فکر و نظر

نصیرالدین شاہ کے بیان پر تنازعہ: نہ تڑپنے کی اجازت ہے، نہ فریاد کی

ملک میں سماج کی نچلی سطح تک ڈر اور عدم اعتماد کا ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ مزاحمت کی ساری آوازیں گھٹ‌کر رہ گئیں ہیں اور اب اوپری سطح پر کوئی عامر خان اپنا ڈر یا نصیرالدین شاہ غصہ جتانے لگتے ہیں ، تو ان کا منھ نوچنے کی سرپھری کوششیں شروع کر دی جاتی ہیں۔

نصیرالدین شاہ (فوٹو بشکریہ: یو ٹیوب/ہندی کویتا)

نصیرالدین شاہ (فوٹو بشکریہ: یو ٹیوب/ہندی کویتا)

کسی شاعر کا بڑا ہی مقبول عام شعر ہے، قفس میں رہ‌کے بھی انصاف مانگنے والو، یہی بہت ہے کہ فریاد کی اجازت ہے۔جب بھی لوگوں کی سوچ اور سروکاروں پر عائد کی جانے والی پابندیاں حد سے گزرنے لگتی ہیں، وہ اس شعر کو دلاسے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔یہ دلاسہ سچا ہو یا جھوٹا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس ملک میں پنجرے میں بند مخلوق کو بھی فریاد کی اجازت دی جاتی رہی ہے-جاگیرداروں اور صیادوں کے دور میں بھی۔

لیکن اب، وزیر اعظم نریندر مودی، اور ان سے بھی زیادہ، ان کے حامیوں کے دور میں، ملک کے جو تھوڑے سے لوگ خود کو پنجرے کے باہر سمجھ سکتے ہیں، ان کو بھی، نہ تڑپنے کی اجازت ہے، نہ فریاد کی ہے۔  (شعر کا اگلامصرعہ ہے : گھٹ‌کے مر جاؤں یہ مرضی  مرے صیاد کی ہے-شاد لکھنوی )

تبھی تو پہلے ملک میں سماج کی نچلی سطح تک ڈر اور عدم اعتماد کا ایسا ماحول بنا دیا گیا کہ وہاں اس کی مزاحمت کی ساری آوازیں گھٹ‌کر رہ گئیں اور اب اوپری سطح پر کوئی عامر خان اپنا ڈر یا نصیرالدین غصہ جتانے لگتے ہیں  تو ان کا منھ نوچنے کی سرپھری کوششیں شروع کر دی جاتی ہیں۔سوشل میڈیا پر ان کو ٹرول کرنے کی مہم چلائی اور اس عظیم الشان ملک کے تئیں احسان فراموش قرار دیا جانے لگتا ہے اور غدار ٹھہرایا جانے لگتا ہے، تو کوئی خود مختار تنظیم نہ صرف دہشت گردوں اور ملک کو گالی دینے والوں بلکہ پاکستان تک سے جوڑنے، وہاں چلے جانے کی بن مانگی صلاح دینے اور ٹکٹ کی سوغات پہنچانے لگتا ہے۔

اس جارحیت میں اتنی بھی ہوش مندی نہیں برتی جاتی، جس سے یہ علم ہو سکے کہ اس طرح عامر کا ڈر اور نصیرالدین کا غصہ، دونوں خودبخود ثابت ہوئے جا رہے ہیں۔سوچیے ذرا کہ جو مودی حامیاں نصیرالدین کے اتنے بھر کہنے سے کہ ملک میں بوتل سے باہر کر دئے گئے فرقہ پرستی کے جن کو اب پھر سے بوتل میں بند کرنا مشکل ہوگا، ان پر ٹوٹ پڑے ہیں، وہ اس جن کی نہیں تو اور کس کی طرفداری کر رہے ہیں؟

جب نصیرالدین نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو ڈانٹ دیا ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کی فکر میں دبلے ہونے کے بجائے اپنے ملک کے مسائل پر دھیان دیں، یہ صاف ہونے میں کون-سی کسر ہے کہ اس بہانے عمران کو قائدِ اعظم محمد علی جناح کے دوقومی نظریے کے قول کو صحیح ٹھہرانے کا حوصلہ ان حضرات کے اقلیتوں کی بات تک برداشت نہ کر پانے والی عدم رواداری نے ہی دیا ہے؟

نصیرالدین کے اس سوال کے سامنے تو خیر وہ لاجواب ہیں ہی کہ کیوں بلندشہر میں اترپردیش حکومت کی نگاہ میں ایک پولیس انسپکٹر کی، جو اقلیت بھی نہیں ہے، جان کی قیمت ایک گائے سے بھی کم ہے؟دراصل، اسی سوال سے نظریں چرانے کے لئے انہوں نے دانشور ی کے چوغے میں کچھ ایسے لوگوں کو آگے کر دیا ہے جو نصیرالدین کے خلاف تہمتوں کو نئی شکل دیتے ہوئے ‘ پھسلانے ‘ کے سے انداز میں کہہ رہے ہیں کہ چونکہ سیلبرٹی ہونے کی وجہ سے ان کی ذمہ داری عوام الناس سے زیادہ ہے، اس لئے ان کو ملک کی امیج کے حق میں ایسی بات نہیں کہنی چاہیے تھی کہ کوئی ان کے بچوں سے پوچھ لے‌گا کہ وہ ہندو ہیں یا مسلمان تو کیا ہوگا؟

کاش،یہ’دانشور’سمجھتے کہ اگر سیلبرٹی ہونے کی وجہ سے نصیرالدین کی ذمہ داری عوام الناس سے بڑی ہے تو وزیر اعظم نریندر مودی کی ذمہ داری تو نصیرالدین سے بھی بڑی ہوگی۔ایسے میں اگر نصیرالدین کی مذکورہ بات کہنے سے ملک کی امیج اتنی خراب ہوئی ہے کہ تو اس کو تب کتنا بٹہ لگا ہوگا، جب ہم نے اتر پردیش اسمبلی کے گزشتہ سال کے انتخاب میں ملک کے وزیر اعظم کو قبرستان اور شمشان رٹتے دیکھا؟

اس وقت وزیر اعظم ہولی-دیوالی اور عید میں فرق کرنے پر نہ اترتے اور بےلگام گئورکشکوں اور ان کا تحفظ کر رہی ریاستی حکومتوں کو تھوتھی نصیحتیں دےکر نہ رہ جاتے تو یقیناً، اب تک ان سے جڑے سارے ڈر اور غصے ختم ہو گئے ہوتے۔ لیکن یہ’دانشور ‘ابھی بھی’ جبرا مارے اور رونے نہ دے ‘پر آمادہ ہیں۔

سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرازم کی مانیں تو جنوری، 2014 سے 31 جولائی، 2018 تک ملک میں ماب لنچنگ کی جو 109 معاملے سامنے آئے، ان میں 82 بی جے پی کی حکومت والی  ریاستوں میں ہوئیں۔’ انڈیا اسپینڈ’کے مطابق ماب لنچنگ کے 97 فیصد معاملے 2014 میں نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد ہی سامنے آئے اور ان کی اہم وجہ فرقہ وارانہ رہی ہے۔  ان کو چھوڑ بھی دیں تو خود وزارت داخلہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مودی کے 2014 کے بعد سے اب تک کی حکومت میں نو ریاستوں میں ماب لنچنگ کے 40 واقعات میں 45 لوگوں کی جان گئی ہے۔

اس کے باوجود کوئی کہتا ہے کہ اس ملک میں اس کو ڈر لگنے لگا ہے اور ان دانشوروں کو اس کو یہ کہنے دینا بھی گوارا نہیں ہوتا کہ وہ ڈرا ہوا ہے تو محلے کے وہ غنڈہ یاد آتے ہیں جو اپنی کوئی کارستانی دیکھ لئے جانے پر دیکھنے والوں کو دھمکانے پہنچ جاتے ہیں-خبردار، جو اس بابت منھ کھولا۔

ان کے ساتھی اداکار انوپم کھیر نصیرالدین سے یہ پوچھتے ہے کہ ان کو اور کتنی آزادی چاہیے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ ان کی جماعت کے لوگوں نے کس طرح ہماری آزادی کو مالک و مختارکے ہتھیار اور خیرات میں بانٹی جا سکنے والی چیز میں بدل ڈالا ہے۔فی الحال، اس جماعت سے، جس نے کبھی عالمی شہرت یافتہ مصور مقبول فدا حسین، نائب صدر حامد انصاری اور سینئر کنڑ قلمکاریو آر اننت مورتی کے خلاف مہم چلانے میں بھی جھجک نہیں کی، امید بےکار ہے کہ وہ نصیرالدین کے معاملے میں قدرے  سمجھداری سے کام لے‌گی۔

وہ نصیرالدین کی یہ صفائی بھی کھلےمن سے نہیں ہی منظور کرنے والی کہ انہوں نے جو بھی کہا، ایک متفکر ہندوستانی کے طور پر کہا۔  وہ انھیں یہ بھی نہیں بتانے والی کہ انہوں نے ایسا کیا کہا، جو ان کو غدار کہا جا رہا ہے؟یہ بھی نہیں کہ اگر وہ اس ملک کے بارے میں تشویش کا اظہار کر رہے ہیں، جس سے وہ پیار کرتے ہیں اور جو ان کا گھر ہے، تو گناہ گار کیسے ہو گئے؟

دراصل، اس وقت ملک میں ایک ایسا خوف ناک کھیل کھیلا جا رہا ہے، جس میں ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اقتدار پانے کے لئے کٹرپن، دیوانگی، تشدد، بےرحمی کو سیڑھیوں کی طرح استعمال کر رہے ہیں اور ان پر مذہب، حب الوطنی کا جھوٹا پردہ چڑھائے ہوئے ہیں۔ان کو پرواہ نہیں کہ ان کی خود غرضی میں ہندوستان کی تاریخی روایات، تہذیب اور صفات دفن ہوئی جا رہی ہیں۔  وہ اپنی ذراسی بھی مخالفت یا تنقید برداشت نہیں کرتے ہیں اور ایسا کرنے والے کو ہر طریقے سے دبانے، دھمکانے، ڈرانے یا غلط ثابت کرنے کے پینترے آزماتے ہیں۔

دوسری طرف اس کھیل‌کا برا انجام سمجھنے والے لوگ ہیں، جنھیں اندھی حب الوطنی اور مشتعل قوم پرستی سے نہیں، اپنے ملک سے پیار ہے۔  وہ یہاں کی گنگا-جمنی تہذیب، دلیل و منطق اور تنازعے کی گنجائش اور عدم اتفاق کے وقارکو بچانا چاہتے ہیں۔ان دونوں پہلوؤں میں ہر مذہب اور طبقے کے لوگ ہیں، کیونکہ یہاں سوال مذہب کا نہیں، نظریے کا ہے۔

دکھ کی بات ہے کہ اس نظریے کو پلٹ‌کر مذہب کا سوال بنانے میں لگی’دانشوروں ‘اور حامیوں کی جماعت اپنے نصیرالدین جیسے آسان نشانے کو بات بات پر نہ صرف پاکستان جانے کی صلاح دیتی بلکہ وہاں اقلیتوں سے کہیں زیادہ برے سلوک کے لئے ایسے ذمہ دار ٹھہراتی ہے، جیسے وہ پاکستانی ہوں۔

اس چکر میں وہ نہ ہندوستان کے مساوات، بھائی چارہ اور انصاف پر مبنی پروقار آئین کے مقدس قدروں کو روندنے سے پرہیز کرتی ہے اور نہ یہ یاد رکھ پاتی ہے کہ پاکستان سے متعلق جو سوال وہ بار بار پوچھتی رہتی ہے، ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہرلال نہرو نے تقسیم کے فوراً بعد ہی اس کا جواب دے دیا تھا۔

ستمبر،1950 میں ناسک میں ہوئے کانگریس کے کانفرنس میں انہوں نے اپنی پارٹی کے شدت پسندوں سے کہا تھا، ‘پاکستان میں اقلیتوں پر ظلم ہو رہے ہیں تو کیا ہم بھی یہاں وہی کریں؟  اگر آپ اس کو ہی جمہوریت کہتے ہیں تو بھاڑ میں جائے ایسی جمہوریت! ‘کیا ان کے جیسے ہی عظیم قیادت کے خواہش مند نریندر مودی اپنے شدت پسندوں سے اس طرح پیش آ سکتے ہیں؟

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)