ادبستان

سال 2018: دی وائر اردو ٹیم کی پسندیدہ اسٹوریز

سال 2018گزرچکا ہے اور ہم ایک نئے سال میں داخل ہورہے ہیں۔گزشتہ ایک سال میں دی وائر اردو نے 2ہزار 600سے زائد اسٹوریز شائع کی ۔ان تما م اسٹوریز کو آپ کے سامنے پھر سے پیش کرنا محال ہےلیکن یہاں 12  ایسی اسٹوریز جو کہ دی وائر اردو ٹیم کو پسند آئیں وہ مع اقتباسات قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہیں ۔ہماری ٹیم کی طرف سے آپ کو نئے سال کی مبارباد۔ادارہ

TWU_BestOf2018

مجھ سے بڑا شاعر نہ ہوگا جامعی ، ہند وپاکستان میں اور نہ قبرستان میں

ویڈیو: کسی زمانے میں فخر بہار میں کہے جانے والے طنز ومزاح کے معروف شاعر اسرار جامعی ان دنوں ناسازگار حالات میں زندگی گزارنے کو مجبور ہیں۔

ہمیں واجپائی کے بنا ’مکھوٹے‘ والے اصلی چہرے کو نہیں بھولنا چاہیے

نریندر مودی جیسے ہی ناشائستہ انداز میں یہاں ہم واجپائی کو نیوٹن کی رفتار کے تیسرے اصول کا ان کا اپنا ایڈیشن پیش کرتے ہوئے پاتے ہیں۔ اس میں سیکڑوں بےقصور لوگوں کے قتل کے لئے کوئی ندامت نہیں ہے۔اپنے شہریوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہنے کے لئے کوئی معافی مانگنے کی پوزیشن نہیں ہے۔ وہ گودھرا حادثہ کو انجام دینے والے مجرموں اور ‘ گجرات میں اس کے بعد گزرے المیہ ‘ کے معصوم شکاروں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے ہیں۔  ان کے لئے مسلمان بے پیکر، بنا کسی فرق والے گروہ ہیں، جو آگ لگانے کا کام کرتے ہیں۔  ان کے مطابق قصور مسلمانوں کا تھا، نہ کہ ان کی پارٹی کے لوگوں کا جنہوں نے ‘ بعد کے واقعات ‘ میں کردار ادا کئے۔

خاص رپورٹ:بہارمیں رام نومی کی یاترا کے لیے کس نے دیں تلواریں؟

تلواروں کی سپلائی کو لےکر چھان بین میں پتا چلا ہے کہ اس کی تیاری کافی پہلے سے ہی کی جا رہی تھی۔ آن لائن ہزاروں کی تعداد میں تلواریں ایڈوانس میں ہی خریدی گئی تھیں۔یہاں ایک سوال اٹھ سکتا ہے کہ کیا واقعی آن لائن تلوار خریدنا اتنا آسان ہے کہ کوئی بڑی تعداد میں اس کو خرید سکتا ہے؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب ہے ہاں، آن لائن اس کو آسانی سے خریدا  جا سکتا ہے۔ گراہک اور دکاندار کے درمیان رابطہ کرانے والے آن لائن پلیٹ فارم پر جاکر اگر یہ ظاہر کر دیں کہ آپ کو تلوار خریدنی ہے، تو ویب سائٹ کی طرف سے درجنوں تلوار بیچنے والی کمپنیوں کے نمبر دستیاب کرا دئے جائیں‌گے۔ آپ جہاں چاہیں‌گے، یہ کمپنیاں وہاں تک تلواریں کوریئر سے پہنچا دیں‌گی۔

Hindu-Putra-News-Laundry

جو آج ’اینٹی نیشنل‘ کا تمغہ بانٹ رہے ہیں، کبھی وہ ’غدار وطن ‘ ہوا کرتے تھے

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) ایمرجنسی کی مخالفت میں اترنے  کا دعویٰ کرتا ہے اور یہ تشہیر کرتا ہے کہ ا س کے ممبروں نے گرفتاریاں دی تھیں۔ لیکن ایسے دعووں کے لئے پختہ ثبوتوں کی کمی ہے، کیونکہ اخباروں کو ہڑتال اور جلوسوں کی خبر کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ دوسری طرف ایسے دعوے بھی ہیں، جو سنگھ کے ایسے کسی کردار کو سرے سے مسترد کردیتے ہیں۔ خود سبرامنیم سوامی نے سال 2000 میں لکھا تھا کہ ‘ بی جے پی / آر ایس ایس کے زیادہ تر رہنماؤں نے ایمرجنسی کے خلاف جدو جہد کے ساتھ غداری کی تھی۔ ‘ اور ‘ ملک کے ظالموں کے لئے کام کرنے کی پیشکش کی تھی۔ ‘

کیا وزیر اعظم کے رمضان والے ٹوئٹ میں یہ پیغام ہے کہ اردو دراصل مسلمانوں کی زبان ہے؟

اس طرح کیا مسلمانوں کو مبارک باد دینے کے لیے اردو کا انتخاب کسی سیاسی پس منظر کی داستان نہیں سناتا؟مبارک باد کسی بھی زبان میں دی جا سکتی تھی۔ لیکن خاص طور پر اردو کا انتخاب یہ پیغام  دیتا ہے کہ ’اردو مسلمانوں کی زبان ‘ہی نہیں اسلامی زبان بھی ہے۔گویا وزیراعظم نے بھی اردو کی اسٹیریوٹائپنگ میں وہی رول ادا کیا ہے جو عام طور پر لوگوں کے ذہن میں ہے۔کیا وزیر اعظم اتنے معصوم ہیں، کیا انھیں  نہیں معلوم کہ ان کا یہ ٹوئٹ عوام میں ایک  پیغام دے گا؟

MadhuMasuri_Jharkhand

جھارکھنڈ : جب مدھو منصوری کا گیت سن‌کر ایک دوشیزہ نے گنوائی تھی اپنی جان…

مدھو منصوری جھارکھنڈ کی وہ شخصیت ہیں  جنہوں نے دو ہزار سے بھی زیادہ لوک گیت گایا اور لکھا ہے۔ انہوں نے مردانی جھومر، انگنئی  (زنانی جھومر)، پاوس، اداسی، پھگوا جیسے راگ میں سینکڑوں ششٹ اور ٹھیٹ ناگپوری گیت گائے ہیں، جس میں جھارکھنڈ کی  تہذیبی  وراثت کو سمیٹا اور دکھایا گیا ہے۔ جھارکھنڈ تحریک میں بھی سب سے زیادہ  گیت گانے کا ریکارڈ بھی انہی کے نام بتایا جاتا ہے۔

گھریلوخادماؤں کے ساتھ ہو نے والا برتاؤ سماج کے مکروہ چہرے کی گواہی ہے…

ہر گھر میں موجود ان خواتین ملازمین پر تب تک کوئی بات نہیں کی جاتی، جب تک کسی روز یہ اخبار کی کسی ہیڈلائن میں جگہ نہیں پا جاتیں۔قومی راجدھانی دہلی اس معاملے میں بھی آگے ہے۔وجہ شاید یہاں کے واقعات کا  نسبتاً جلدی خبر بن جانا ہو یا یہاں باہری ریاستوں سے آکر رہ رہی ایک بڑی آبادی کا گھریلو ملازم کے طور پر ذریعہ معاش کمانا ہے، لیکن ہر دو چار مہینے پر کسی نہ کسی گھر سے گھریلو خاتون ملازم پر ظلم کی بات سامنے آ ہی جاتی ہے۔

ScienceExibition

عوامی تعلیمی تحریک کی جانب ایک قدم – تامل ناڈو سائنس فورم اور سائنسی تعلیم

فورم نے مختلف علوم کو آپس میں جوڑ کر اپنے اطراف کی دنیا کو سائنسی نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی۔مثال کے طور پر باورچی خانے میں پکانے کو مختلف مروج علوم سے مربوط کرتے ہوئے دیکھاگیا۔ جیسےحساب(چیزوں کو تولنے اور تناسب نکالنے کیلئے)، حفظان صحت(پاکی و صفائی)، غذائیت، کیمیاء(پکانےسے متعلق)، توانائی(ہمہ اقسام کے سٹو اور پکانے کے طریقے)،  طبیعات اور ٹکنالوجی(پکانے کے دوران استعمال ہونے والے آلے جیسے چاقو وغیرہ) ۔ یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ”پکاتا کون ہے؟”۔ ایسا کیوں ہے کہ صرف خواتین ہی باورچی خانے کی صعوبتیں برداشت کرتی ہیں ؟

ویڈیو:مکتبہ جامعہ والے شاہد علی خان کی زبانی ادیب و فن کار کی کہانی

ویڈیو:مکتبہ جامعہ والے شاہد علی خان کی زبانی سنیے مکتبہ پر جمع ہونے والے ادیب و فن کار کے دلچسپ قصے اور مکتبہ کی خدمات۔

گراؤنڈ رپورٹ : صفائی ملازم سیویج میں اترنے کے لیےکیوں مجبور ہیں؟

سیور میں اتر‌کے اس طرح جان گنوانے کا واقعہ ملک کی راجدھانی میں پہلی بار نہیں ہوا ہے۔پچھلے ایک سال کے اندر ہی اس طرح کے حادثے میں کم سے کم 15 لوگوں کی موتیں ہوئیں۔وہیں پورے ملک کا اعداد و شمار دیکھیں تو حال ہی میں11موتیں ہوئی ہیں۔پچھلے 5-6 سالوں میں ملک بھر میں1876 لوگوں کی جان گئیں۔

علامتی تصویر/ فوٹو : رائٹرس

علامتی تصویر/ فوٹو : رائٹرس

آن لائن ڈیٹا تحفظ  قانون سے واقفیت کیوں ضروری ہے؟

ڈیٹا تحفظ کو لیکر ملک میں سب سے زیادہ اہم قانون انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ 2000 ہے۔ لیکن مجموعی طور پر یہ قانون ڈیٹا تحفظ پر ایک مکمل کوڈ ہونے سے بہت دور ہے۔ ڈیٹا تحفظ کے لحاظ سے اس قانون کی دفعہ43اے  سب سے اہم ہے۔ اس کے تحت ہر “باڈی کارپوریٹ” یعنی ہر درج شدہ کمپنی پر یہ ذمہ داری عائد ہے کہ وہ  لوگوں سے لئے گئے  “حساس ذاتی ڈیٹا” کا استعمال کرتے وقت “مناسب حفاظتی طریقہ کار ” کو عمل میں لائے۔

Sachar

انصاف کے لیے لڑنے والے جسٹس سچر تاریخ میں امر رہیں گے

سرکاری نوکریوں میں مسلمان محض 5فیصد ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد جیلوں اور بھکاریوں میں ان کی آبادی کی شرح کے حساب سے زیادہ دیکھی گئی، جبکہ بقیہ تمام معاشی اور تعلیمی اشاریوں میں ان کی حالت ہندو کے انتہائی پسماندہ طبقوں سے بھی بد تر پائی گئی۔مجھے یاد ہے کہ رپورٹ پیش کرنے کی تقریب وزیر اعظم ہاوٰس میں منعقد ہورہی تھی۔ وزیر اعظم کے دفتر کے سبھی افسر اور قومی سلامتی کے مشیر موجود تھے، البتہ کابینہ کے سیکرٹری بی کے چتر ویدی کی غیر حاضری سبھی کو کھٹک رہی تھی۔ بعد میں اکثر افسروں نے دبے لفظوں میں بتایا کہ بیوروکریسی کے سرتاج چتر ویدی اس رپورٹ کے مندرجات سے ناخوش ہیں۔ اس کا برملا اظہار انہوں نے اگلے روزکمیٹی کے آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی سید ظفر محمود کو بلا کر کیا۔