آئی میں ترمیم کے بعد مرکزی حکومت کو یہ حق مل جائے‌گا کہ وہ  انفارمیشن کمشنر  کی تنخواہ طےکریں۔اس کی وجہ سے انفارمیشن کمیشن آزادانہ طورپر کام نہیں کر پائیں‌گے اور ان پر بہت برا اثر پڑے‌گا۔  اس ترمیم کے ذریعے حکومت انفارمیشن کمیشن کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ‘