گراؤنڈ رپورٹ

بہار: بی جے پی کی مخالفت  کیوں کررہے ہیں  جے ڈی یو اورایل جے پی رہنما؟

بی جے پی کے سامنے آگےکنواں پیچھے کھائی والی حالت ہے اور دونوں پارٹیوں کے واضح رخ پر بی جے پی کی خاموشی اس کا ثبوت ہے۔

modi-nitish-kumar-pti

فوٹو : پی ٹی آئی

پٹنہ: راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ سمیت پانچ ریاستوں کے انتخابات میں بدترین مظاہرہ پر ماتھاپچی کر رہی بی جے پی کے لئے بہار میں نئی مصیبت کھڑی ہوتی دکھ رہی ہے۔  بہار این ڈی اے کی معاون پارٹیاں جے ڈی یو اورایل جے پی نے بی جے پی کے لئے سب سے اہم مدعوں میں سے ایک رام مندر معاملے سے خود کو کنارہ کر لیا ہے۔  یہی نہیں، انہوں نے بی جے پی کو سال 2019 کے عام انتخابات میں مندر کی جگہ روزگاراورکھیتی جیسے مدعوں پر فوکس کرنے کی صلاح بھی بی جے پی کو دے ڈالی ہے۔

لوک جن شکتی پارٹی(ایل جے پی)کے رکن پارلیامان چراغ پاسوان نے کہا ہے، رام مندر صرف ایک پارٹی کا اایجنڈہ ہو سکتا ہے، این ڈی اے یا مرکز کا نہیں۔  ہمیں اس مدعے پر کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔ آرڈیننس کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ان کا نظریہ صاف ہے۔  چراغ پاسوان نے کہا، ہم کورٹ کے فیصلے  کی عزت کریں‌گے۔جہاں تک آرڈیننس لائے جانے کا سوال ہے، تو مجھے نہیں لگ رہا ہے کہ آرڈیننس آئے‌گا۔  ‘

اس سے پہلے جے ڈی یو کے قومی جنرل سکریٹری رام چندر پرساد سنگھ نے کہا ہے، رام مندر کے مدعے پر جے ڈی یو کے نظریے کو لےکر کسی طرح کا وہم نہیں ہونا چاہیے۔  رام مندر کے مدعے پر اگر حکومت آرڈیننس لاتی ہے، تو جے ڈی یو اس کی حمایت نہیں کرے‌گی۔   انہوں نے آگے کہا، مندر کی تعمیر یا تو کورٹ کے حکم پر ہونی چاہیے یا پھر متعلق دعویداروں کے درمیان آپسی سمجھوتہ کے بعد۔   1996 میں جب سمتا پارٹی نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا تھا، تو صاف طور پر پارٹی نے اپنا اسٹینڈ کلیئر کر دیا تھا کہ مندر یا تو کورٹ کے حکم پر بنے‌گا یا پھر سمجھوتہ کی بنیاد پر۔  جے ڈی یو اپنے اس اسٹینڈ پر قائم ہے۔

اپنی حکمت عملی سے جے ڈی یو کا نائب صدر بنے پرشانت کشور نے کہا کہ بی جے پی رام مندر کے مدعے کے بغیر بھی 2019 کا لوک سبھا انتخاب جیت سکتی ہے۔  انہوں نے دو ٹوک لہجے میں کہا، جے ڈی یو کا کور  مدعا  وکاس ہے۔ آر ایس پی سنگھ اور پرشانت کشور جے ڈی یو کے مکھیا نتیش کمار کے بےحد قریبی ہیں، اس لئے مانا جا رہا ہے کہ نتیش کمار کے اشارے پر ہی دونوں رہنماؤں نے عوامی طور پر رام مندر کے مدعے پر بی جے پی سے مختلف رائے رکھی ہے۔

حال کے دنوں میں بہار کے مسلم ووٹروں کو لبھانے کے لئے نتیش کمار نے کئی اسکیمیں شروع کی ہیں۔  سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے ذریعے رام مندر کو  مدعا   بنائے جانے سے نتیش کی اس کوشش پر چھاچھ پڑتا دکھ رہا ہے۔حالانکہ، حالیہ واقعات یہ بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کا جے ڈ ی یو پر بہت اعتبار نہیں ہے۔

paswan-nitish-kumar-sushil-kumar-modi-pti

اس کے علاوہ سیاسی تجزیہ کار دو اہم مدعوں کی طرف بھی دھیان دلاتے ہیں۔  سیاسی تجزیہ کار مہیندر سمن کہتے ہیں،یہ بات صحیح ہے کہ پانچ ریاستوں کے انتخابات میں رام مندر کا  مدعا   خوب بھنایا گیا، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔  جے ڈی یو اور ایل جے پی کو لگتا ہے کہ اگر آنے والے عام انتخابات میں بھی  بی جے پی رام مندر کو  مدعا   بناتی ہے، تو بی جے پی کو تو نقصان ہوگا ہی، اس کا خمیازہ کہیں نہ کہیں جے ڈی یو اورایل جے پی  کو بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے۔


یہ بھی پڑھیں: کیا نتیش کمار کو مسلمانوں کی ناراضگی کا خوف ستا رہا ہے؟


دوسری طرف، جے ڈی یو اورایل جے پی رہنماؤں کو یہ خوف بھی ستا رہا ہے کہ آنے والے انتخابات میں بی جے پی رام مندر کو  مدعا   بنائے‌گی، تو ان کے اپنے مدعے حاشیے پر چلے جائیں‌گے۔  مہیندر سمن بتاتے ہیں، بی جے پی رام مندر  مدعا   کا انتخابی فائدہ لیتی رہی ہے۔  جے ڈی یو اور ایل جے پی کو ڈر ہے کہ سال 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی اس  مدعے   کو زورشور سے اٹھاکر سیاسی ایجنڈے کو ہائی جیک کر لے‌گی، تو ان میں پریشانی بڑھے‌گی۔  ان کے اپنے مدعے کنارے ہو جائیں‌گے۔  ‘

حالانکہ، یہ بات صحیح ہے کہ اٹل بہاری واجپائی کے وقت سے ہی رام مندر، 370 اور یونیفارم سول کوڈ کو لےکر جے ڈی یو اورایل جے پی کا رخ بی جے پی سے الگ رہا ہے۔  لیکن، حال کے وقت میں بی جے پی کے ذریعے رام مندر کا  مدعا   زورشور سے اٹھانے کے باوجود جے ڈی یواورایل جے پی  رہنما خاموشی اختیارکئے ہوئے تھے۔لیکن، پانچ ریاستوں کے انتخابی نتیجے کے سامنے آنے کے بعد دونوں ہی پارٹیوں کے رہنما اس مدعے پر آواز اٹھانے لگے ہیں۔

دراصل، نتیش کمار اور رام ولاس پاسوان’سافٹ ہندوتوا ‘کے پیروکار ہیں، لیکن خود کو ایک سیکولر رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں۔اس لئے وہ رام مندر مدعے کی مخالفت تو نہیں کرتے، لیکن بی جے پی رہنماؤں کی طرح حمایت بھی نہیں کرتے ہیں۔  بی جے پی جس طرح اس مدعے پر جارحانہ رخ اپنائے ہوئی ہے، ان رہنماؤں (نتیش کمار اور رام ولاس پاسوان) کو لگتا ہے کہ خاموش رہنا ان کی سیکولر رہنما ہونے کی امیج کے خلاف جائے‌گا۔  یہ بھی ایک وجہ ہے کہ وہ رام مندر کے  مدعے   پر پھر سے اپنا رخ واضح کر دینا چاہتے ہیں۔

جے ڈی یو رہنما نیرج کمار کہتے ہیں،رام مندر کے  مدعے   کا حل تلاش کرنے کی جگہ اس کو پالٹیکل ایجنڈہ  بنایا گیا۔  بی جے پی اور کانگریس دونوں نے ایسا کیا، لیکن عوام کو اپنی زندگی کی فکر ہے۔ انہوں نے کہا، رام مندر کسی پارٹی کا ایجنڈہ  ہو سکتا ہے، لیکن یہ ملک کا ایجنڈہ قطعی نہیں ہے۔ جدیو کے ایک رہنما نے نام نہیں شائع نہیں کرنے کی شرط پر کہا کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو تشویش ہے کہ اگر بی جے پی اسی طرح کر رام مندر کا مدعااٹھاتی رہی، تو پارٹی کی امیج پر اثر ہوگا اور اس کا  نقصان بھی ہو سکتا ہے۔

ادھر،جے ڈی یو اورایل جے پی کے اس رخ سے بی جے پی پش وپیش میں ہے۔  بی جے پی کو 2019 کے عام انتخابات میں علاقائی رہنماؤں کی بھی ضرورت ہے اور مذہبی بنیاد پر ووٹ کے پولرائزیشن (مذہبی بنیاد پر ووٹ کا پولرائزیشن بی جے پی کے لئے اکثر فائدےمند ثابت ہوا ہے) کی بھی۔ اگر وہ رام مندر کے  مدعے   اچھالے‌گی، تو معاون پارٹیاں ناراض ہو جائیں‌گی اور اگر رام مندر کے  مدعے   چھوڑے‌گی، تو وہ ہندو ووٹر ناراض ہو جائیں‌گے، جو مذہبی وجہوں سے بی جے پی کو ووٹ دیتے آئے ہیں۔

کل ملاکر بی جے پی کے سامنے آگےکنواں-پیچھے کھائی والی حالت ہے اور دونوں پارٹیوں کے واضح رخ پر بی جے پی کی خاموشی اس کا ثبوت ہے۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)