خبریں

کیا انفارمیشن کمیشن ریٹائرڈ نوکرشاہوں کی آرام گاہ بنتا جا رہا ہے؟

مودی حکومت نے 4 نئے انفارمیشن کمشنر کی تقرری کی ہے۔ چاروں لوگ ریٹائر نوکر شاہ ہیں۔  ان چار  انفارمیشن کمشنر  کی تقرری کے بعد ابھی بھی سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں چار عہدے خالی ہیں۔

فوٹو: بہ شکریہ وکی پیڈیا

فوٹو: بہ شکریہ وکیپیڈیا

نئی دہلی: سخت تنقید اور سپریم کورٹ کی ہدایتوں کے بعد مرکز کی مودی حکومت نے سینٹرل انفارمیشن کمیشن (سی آئی سی)میں چار نئے انفارمیشن کمشنر  کی تقرری کی ہے۔  وہیں کمیشن کے سینئر انفارمیشن کمشنر  سدھیر بھارگو کو  چیف انفارمیشن کمشنر  بنا دیا گیا ہے۔ لائیو لاء کے مطابق صدر رام ناتھ کووند نے سابق آئی ایف ایس افسر یشوردھن کمار سنہا، سابق آئی آر ایس افسر ونجا این سرنا، سابق آئی اے ایس افسر نیرج کمار گپتا اور سابق لاء سکریٹری سریش چندر کی انفارمیشن کمشنر  کے طور پر تقرری کو منظوری دی۔

 یشوردھن کمار سنہا برٹن میں ہائی کمشنر رہے ہیں۔  وہیں آئی آر ایس افسر ونجا این سرنا مرکزی مصنوعات اور کسٹمز بورڈ کی چیئرپرسن رہی ہیں۔  اس وقت سی آئی سی میں واحد خاتون انفارمیشن کمشنر  ونجا این سرنا ہوں‌گی۔  نیرج کمار گپتا وزارت خزانہ میں محکمہ سرمایہ کاری  میں سکریٹری رہے ہیں اور سریش چندرسابق لاء سکریٹری رہے ہیں۔این ڈی ٹی وی کے مطابق یہ چاروں افسر اسی سال ریٹائر ہوئے ہیں۔  سریش  چندر وزیر خزانہ ارون جیٹلی کے پرسنل سکریٹری بھی رہے ہیں۔

گزشتہ مہینے  چیف انفارمیشن کمشنر  آر کے ماتھر اور انفارمیشن کمشنر  شری دھر آچاریہ لو، یشووردھن آزاد اور امیتاو بھٹاچاریہ کے حال ہی میں ریٹائرڈ ہو جانے کے بعد سی آئی سی میں صرف تین انفارمیشن کمشنر تھے۔آر ٹی آئی قانون کے مطابق سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں کل 11 عہدے ہیں۔  ان چار انفارمیشن کمشنر  کی تقرری کے بعد ابھی بھی سی آئی سی میں چار عہدے خالی ہیں۔اس مہینے کی شروعات میں ہی سپریم کورٹ نے مرکز کو سی آئی میں خالی عہدوں کو بھرنے کی کارروائی  جلد سے جلد شروع کرنے کی ہدایت دی تھی۔

جسٹس اے کے سیکری، جسٹس ایس عبدالنذیر اور جسٹس آر سبھاش ریڈی کی بنچ نے مرکز کے ساتھ ساتھ ریاستوں کو بھی ہدایت دی تھی کہ وہ شارٹ لسٹ کئے گئے امیدواروں سے متعلق اطلاع اور سی آئی سی کے ساتھ ساتھ ریاستی اطلاعات میں تقرری کے لئے اپنائے گئے معیارات سے متعلق جانکاری اپنی اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کریں۔

حالانکہ مودی حکومت کے ذریعے ان تقرری کو لےکر اطلاع کے حق کے لئے کام کرنے والے کارکن انتخاب کے عمل پر سوال اٹھا رہے ہیں۔  الزام ہے کہ اس انتخاب میں شفافیت نہیں برتی گئی ہے۔آر ٹی آئی کو لےکر کام کرنے والے سترک ناگرک  تنظیم اور این سی پی آر آئی کی ممبر انجلی بھاردواج نے کہا،  حکومت شفافیت کو یقینی بنانے والے ادارے میں لوگوں کی تقرری کر رہی ہے لیکن یہ سب خفیہ طریقے سے ہو رہا ہے۔  سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ حکومت انتخابی عمل سے متعلق تمام جانکاری اپنی ویب سائٹ پر ڈالے، لیکن ابھی تک ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے۔  ‘

اس بات کو بھی لےکر سوال ہے کہ حکومت صرف سابق نوکرشاہوں کا ہی انتخاب کر رہی ہے جبکہ آر ٹی آئی قانون میں لکھا ہے کہ کل آٹھ شعبوں سے انفارمیشن کمشنر  کا انتخاب ہونا چاہیے تاکہ تنوع بنا رہے۔آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 12 (5) معززشخصیتوں کے انتخاب کی بات کرتی ہے جس میں لکھا ہے کہ قانون، سائنس اور ٹکنالوجی، سماجی خدمت، ایڈمنسٹریشن، صحافت، میڈیا، یا حکومت کے شعبوں سے لوگوں کی تقرری بطور انفارمیشن کمشنر  کی جانی چاہیے۔

اس پر بھاردواج نے کہا، ‘ہم ایسا نہیں کہہ سکتے کہ تمام نوکرشاہ برے ہوتے ہیں۔  لیکن قانون میں اگر آٹھ شعبوں کا ذکر ہے تو ان تمام شعبوں سے لوگوں کا انتخاب کیا جانا چاہیے۔  ایسا اس لئے نہیں ہو پا رہا کیونکہ حکومت انتخاب خفیہ طریقے سے کر رہی ہے۔  ‘آر ٹی آئی کے تحت انفارمیشن کمیشن اطلاع پانے سے متعلق معاملوں کے لئے سب سے بڑا اورآخری ادارہ ہے، حالانکہ انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں چیلنج دیا جا سکتا ہے۔سب سے پہلے امید وار سرکاری محکمے کے پبلک انفارمیشن افسر کے پاس درخواست دیتا ہے۔

اگر 30 دنوں میں وہاں سے جواب نہیں ملتا ہے تو امید وار فرسٹ اپلی کیشن  افسر کے  پاس اپنی درخواست بھیجتا ہے۔ اگر یہاں سے بھی 45 دنوں کے اندر جواب نہیں ملتا ہے تو امید وار سینٹرل انفارمیشن کمیشن یا ریاستی انفارمیشن کمیشن کی پناہ لیتا ہے۔لیکن ملک بھر‌کے انفارمیشن کمیشن کے حالات بےحد خراب ہیں۔عالم یہ ہے کہ اگر آج کے دن انفارمیشن کمیشن میں اپیل ڈالی جاتی ہے تو کئی سالوں بعد سماعت کا نمبر آتا ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کمیشن میں کئی سارے عہدے خالی پڑے ہیں۔