فکر و نظر

کیا حالیہ وزرائے اعلیٰ کے انتخاب میں راہل گاندھی نے خود کو ایک بڑا قائد ثابت کیا ہے؟

اپنے والد اور دادی کے برخلاف بطور کانگریس صدر راہل گاندھی  نے تمام مدعیان کی باتیں سنیں، جس کی امید قدیم اورتاریخی پارٹی کے ہائی کمانڈ جیسے عہدےدار سے کم ہی رہتی ہے۔

کانگریس صدر راہل گاندھی کے ساتھ سچن پائلٹ اور اشوک گہلوت/ (فوٹو : پی ٹی آئی)

کانگریس صدر راہل گاندھی کے ساتھ سچن پائلٹ اور اشوک گہلوت/ (فوٹو : پی ٹی آئی)

بالآخر راہل گاندھی کے کام کرنے کے طریقے کی ایک جھلک مل ہی گئی۔ 1970 میں پیدا ہوئے راہل نے مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے وزرائے اعلیٰ کے انتخاب میں اندرونِ خانہ مثبت کشاکش کے بیچ تجربہ کار قائد کی طرح تنظیمی صلاحیت کا ثبوت دیا۔ تین میں سے دو وزرائے اعلیٰ  کے معاملے میں انہوں نے پارٹی کے ریاستی صدور کا انتخاب کیا۔اپنی ریاستوں میں بی جے پی کے 15 سالہ دورِ اقتدار میں کمل ناتھ اور بھوپیش بگھیل نے سخت وقت دیکھا اور خوب مورچہ لیا۔

راجستھان میں اشوک گہلوت کو چننے میں ہوئی مشکل، یا چھتیس گڑھ سے بھوپیش بگھیل کو فائنل کرنے میں ہوئی تھوڑی بہت کشمکش نے راہل کا ایک دینے لینے والا رخ ضرور پیش کیا۔ اپنے والد اور دادی کے برخلاف بطور کانگریس صدر انہوں نے تمام مدعیان کی باتیں سنیں، جس کی امید قدیم اورتاریخی پارٹی کے ہائی کمانڈ جیسے عہدےدار سے کم ہی رہتی ہے۔ پُر جوش گوجر لیڈران کے ذریعے گاڑیاں روکنے، توڑ پھوڑ کرنے یا جلانے جیسے واقعات کے دوران ایسا بھی لگا کہ پارٹی پر راہل کی پکڑ کمزور ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ان حالات کے بین السطور میں یہ لطیف پیغام بھی نہاں تھا کہ پارٹی میں علاقائی، لسانی، ذات پات کی کشاکش، گروہ بندی اور دباؤبنانے کی روش زندہ ہے اور یہی ایک متحرک پارٹی کی دلیل ہے۔

یہ مخالف سیاسی پارٹی میں’دو لوگوں کی حکمرانی’کے ایک دم خلاف ماحول ہے، جس نے کانگریس جیسی قدیم اورتاریخی پارٹی کو فعال کر رکھا ہے۔ سن 2019 کے آئندہ انتخابات دیکھتے ہوئے اس طرح کے واقعات اگر موجودہ سیاست میں کسی بھی طرح کی گفتگو کا موضوع بنتے ہیں تو کچھ نئی باتیں نکل سکتی ہیں۔

ایک جلسہ کے دوران کانگریس صدر راہل گاندھی، (بائیں سے) جیوترادتیہ سندھیا، دگوجئے سنگھ اور کمل ناتھ (بیٹھے ہوئے) /فوٹو : پی ٹی آئی

ایک جلسہ کے دوران کانگریس صدر راہل گاندھی، (بائیں سے) جیوترادتیہ سندھیا، دگوجئے سنگھ اور کمل ناتھ (بیٹھے ہوئے) /فوٹو : پی ٹی آئی

جادوگر اشوک گہلوت کی سیاست میں آمد اور ان کے سفر سے متعلق کافی کچھ لکھا گیا ہے۔ اسی طرح چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل کا سیاسی سفر بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ بی ایس سی کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے نوجوان بھوپیش کا دل پڑھائی سے اُچٹ گیا۔ ان کے والد نند کمار بگھیل نے بیٹے کی سیاست سے دلچسپی دیکھ شرط لگا دی کہ بے شک پڑھائی تم چھوڑ دو، مگر ایک دن صوبے کا وزیراعلیٰ  بن کر دکھانا۔ جونیئر بگھیل کو مانو من کی مراد مل گئی ہو، انہوں نے اس آفر کو لپکنے میں ایک پل کی بھی دیر نہ کی۔ اس طرح سائنس کی دنیا کا ایک نقصان سیاست اور خاص طور سے کانگریس پارٹی کے لیے خاصے منافع کا سودا بن گیا۔

بگھیل (57) کا سفر بہت کٹھن تھا لیکن والد کی اجازت ملنے کے بعد انہوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ این ایس یو آئی اور یوتھ  کانگریس سے آگے بڑھ کر انہوں نے پارٹی میں اپنی جگہ بنا ہی لی۔ پارٹی مفاد کے سامنے کسی بات سے سمجھوتہ نہ کرنے کے ان کے رویے نے غالباً راہل کا دھیان کھینچا۔ اس کی مثال ایک واقعے سے دی جا سکتی ہے۔ 2015سے16 میں ایک آڈیو ٹیپ وائرل ہوا، جس سے پتہ چل رہا تھا کہ 2014 میں انتاگڑھ ودھان سبھا سیٹ کے لیے ہوئے ضمنی انتخاب میں کچھ گڑبڑ کی گئی ہے۔ بطور چھتیس گڑھ کانگریس صدر بگھیل نے اس پر سخت رخ اپناتے ہوئے سینئر کانگریسی لیڈر اجیت جوگی کے بیٹے امیت جوگی کو پارٹی سے نکال باہر کیا۔ جوگی صاحبان کا دہلی کے کانگریس دربار میں دبدبہ تھا، لیکن بگھیل اپنے فیصلے پر اٹل رہے اور راہل کو یہ سمجھانے میں کامیاب رہے کہ جوگی حضرات کئی بار تب چھتیس گڑھ کے چیف منسٹر ڈاکٹر رمن سنگھ کی منشاء کے مطابق بطور ان کی بی ٹیم کام کرتے رہے ہیں۔

ایک کانگریسی کی جارحانہ سیاست دیکھتے ہوئے اسی سال ستمبر میں بگھیل اور ان کے قریبی ساتھی صحافی ونود ورما کے خلاف سی بی آئی نے رائےپور کی خصوصی عدالت میں چارج شیٹ داخل کر دی۔ ان پر ایک فرضی سیکس سی ڈی جاری کرنے کا الزام لگایا گیا۔ بگھیل نے اس کے خلاف گاندھی واد کا سہارا لیا اور ضمانت لینے سے منع کر دیا۔ چھتیس گڑھ صوبائی کانگریس کے صدر کچھ دنوں تک عدالتی حراست میں رہے۔ اس بیچ پارٹی میں ان کے حریف راہل کو صلاح دیتے رہے کہ ایسے بدکردار اور خود سر انسان کو پارٹی سے فوراً باہر کر دیا جانا چاہیے۔ جبکہ راہل کو یقین تھا کہ سیاسی دشمنی نکالنے کے لیے سی بی آئی اور رمن سنگھ دونوں نے بگھیل کے خلاف سازش رچی ہے، اور انہیں باقاعدہ نشانہ بنایا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چھتیس گڑھ کانگریس کا صدر ہونے کے باوجود بھوپیش بگھیل نے صوبے کے وزیر اعلیٰ رمن سنگھ سے نہ تو کبھی ہاتھ ملایا، نہ کبھی ان کے ساتھ اسٹیج پر نظرآئے۔

بھوپیش بگھیل ،فوٹو: ٹوئٹر@INCIndia

بھوپیش بگھیل ،فوٹو: ٹوئٹر@INCIndia

سنجے گاندھی کے بہت قریب رہے مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ کمل ناتھ کو آنجہانی سنجے گاندھی سے بہت عقیدت ہے۔ اسی لیے حلف برداری والے دن سڑکوں پر لگائے گئے پوسٹرس میں اندرا، راجیو اور سونیا کے ساتھ ہی سنجے گاندھی کی مسکراتی تصویر بھی نظر آ رہی تھی۔ کمل ناتھ کے دہلی والے بنگلے میں بھی سنجے گاندھی کا ایک پورٹریٹ آویزاں ہے۔ اپنی آزادانہ سوچ کے ساتھ کمل ناتھ اپنے محسنوں کو بھی یاد رکھنے کے لیے مشہور ہیں۔ بحیثیت مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ ناتھ نے سب سے جدا چیف منسٹر کے طور پر کام کرنے کی تیاریاں کر رکھی ہیں۔ ایسا چیف منسٹر جو اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے کا مفہوم بخوبی سمجھتا ہے۔ وہ تیزی سے معاملات نپٹانے کے لیے مشہور ہیں اسی لیے امید سے جلد ان کے کام کے نتائج نظر آنے بھی لگے ہیں۔

ممکن ہے اشوک گہلوت کے پاس کمل ناتھ جیسی تڑک بھڑک یا جاذبیت نہ ہو، لیکن نہرو گاندھی خاندان کے تئیں وفاداری ان کا بہت بڑا اثاثہ ہے۔ گاندھی وادی گہلوت، مشروبات میں صرف چائے لیتے ہیں اور پکے سبزی خور ہیں۔ ہوش سنبھالنے کے بعد سے ہی وہ بڑی صبح اٹھنے کے عادی ہیں۔ کمل ناتھ اور بھوپیش بگھیل کے خلاف اشوک گہلوت کے سامنے ایک بڑا کام اپنے ڈپٹی چیف منسٹر سچن پائلٹ سے خوشگوار تعلقات بنائے رکھنا بھی ہے۔ پائلٹ کے راہل سے قریبی مراسم ہیں۔ لہٰذا آئندہ لوک سبھا چناؤ تک جادوگر گہلوت نے ایک یا دو شعبدے ایسے ضرور اپنی آستین میں چھپا رکھے ہوں گے، جن سے سچن پائلٹ کو 2019 کے لوک سبھا چناؤ تک سادھ کر رکھا جا سکے اور پارٹی ان انتخابات میں زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کر سکے۔