خبریں

آسام: صحافی کے سوال پر بھڑکے اے آئی یوڈی ایف چیف، بولے؛یہاں سے جاؤ ورنہ سر پھوڑ دوں گا

گوہاٹی میں ایک پروگرام میں اے آئی یو ڈی ایف چیف بدرالدین اجمل سے ایک صحافی نے لوک سبھا انتخابات کے وقت پارٹی کے گٹھ بندھن کے منصوبے پر سوال کیا، جس پر وہ بھڑک گئے۔

اے آئی یوڈی ایف صدر بدرالدّین اجمل (فوٹو : پی ٹی آئی)

اے آئی یوڈی ایف صدر بدرالدّین اجمل (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی:آل انڈیا یونائیٹڈ  ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یوڈی ایف) چیف  بدرالدین اجمل سے بدھ کو جب ایک صحافی نے اگلے عام انتخابات کو لےکر سوال کیا تو وہ بھڑک گئے اور صحافی کے لیے غلط زبان کا استعمال کرتے ہوئےاس کا سر پھوڑنے تک کی دھمکی دی۔ ان کے حامیوں نے صحافی کو عوامی طور پر معافی مانگنے پر مجبور کیا۔ صحافی نے بعد میں لوک سبھا ممبر بدرالدین اجمل کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی۔ یہ واقعہ تب ہوا جب اجمل ایک پروگرام کے بعد صحافیوں  سے بات کر رہے تھے۔ اس پروگرام میں انہوں نے جنوبی سلمارا ضلع کے پنچایت انتخابات کےفاتحین کو مبارکباد دی۔

تبھی ایک مقامی ٹی وی چینل کے صحافی نے آئندہ لوک سبھا انتخاب کو لےکر گٹھ جوڑ کی اے آئی یوڈی ایف کے منصوبے  کے بارے میں سوال کیا۔ لوک سبھا ممبر اجمل نے سیدھا جواب دینے سے بچتے ہوئے کہا، ‘ ہم دہلی میں مہاگٹھ بندھن (حزب مخالف) کے ساتھ ہیں۔ ‘ اس کے بعد صحافی نے پوچھا کہ انتخابات کے بعد کون سی پارٹی جیتتی ہے، کیا اے آئی یوڈی ایف اس کو دیکھ‌کر اپنا رخ بدلے‌گی۔ اس پر اجمل بھڑک گئے اور کہا، ‘ تم کتنے کروڑ روپے دو‌گے؟ (غلط زبان ) … یہ صحافت ہے؟ تم جیسے لوگ صحافت کو بدنام کر رہے ہیں۔ یہ آدمی پہلے سے ہی ہمارے خلاف ہے۔ ‘

انڈین ایکسپریس کے مطابق، اجمل نے صحافی کو دھمکاتے ہوئے آگے کہا، ‘ وہ پوچھ رہا ہے کہ میں بی جے پی کو کتنے پیسے میں خود کو بیچوں‌گا؟ اس کے والد کو بیچ دیا جائے‌گا۔ یہاں سے جاؤ ورنہ میں تمہارا سر پھوڑ دوں‌گا۔ جاؤ اور میرے خلاف معاملہ درج کرو… (گالی) … عدالت میں میرے آدمی ہیں۔ تم ختم ہو جاؤ‌گے۔ تم نے پہلے بھی ایسا کیا ہے۔ ‘

اس کے بعد اجمل نے اور بھی غلط الفاظ کہے۔اس کے بعد انہوں نے دوسرے صحافی کا مائک چھین‌کر سوال پوچھنے والے صحافی کو مارنے کی کوشش کی۔ اس معاملے میں تنقید ہونے کے بعد بدرالدین اجمل نے ٹوئٹ کر کے معافی مانگ لی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘ میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون ہے اور میں نے ہمیشہ میڈیا اہلکاروں کی عزت کی ہے۔ منکاچر کا واقعہ انجانے میں ہوا اور میں اس کے لئے تمام متعلق  آدمیوں  سے معافی مانگتا ہوں۔’ متاثر صحافی کا کہنا ہے، ‘ وہاں لوگ اکٹھا ہو گئے اور مجھے پیٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مجھے معافی مانگنے کے لئے مجبور کیا گیا اور میں نے اپنی جان بچانے کے لئے ایسا کیا۔ میں نے پہلے ہی پرایف آئی آر  درج کروا دی ہے۔ ‘

2013 کے  ریاستی  پنچایت انتخابات میں، اے آئی یوڈی ایف 72 ضلع پنچایت سیٹوں کے ساتھ دوسری سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری تھی۔ حال ہی میں ہوئے آسام پنچایت انتخابات میں اے آئی یوڈی ایف کی یہ تعداد گھٹ‌کر 26 ہو گئی ہے۔ یہاں پارٹی نے بری طرح  سے کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)