خبریں

کسانوں کو نہیں مل رہی ایم ایس پی، اونے پونے دام پر اپج بیچنے کو مجبور

تمام فصلوں کے لئے ایم ایس پی طے نہیں کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ٹماٹر، پیاز اور آلو جیسے پیداوار کی حالت بےحد خراب ہے۔

علامتی فوٹو : رائٹرس

علامتی فوٹو : رائٹرس

نئی دہلی:  گزشتہ  کچھ سالوں میں ملک کے کئی سارے علاقوں میں زراعتی بحران کو لےکر کثیر تعداد میں کسانوں نے  مظاہرہ کیا۔  کئی بار کسان اپنی مانگوں کو لےکر دہلی بھی آئے۔اسی کا نتیجہ رہا ہے کہ سال 2018 میں مختلف ریاستوں میں ہوئے انتخابات میں کسانوں کا مسئلہ مرکز میں رہا۔  حالانکہ ابھی بھی کسانوں کا یہ مسئلہ بنا ہوا ہے کہ کیسے ان کو ان کی پیداوار کی صحیح قیمت ملے۔

مرکز کی نریندر مودی حکومت نے گزشتہ 4 جولائی 2018 کو 14 خریف فصلوں کے لئے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی)طےکی تھی۔  حکومت کا دعویٰ تھا کہ پہلے کے مقابلے اب کسانوں کو ان کی فصلوں کی اچھی قیمت ملے‌گی اور ہرجگہ پر ایم ایس پی پر فروخت ہوگی۔حالانکہ انڈین ایکسپریس کے ذریعے اکتوبر اور نومبر مہینے میں کسانوں کو ان کی پیداوارکی ادائیگی کا اندازہ کرنے سے یہ جانکاری سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر جگہوں پر ایم ایس پی سے کافی کم قیمت پر فصلوں کی فروخت ہو رہی ہے۔

ایگ مارکنیٹ (ایگریکلچرل مارکیٹنگ انفارمیشن نیٹ ورک)

ایگ مارکنیٹ (ایگریکلچرل مارکیٹنگ انفارمیشن نیٹ ورک)

خریف سیزن کی فصل کے لئے اکتوبر-نومبر کا مہینہ بڑا مارکیٹنگ پیریڈ ہوتا ہے اسی وقت کسانوں کو ان کی پیداوار کی قیمت تقریباً تمام فصلوں کے لئے ایم ایس پی سے کم مل رہی ہے۔  ان میں سے واحد استثنا جوار، کپاس اور تل ہیں۔باجرا کی ایم ایس پی 1950 روپے طےکی گئی تھی لیکن اس کی سب سے زیادہ پیداوار والی ریاست راجستھان میں یہ اکتوبر اور نومبر مہینے میں اوسطاً 1521 اور 1453 روپے میں بکا۔

اسی طرح مکئی کی ایم ایس پی 1700 روپے طےکی گئی تھی لیکن اس کے سب سے زیادہ پیداوار والی ریاست کرناٹک میں اکتوبر اور نومبر مہینے میں اس کا اوسطاً 1408 اور 1371 روپے میں فروخت ہوئی۔  زیادہ فصلوں کی یہی حالت ہے۔انڈین ایکسپریس کے مطابق فصلوں کی قیمت کی یہ حالت انتخابات تک کم ہونے کا امکان نہیں ہے۔آنے والے مہینوں میں اہم فصلوں میں ارہر، چنا، آلو، پیاز، سرسوں، گیہوں گنّا اور دودھ کی خریداری ہوگی۔

ارہر کی بوائی خریف(جون-جولائی)کے دوران ہوتی ہے لیکن اس کی منڈی میں آمد جنوری-فروری میں ہوتی ہے۔چنا، سرسوں اور گیہوں ربی سیزن(سردیوں-بہار)کی فصلیں ہیں۔  چنا اور سرسوں زیادہ تر مارچ-اپریل میں بیچی جاتی ہے جبکہ گیہوں کی فروخت اپریل-مئی میں ہوتی ہے۔دھیان دینے والی بات یہ ہے کہ ان کی مارکیٹنگ شروع ہونے سے پہلے ہی مہاراشٹر میں ارہر کی قیمت 4300سے4400 روپے فی کوئنٹل، راجستھان میں سرسوں کی قیمت 3700سے3800 روپے فی کوئنٹل اور چنا مدھیہ پردیش میں 3900سے4000 روپے فی کوئنٹل ہے۔


یہ بھی پڑھیںزیادہ تر جگہوں پر نہیں مل رہا کسانوں کو ایم ایس پی،اکتوبر میں 1000 کروڑ کا نقصان


یہ تمام قیمتیں ایم ایس پی سے کافی کم ہیں۔ارہر کی ایم ایس پی 5675 روپے، سرسوں کی ایم ایس پی 4200 روپے اور چنا کی ایم ایس پی 4620 روپے فی کوئنٹل طے کی گئی ہے۔گیہوں اور دھان کے لئے ایم ایس پی کی گارنٹی دینا آسان ہو سکتی ہے کیونکہ صرف انہی دو بہترین اناج کی فصلوں کی خرید سرکاری ایجنسیوں  کے ذریعے کی جاتی ہے۔ٹماٹر، پیاز اور آلو کی حالت بےحد خراب ہے۔  کولار (کرناٹک) میں ٹماٹر کی قیمتیں اس سال اوسطاً 650 روپے فی کوئنٹل سے تھوڑی زیادہ رہی ہیں، جبکہ 2017 میں ٹماٹر کی قیمت 1700 سے زیادہ تھی۔

وہیں لاسل گاؤں(مہاراشٹر)میں پیاز کی قیمتیں اور آگرہ (اتر پردیش)میں آلو کی قیمتیں اکتوبر میں1300سے1400 روپے فی کوئنٹل کے آس پاس رہی تھی لیکن خاص کر دیوالی کے بعد داموں میں بھاری گراوٹ آئی اور اب یہی قیمت 500 روپیہ فی کوئنٹل پر پہنچ گئی ہے۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ گزشتہ سال جو آلو اور پیاز کولڈ اسٹور میں رکھی گئی تھی، اس کو سیدھے مارکیٹ میں اتار دیا گیا ۔

کسان اکتوبر سے نومبر کے بیچ میں ربی سیزن کے آلو کو لگاتے ہیں اور فروری-مارچ  تک فصل کی کٹائی کٹونی ہوتی ہے۔ زیادہ تر ان کو کولڈ اسٹور میں رکھا جاتا ہے۔ وہیں نومبر-دسمبر میں پیاز کی کھیتی کی جاتی ہے اور مارچ-اپریل میں اس کوکاٹا جاتا ہے، جس کو گرمیوں اور مانسون میں بیچنے کے لئے اسٹاک میں رکھا جاتا ہے۔

اس بار بھی کسان ان قیمتوں کے بڑھنے کا انتظار کر رہے تھے لیکن ایسا ہوا نہیں۔  اسٹاک میں رکھی ہوئی جو پرانی پیداوار  بچ گئی تھیں ان کو ہی مارکیٹ میں اتار دیا گیا۔  کئی کسان کولڈ اسٹور میں پڑے اپنے آلو کو واپس نہیں لے جا سکے کیونکہ وہ ان کولڈ اسٹور مالکوں کو ادائیگی کرنے کی حالت میں نہیں تھے۔