فکر و نظر

بابری مسجد-رام مندر تنازعہ : ہندو بنام مسلمان  کے ساتھ ساتھ ہندو بنام ہندو بھی ہے

ہندوؤں کے 6 دعویداروں  میں سے دو ایودھیا واقع متنازعہ مقام پر وراجمان رام للا کے خلاف ہی عدالت گئے ہیں۔

Photo : PTI

فائل فوٹو : پی ٹی آئی

ایودھیا کی رام جنم بھومی-بابری مسجد تنازعہ کو آپ اب تک ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کا تنازعہ ہی مانتے رہے ہیں تو اب  اس نظریے کی اصلاح کر لیجئے۔سچائی یہ ہے کہ یہ ہندو بنام ہندو بھی ہے اور مسلمان اس سے الگ ہو جائیں توبھی کئی الجھنیں سلجھنے والی نہیں۔آپ کو یاد ہوگا، فیض آباد کی نچلی عدالتوں میں عرصے تک لٹکے رہے اس تنازعے میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ  بنچ کے تین ججوں کی بنچ نے 2010 میں 30ستمبر کو دو-ایک کی اکثریت سے متنازعہ زمین کو تین دعویدار-وراجمان بھگوان رام للا، نرموہی اکھاڑا اور سنی وقف بورڈ میں برابر برابر بانٹنے کا فیصلہ سنایا تھا۔

ہائی کورٹ میں اس کے خلاف دائر اپیلوں میں ہندو دعوے دار نہ صرف مسلم دعوے دار کے بلکہ ایک دوسرے کے خلاف بھی تال ٹھونکے ہوئے ہیں۔یہاں تک کہ وراجمان بھگوان رام للا کے بھی خلاف۔عدالت میں زیر سماعت تنازعے کی 14 سول اپیلوں/اسپیشل لیو پٹیشن میں8 مسلم دعوے دار اور 6 ہندو دعوے دار کی طرف سے دائر کی گئی ہیں۔  ہندو ؤں کے 6 دعوے دار میں سے دو متنازعہ زمین  پر وراجمان رام للا کے خلاف ہی عدالت گئے ہیں۔

یہ دونوں دعوے دار ہندو مہاسبھا کے الگ الگ حلقے کے ہیں اورسپریم کورٹ میں ان کے ذریعے دائر اسپیشل لیو پٹیشن اور اپیلوں کے نمبر بالترتیب:ایس ایل پی(سی)3600/2011 اور سی اے 2636/2011 ہیں۔دلچسپ یہ کہ صرف ایک ہندو دعوے دار راجیندر سنگھ نے مسلم دعوےداری کے خلاف اپیل کر رکھی ہے، جس کا نمبر ہے سی اے 4740/2011. جاننا چاہیے کہ تنازعہ میں راجیندر سنگھ کا نام اپنے ایودھیا کے سورگ دوار محلے کے باشندہ ولد گوپال سنگھ وشارد کی جگہ آیا ہے۔

جاننا چاہیے کہ گوپال سنگھ وشارد وہی شخص ہیں، جس نے متنازعہ ڈھانچے میں مورتیاں رکھے جانے کے بعد ہندو مہاسبھا کی طرف سے ان کی زیارت اور عبادت کے حق کے لئے فیض آباد عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔  اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں اور ان کی جگہ ان کے بیٹے راجیندر سنگھ نے لے رکھی ہے۔وراجمان بھگوان  رام للا اور دیگر کی طرف سے دائر اپیل بھی انہی راجیندر سنگھ وغیرہ کے خلاف ہے۔  ہندو دعوے دار میں  نرموہی اکھاڑا اوراکھل بھارتیہ شری رام جنم بھومی پنردھار سمیتی نے بھی راجیندر سنگھ اور دیگر کے خلاف ہی تال ٹھونک رکھی ہے۔

ظاہر ہے کہ اس تنازعے میں ہندو دعوے دار میں نہ آپس میں اتفاق ہے، نہ ہی مسلم دعوے دار کے خلاف۔ سپریم کورٹ میں ایک دوسرے کے خلاف انصاف مانگ رہے یہ دعوے دار نہ خود کسی ایک کے حق میں اپنے دعوے چھوڑنے کو تیار ہیں اور نہ ان لوگوں کی طرف سے ہی ان کو منظم کرنے یا ان کے داخلی انتشار کو سلجھانے کی کوئی کوشش کی جا رہی ہے، جو خود کو ایودھیا میں وہیں عظیم الشان رام مندر تعمیر کے لئے اتاولے بتاتے ہیں اور ہر انتخاب کے وقت اس کا مدعا اٹھاکر سیاسی فائدہ ٹھاتے ہیں۔تنازعے کے مسلم دعوے دار میں ایک مولانا  محفوظ الرحمان کے ذریعے نامزد نمائندہ اور فیض آباد کی ہلال کمیٹی کے رہنما خالق احمد خاں پوچھتے ہیں کہ ایسے میں مسلمانوں کی طرف سے مسئلے سے خوشگوار حل کے لئے کوئی پہل کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟

وہ بات کرنا بھی چاہیں تو ان 6 ہندو دعوے دار میں سے کس سے اور کس بنیاد پر بات کریں؟  ان میں سے دو-چار ہندو دعوے دار کے ساتھ کوئی اتفاق بھی بن جائے تو اس کا کوئی حاصل نہیں ہے کیونکہ باقی دعوے دار اس کو پلیتہ لگا دیں‌گے۔خالق احمد کو شک ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی یہ دعوے دار متحد ہو پائیں‌گے، کیونکہ فیصلہ کچھ بھی ہو، ان سب کے حق میں یعنی سب کی خود غرضی کے مطابق تو نہیں ہو سکتا۔

ادھر، عظیم الشان  رام مندر کے پیروکار کچھ تنظیموں، دھرم آچاریوں اور مؤرخوں وغیرہ کو آگے کر کے غیر مناسب طور پر دباؤ بناتے دکھ رہے ہیں کہ تنازعے کا سپریم کورٹ سے جلد فیصلہ کراکر یا بات چیت کے ذریعے، اور نہیں تو قانون بناکر جلدازجلد حل کر دیا جائے۔  لیکن مشکل یہ ہے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ نہ تنازعے کی پیچیدگیوں کو سمجھتے ہیں اور نہ سمجھنا چاہتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ چونکہ عدالت فوری سماعت کی مانگ خارج کر کے جنوری میں سماعت کا حکم دے چکی ہے، اس لئے جلد فیصلے کا اختیار دستیاب ہی نہیں ہے اور قانون بناکر تنازعے کا حل کرنا ہو تو عدالت  میں زیر التوا تمام 14 اپیلوں کو رد کرنا پڑے‌گا، جو قانوناً ممکن نہیں ہے۔ان اپیلوں کے علاوہ بدھ مذہبی پیروکار کی طرف سے دائر رٹ پٹیشن نمبر 294/2018 بھی ہے، جس کو عدالت  نے اسی سال ایک حکم کے ذریعے اہم مقدمہ میں منسلک کر دیا ہے۔  اس رٹ پٹیشن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ متنازعہ زمین پر جو ڈھانچہ 6 دسمبر، 1992 تک کھڑا تھا، وہ 2500 سالہ قدیم بودھ وہار ہے۔

واضح ہو کہ 1993 کے ایودھیا خصوصی علاقہ حصول اراضی قانون کی دفعہ-4 کے تحت الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں چل رہے اس تنازعے سے جڑے سارے مقدموں پر روک لگ گئی تھی تو عدالت  نے اپنے 24 اکتوبر، 1994 کے حکم کے ذریعے مذکورہ دفعہ کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔عدالت کا کہنا تھا کہ قانون کی مذکورہ دفعہ انصاف کے فطری اصول کے ہی مخالف ہے۔  اتناہی نہیں، ہائی کورٹ 1995 میں 12 ستمبر کو ایک دیگر معاملے میں جاری اپنے ایک دیگر حکم میں واضح کر چکی ہے کہ اس کے ذریعے منظور کسی بھی ایسے حکم کو، جو دعویداروں پر واجب ہو، قانون بناکر غیرمؤثر نہیں کیا جا سکتا۔

تنازعے میں سنی وقف بورڈ،  نرموہی اکھاڑا اور رام للا وراجمان اہم دعویدار ہیں اور مرکزی حکومت پر مقبوضہ علاقے کی صورت حال بنائے رکھنے کی ذمہ داری ہے۔اس سسٹم کو کسی قانون کے ذریعے غیرمؤثر نہیں کیا جا سکتا۔جانکاروں کے مطابق مرکزی حکومت کے ذریعے رام مندر کے لئے مذہب کی بنیاد پر ہندوؤں کے حق میں قانون بنانے کی کسی بھی کوشش سے آئین کی دفعہ-14 اور 15 کی صاف خلاف ورزی ہوگی۔

آئین کی دفعہ-14 کے مطابق قانون کی نگاہ میں سارے شہری یکساں ہیں، جبکہ دفعہ 15 میں کہا گیا ہے کہ شہریوں کے مذہب، ذات، جنس اور جائے پیدائش  کو لےکر ان میں فرق نہیں کیا جا سکتا۔ادھر کچھ حلقوں میں مسلمانوں پر براہ راست اوربلاواسطہ نفسیاتی، سماجی اور سیاسی دباؤ بنائے جا رہے ہیں کہ وہ بڑا دل دکھاتے ہوئے متنازعہ زمین  سے اپنا دعویٰ واپس لے لیں۔  لیکن اس میں بھی کم رکاوٹیں نہیں ہیں۔

بابری مسجد کے لئے مقدمہ لڑ رہے سنی سینٹرل وقف بورڈ، جو مسلمانوں کی طرف سے اہم دعوے دار ہے، سرکاری ہے، جبکہ شیعہ وقف بورڈ کا تنازعے میں کوئی دخل نہیں ہے۔  فیض آباد کے سول جج کے ذریعے 30 مارچ، 1946 کو ہی اس کے دعویٰ کو خارج کیا جا چکا ہے۔مرکزی وقف قانون 1995 کی فعہ-51 اور ترمیم شدہ وقف قانون 2013 کی دفعہ-29 میں واضح طور پرکہا گیا ہے کہ وقف جائیداد اور مسجد نہ تو منتقل کی جا سکتی ہے، نہ گروی رکھی۔  ساتھ ہی نہ اس کو بیچا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی اور طرح سے  استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

اس سسٹم کے خلاف جو بھی قدم اٹھایا جائے‌گا، وہ غیر آئینی ہوگا۔  جاننا چاہیے کہ اسلامی شریعت کے مطابق بھی مسجد زمین سے آسمان تک مسجد ہی رہتی ہے۔غالباً ان حقائق کے ہی مدنظر 1950 میں ایودھیا کے 19 مسلمانوں نے فیض آباد کی عدالت میں حلف نامہ دےکر متنازعہ زمین پر مندر بنانے کی اجازت دی تھی تو عدالت نے ہندو ؤں  کو اس کا فائدہ نہیں دیا تھا۔

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)