فکر و نظر

پولیس اور رہنماؤں کی جوابدہی طے نہیں ہونے کی وجہ سے 84 اور 2002 جیسے فسادات دوہرائے جاتے ہیں

ہندوستان میں جمہوریت کا مستقبل اس بات پر منحصر کرتا ہے کہ یہ یقینی بنایا جائے کہ اس طرح کے سنگین جرائم بھلائے نہیں جائیں‌گے اور قصوروار کسی قیمت  پر نہیں بچیں‌گے۔

فوٹو: رائٹر

فوٹو: رائٹر

نومبر،1984 میں چار دنوں تک جاری تشدد میں تشددکرنے والےگروہوں کے ذریعے قومی راجدھانی میں پارلیامنٹ ہاؤس کے کچھ کیلومیٹر کے دائرے میں2733-غالباً اس سے زیادہ سکھوں کا قتل کر دیا گیا۔چار دنوں تک چلی اس مارکاٹ میں پولیس کی کسی نہ کسی صورت میں ملی بھگت تھی۔ چار دنوں تک افسران کرفیو لگانے سے انکار کرتے رہے۔چار دنوں تک اس وقت کی حکومت نے فوج کو تعینات نہیں کیا۔اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے کہا؛جب بڑا درخت گرتا ہے، تب زمین تھوڑی کانپتی ہی ہے۔

اس وقت دوردرشن اور آکاش وانی کو تو چھوڑ ہی دیجئے، اس قتل عام کامین اسٹریم میڈیا میں کوئی کوریج نہیں ہوا۔34 سال کے بعد، 17 دسمبر کو دہلی ہائی کورٹ نے 1984 کے سکھ مخالف فسادات میں سجن کمار کو قصوروار ٹھہریا۔ان کو قصوروار قراردیتے ہوئے ہائی کورٹ نے اس معاملے میں کانگریس رہنما کو بری کرنے کے نچلی عدالت کے فیصلے کو بدل دیا۔جسٹس ایس مرلی دھر اور ونود گوئل کی بنچ نے 1984کے قتل معاملوں کو ‘انسانیت کے خلاف جرم ‘کہا، جس کو سیاسی تحفظ حاصل لوگوں کے ذریعے انجام دیا گیا اور جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے غیر جانب دار رویہ نے مدد پہنچائی۔’

دہلی ہائی کورٹ نے ‘تشدد کو روکنے اور منضبط کرنے میں ناکام رہنے کے لئے ‘دہلی پولیس کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔  عدالت نے کہا، پولیس الگ الگ ایف آئی آر درج کرنے میں ناکام رہی اور پولیس کی روزانہ ڈائریوں میں کچھ بھی درج نہیں تھا۔ ‘پولیس اور ان کے رہنماؤں، یو پی ایس سی  کے ممبروں نے ان چار دنوں کے دوران کیا کیا اور وہ قتل عام کو انجام دینے والوں کو 34 سال تک شان سے کھلا گھومنے دینے میں کس طرح سے مدد گار ہو سکے؟

یہاں اس کی تفصیل ہے؛

ایک،یہ حقیقت ہے کہ پولیس کو 1 نومبر سے دہلی بھر میں ہو رہی مارکاٹ کی پوری جانکاری تھی، خود پولیس کے ذریعے درج ایف آئی آر میں ہی دستاویز کے طور پر موجود ہے۔

دو،1 نومبر، کی صبح دہلی پولیس کے ایک ریڈیو حکم نے تمام سکھ پولیس افسروں کو اپنے ہتھیار جمع کرا دینے اور کام سے چھٹی لینے کی ہدایت دی گئی۔جب وہ پولیس اسٹیشن چھوڑ‌کر نکلے، ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ ایک ہولوکاسٹ میں داخل ہو رہے ہیں، ‘… کچھ اپنے گھروں کو جانے والے راستے میں مار ڈالے گئے اور کچھ بعد میں اپنی فیملیوں کے ساتھ۔ ‘

29 سالوں کے بعد کوبراپوسٹ نے 1984 کے تشدد کی جانچ پر ‘ چیپٹر 84 ‘کا نشرکیا، جس میں دہلی پولیس کے 8 سابق افسروں نے بتایا کہ ‘کیسے انہوں نے اوپر سے آئے حکم کے مطابق کام کیا تھا ‘، جو اس وقت کی کانگریس حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرنے والا تھا۔

 سجن کمار (فوٹو : پی ٹی آئی)

سجن کمار (فوٹو : پی ٹی آئی)

تین، چشم دید گواہوں کے مطابق پولیس نے سکھوں سے ہتھیار جمع کروا کر ان کو اپنی حفاظت کرنے سے روکا۔  اس کے بعد انہوں نے گروہوں کو حملہ کرنے کی اجازت دی۔ پولیس نے سکھوں کو باہر نکالنے کے لئے منایا اور اس کے بعد ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ان کا قتل ہوتے دیکھتی رہی۔

ایک بیان کے مطابق ایک پولیس افسر کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا،تمہارے پاس اپنے من مطابق کرنے کے لئے 36 گھنٹے ہیں۔ ‘بعد میں دہلی فائر سروس نے یہ شکایت کی کہ پولیس نے آگ زنی والے مقامات تک اس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا تھا۔

چار،حکومت کے ذریعےسی آر پی ایف اوربی ایس ایف کے نیم فوجی دستوں کی تعیناتی کے اعلان کے باوجود وہ کہیں موجود نہیں تھے۔  نظام الدین پولیس اسٹیشن کے ڈیوٹی افسر نے بتایا، میں نے ہر دس منٹ میں سی آر پی ایف اور بی ایس ایف کے کنٹرول روم میں فون لگایا، لیکن ہر بار مجھے کہا گیا کہ وہ کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔ ‘

پانچ، سب کچھ پورے اطمینان کے ساتھ کیا جا رہا تھا-قتل، آگ زنی اور لوٹ پاٹ۔  آؤٹ لک کی ایک رپورٹ کے مطابق :

شراب پانی کی طرح بہہ رہی تھی، اپنے اسٹول پر بیٹھی’چوکنی’پولیس کو چائے پروسی جا رہی تھی، چٹکلوں کا دور چل رہا تھا، چاروں طرف ٹہاکا اور مزے کا ماحول تھا، ٹرک کے ٹرک آتے تھے اور ان میں لوٹ کا مال بھر‌کر ان کو بنا کسی جلدبازی کے محفوظ جگہوں کی طرف بھیج دیا جاتا تھا-سوٹ بوٹ والے آدمیوں سے بھری کاریں کچھ دیر کے لئے یہ دیکھنے آتیں کہ سب اسکیم کے مطابق چل رہا ہے کہ نہیں۔ ‘

چھے،یہ سازش اتنی بڑی تھی کہ ترلوک پوری کے بلاک 32 کے قتل عام کی خبر کے باہر آنے میں 36 گھنٹے کا وقت لگا، جبکہ یہ دہلی پولس صدر دفتر سے بمشکل 10 کیلومیٹر کی دوری پر تھا۔  لیکن صرف کچھ پولیس افسر، جن میں ایک میکس ویل پریرا تھے، متاثرین کے لیے کھڑے ہوئے۔

باقی کے اعلیٰ افسر حکمراں جماعت کے سامنے سرنگوں ہو گئے اور پولیس مشینری کو ایڈمنسٹریٹیوطور سے جام کر دیا۔  آمود کنٹھ کو تو بہادری کا انعام تک عطا کیا گیا، جبکہ رنگناتھ مشرا کمیٹی نے یہ تنقید کی تھی کہ وہ پولیس اہلکار ہونے کے لائق نہیں تھے۔

(فوٹو : رائٹرس)

(فوٹو : رائٹرس)

سات، کچھ جگہوں پر’پولیس نے سکھوں کی لاشوں کو ٹرکوں میں بھر‌کر ہٹوا دیا’، تاکہ ثبوت تباہ کیا جا سکیں۔  2 نومبر کی آدھی رات سے 4 بجے صبح تک، جیسا کہ دہلی کے سب سے زیادہ متاثر ہ  علاقہ ترلوک پوری کے بلاک 29 کے 37 سالہ باشندہ تیجندر سنگھ نے بتایا، ‘پولیس نے بلاک 30 اور 32 کے سکھوں کی لاشوں کو ٹرکوں میں بھر‌کے ہٹایا۔ میں نے پولیس کو ایسے آٹھ ٹرک لے جاتے ہوئے دیکھا۔ ‘

ویڈیو : سکھ مخالف فسادات (1984) : ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے کمپینر کے ساتھ بات چیت

پولیس کے علاوہ کانگریس پارٹی کو عدلیہ کے اندر بھی کچھ حامی مل گئے۔اس وقت سپریم کورٹ کے جج رنگناتھ مشرا، جو چاہتے تھے کہ لوگ بھول جائیں کہ 1984 میں کیا ہوا تھا، 1990 میں ہندوستان کے چیف جسٹس بنائے گئے اور اس کے بعد نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے پہلے صدر اور اس کے بعد کانگریس پارٹی کی طرف سے 1998سے2004 تک راجیہ سبھا رکن پارلیامان بنائے گئے۔  یہ ایک قومی شرم کی بات ہے۔

کیا آزاد ہندوستان میں کانگریس اکلوتی سیاسی پارٹی ہے، جس کا سڑکوں پر عام لوگوں کے قتل میں کردار رہا ہے؟  کیا یہ وہ اکلوتی پارٹی ہے جس کے ہاتھ خون سے سنے ہوئے ہیں؟  کیا نومبر، 1984 واحد مثال ہے، جب حکمراں جماعت نے اپنے حامیوں کو کھلی چھوٹ دی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہاتھ پر ہاتھ تھامے بیٹھنے کی ہدایت دی۔

اس کا جواب ہے، نہیں۔

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

ضرورت ہے کہ ہندوستان کے معمار پولیس اور پولیس کی قیادت کرنے والوں کی غلطیوں اور جرائم کے لئے جوابدہی طے کریں۔بار بار ہو رہے ایسے واقعات، جن میں عام لوگ جان گنواتے ہیں، کے ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زیادہ تر وقت ان فرقہ وارانہ بھیڑ کے رہنماؤں کا بال بھی بانکا نہیں ہوتا۔ہندوستان کا آئین جتنی ذمہ داری اورباقاعدہ طور پر عام انتخابات کرانے کو لےکر ہے، اتنی ہی ریاست کی مشینری-نوکرشاہی، پولیس، فوج وغیرہ-کو عوام کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرنے کے متعلق جواب دہ بنانے کو لےکر بھی ہے اور یہ جوابدہی اس کی رسمی قانونی تعریف تک ہی محدود نہیں ہے۔

 جمہوریت کے طور پر ہندوستان کا مستقبل ایک بڑے عزم پر منحصر کرتا ہے کہ ایسے گھناؤنے جرائم کو کبھی بھلایا نہیں جائے‌گا اور قصوروار کبھی بچ نہیں پائیں‌گے۔یہ ایک بڑے ہندو آبادی والے ملک میں مذہبی اقلیتوں کے لئے موجود خطرات کا معاملہ نہیں ہے-1984 اصل میں یہ دکھاتا ہے کہ کوئی عام انسان ایسی حالت میں کتنا غیر محفوظ ہو سکتا ہے، جب اس کو ایسے گروہ کا حصہ مان لیا جائے، جس کو ‘سبق سکھائے جانے کی ضرورت ہے۔ ‘1984 کے نومبر میں دہلی اور ملک کے دوسرے حصوں میں سکھ کمیونٹی کے ساتھ جو ہوا، وہ کسی بھی وقت کسی کے بھی ساتھ ہو سکتا ہے۔ ایسا ہم 2002 کے گجرات فسادات کے وقت دیکھ بھی چکے ہیں۔

(بسنت رتھ 2000 بیچ کے جموں و کشمیر کیڈر کے آئی پی ایس افسر ہیں۔)