خبریں

سال 2018 مذہبی تشدد کے لحاظ سے 10 سالوں میں سب سے برا رہا

گزشتہ سال بھی حالات کچھ زیادہ بہتر نہیں تھے۔اس وقت اس طرح کے تشدد میں29 لوگ مارے گئے تھے۔  لیکن گزشتہ  سال کے مقابلے  اس سال زخمیوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

فوٹو: رائٹرس

علامتی تصویر/فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی : فیکٹ چیکر ڈاٹ ان کی تازہ ترین رپورٹ ہندوستان میں بڑھتے ہیٹ کرائم  پر یوں روشنی ڈالتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، اس سال 26 دسمبر تک ملک میں مجموعی طور پر93 ایسے حملے ہو چکے ہیں، جن کے پس پردہ مذہبی نفرت اہم وجہ رہی ہے۔ان میں سے تقریباً75 فیصد معاملوں میں تشدد کا شکار ہونے والے لوگ اقلیتی طبقے کے  تھے۔یہ تعداد گزشتہ ایک دہائی میں سب سے زیادہ ہے۔  سال 2018 کے دوران اس طرح کے معاملوں میں 30 لوگوں کی موت ہوئی، جبکہ کم سے کم 305 لوگ زخمی ہوئے۔  2009 کے بعد سے یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔

گزشتہ سال بھی حالات کچھ زیادہ بہتر نہیں تھے۔اس وقت اس طرح کے تشدد میں29 لوگ مارے گئے تھے۔  لیکن گزشتہ  سال کے مقابلے  اس سال زخمیوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔  یہ تعداد گزشتہ  سال سے دوگنی ہے۔غور طلب ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت والے اتر پردیش میں ہوئے ہیٹ کرائم کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔  یوپی میں اس دوران ایسے27 حملے ہوئے۔  اس معاملے میں بہار کا دوسرا نمبر ہے، جہاں ان کی تعداد 10 ہے۔

گجرات، کرناٹک، راجستھان میں 7 ہیٹ کرائم کے معاملے سامنے آئے ۔  ساتھ ہی اتر پردیش اور راجستھان میں چار-چار لوگوں کو اپنی جان گنوانی پڑی ہے۔

اس دوران ہوئے 81 معاملوں میں متاثرین کے مذہب کی پہچان کی گئی تھی۔  ان میں 60 فیصد(49) معاملوں میں متاثرین  مسلمان تھے، جبکہ 14 فیصد معاملوں میں متاثرین  عیسائی تھے۔  ایک معاملے میں متاثر سکھ تھا۔  اس طرح سے 75 فیصد معاملوں میں اقلیتوں کو شکار بنایا گیا۔فیکٹ چیکر کے مطابق 25 فیصد معاملوں میں ہندوؤں کو شکار بنایا گیا تھا۔  فیکٹ چیکر نے 2009سے اب تک کے اعدادوشمار جمع کیے ہیں۔اس وقت  سے 2018 کے درمیان ایسے کل 280 معاملے سامنے آئے ہیں۔  جن میں 100 لوگوں کی موت ہوئی ہے اور 692 لوگ زخمی ہوئے ہیں۔

اگر شروع سے دیکھا جائے تو کل آبادی میں14 فیصد حصےداری رکھنے والے مسلمان 66 فیصد معاملوں میں متاثرین  تھے۔  جبکہ 2 فیصد حصےداری رکھنے والے عیسائی 17 فیصد معاملوں میں متاثرین تھے۔اس دوران 80 فیصد آبادی والے ہندو صرف 16 فیصد معاملوں میں اس طرح کے تشدد کے شکار ہوئے تھے۔  ایسے 11 فیصد معاملوں میں متاثرین  کے مذہب کی پہچان نہیں ہوئی۔

Hate Crime In 2018, By State

State wise Hate Crime in 2018

اس سال کل حملے63بار ہوئے، جبکہ حملہ آوروں کو متاثر ین کے مذہب کے بارے میں جانکاری تھی۔  اس میں سے 71 فیصد معاملوں میں مبینہ حملہ آور ہندو تھے۔  جبکہ 27 فیصد معاملوں میں مبینہ حملہ آور مسلمان تھے۔اگر مجموعی طور پر دیکھیں تو 2009 سے اب تک ہوئے 191 حملوں میں سے 156 معاملوں میں ملزم ہندو ہیں۔  جبکہ 89 معاملوں میں حملہ آوروں کی پہچان  ظاہر نہیں ہوئی ہے۔

فیکٹ چیکر کے تجزیے کے مطابق سال 2018 میں مذہب سے متاثر ایسے چار معاملوں میں فرقہ وارانہ تشدد ہوئے۔  ان میں سے 17 فیصد معاملوں میں مذہبی سوچ‌کی وجہ سے حملے ہوئے۔  جبکہ 15 فیصد معاملوں میں حملے گئو رکشا کے نام پر کئے گئے۔اس طرح کے 26 فیصد معاملوں میں پہلے سے کوئی پلان نہیں تھا۔یہ حملے مذہبی پہچان سے چھیڑچھاڑ اور چوری یا بدلے کے الزامات کی وجہ سے ہوئے۔

غور طلب ہے کہ 2009 سے اب تک گئورکشا کے نام پر 75بار حملے کئے گئے ہیں، جو اس طرح کے مجموعی حملوں کا 27 فیصد ہے۔  14 فیصد حملے بین مذہبی خاتون ومرد تعلقات کو لےکر ہوئے۔  وہیں 9 فیصد معاملے ایسے بھی رہے جہاں مذہب تبدیل کرنے کی وجہ سے حملے کئے گئے۔