فکر و نظر

تین طلاق: صرف مسلم نہیں، بیویوں کو چھوڑنے والے تمام شوہروں کو جرم کے دائرے میں لانا چاہیے

پچھلی مردم شماری کے مطابق ملک میں20 لاکھ سے زیادہ خواتین اپنے شوہر سے الگ رہتی ہیں، جنہیں چھوڑدیا گیا ہے۔ایسا قانون آنا چاہیے جس سے نہ صرف مسلم بلکہ اس طرح بیویوں کو چھوڑ دینے والے تمام شوہروں کو سزا مل سکے۔

علامتی تصویر : رائٹرس

علامتی تصویر : رائٹرس

جمعرات کی شام کو لوک سبھا میں منظور تین طلاق کو جرم بنانے والے قانون کو لےکر چلی بحث ایک معمولی سوال کے اردگرد گھومتی رہی ہے؛ سوال یہ ہے کہ جب شادی ایک دیوانی قرار ہے اور عدالت عظمیٰ نے پہلے ہی فوری تین طلاق کو غیر قانونی قرار دیا ہےتو کسی آدمی کو اپنی بیوی کو قانون کے ذریعے ناقابل قبول ٹھہرا دئے گئے طریقے سے طلاق دینے کی کوشش کرنے کے لئے سزا دینے کی ضرورت کیا ہے؟

ایک سطح پر اس کا جواب آسان ہے۔ ہندوستانی فیملی لاء طلاق کی اجازت دیتے ہیں لیکن وہ شوہر کو طلاق کا ضابطہ پورا کئے بغیر بھی شادی سے باہر نکل جانے کی چھوٹ دیتے ہیں۔ اور یقینی طور پر یہ صحیح نہیں ہے۔

آخری مردم شماری(2011)کے مطابق ہندوستان بھر میں23.7 لاکھ عورتیں اپنی شناخت ‘الگ رہ رہی ہیں’کے طور پر کرتی ہیں۔ ہمارے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ یہ عورتیں اپنے شوہروں سے اپنی خواہش سے الگ ہوئیں یا ان کو یکطرفہ طریقے سے چھوڑ دیا گیا تھا، یا اس سے بھی خراب، کیا ان کو اپنے سسرال سے  نکال دیا گیا تھا۔

ان میں بھی ایک بڑی اکثریت19 لاکھ ہندو عورتوں کی ہے۔ کل ‘الگ رہ رہی’مسلم عورتوں کی تعداد 2.8 لاکھ ہے۔

مسلم خاتون (شادی سے متعلق حقوق کی حفاظت)بل کے اہم نکات اس طرح ہیں :

آرٹیکل3 مسلم شوہر کے ذریعے لفظی طور پر، چاہے زبانی یا تحریری یا الکٹرانک شکل میں یا کسی بھی دوسرے طریقے سے، اپنی بیوی کو طلاق دیا جانا غیر قانونی/ناقابل قبول اور غیر قانونی ہوگا۔

آرٹیکل4 کوئی مسلم شوہر، جو اپنی بیوی کو آرٹیکل 3 میں بیان شدہ طریقے سے طلاق دیتا ہے، اس کو تین سال تک کی قید کی سزا دی جائے‌گی ساتھ ہی اس پر جرمانہ بھی لگایا جائے‌گا۔

جب تک فوری طلاق کی اجازت تھی،یہ بنیادی طور پر مسلم شوہروں کے پاس اپنی بیوی کو گھر سے باہر نکال پھینکنے اور اپنی زندگی کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کا راستہ بنانے والا تھا۔ یہ ظلم  ہونے کے ساتھ ساتھ غیرمنصفانہ بھی تھا اور مسلم عورتوں نے اس قابل مذمت اہتمام سے آزادی پانے کے لئے مہم چلائی۔

حالانکہ،2017 میں سپریم کورٹ نے مسلم فیملی لاء کے تحت فوری تین طلاق کو طلاق کے ایک طریقے کے طور پر ناقابل قبول اور غیر قانونی قرار دیا، لیکن یہ دلیل دی گئی کہ بدنیتی سے بھرا کوئی مسلم شوہر اب بھی اس غیر قانونی عمل کا استعمال اپنی بیوی کو دھونس دکھانے کے لئے اور اس کو گھر سے باہر نکال پھینکنے کے لئے کر سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ٹیونیشیا اور مصر جیسے ممالک نے شوہر کے ذریعے طلاق کے قانونی عمل کو خرابی بتانے کی کوشش کو جرم اعلان کر دیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اصل میں غیر قانونی طریقے سے چھوڑ دینے کا خطرہ تو ایک دم حقیقی ہے، لیکن مودی حکومت کا حل  غلط سوچ پر مبنی ہے۔

مذہبی پولرائزیشن کو ہوا دینے کے مقصد سے اس ڈرافٹ بل میں کافی صاف دکھائی دینے والی کئی کمیاں ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کا مقصد جنسی انصاف نہیں ہے :

اپنی بیوی کو بنا تین بار طلاق بول‌کر گھر سے نکال دینے والے مسلم شوہر کو کسی قانونی کارروائی کاسامنا نہیں کرنا پڑے‌گا۔ اور چھوڑی گئی بیوی کے لئے جن حفاظتی تدبیروں کا بل میں اہتمام کیا گیا ہے، وہ اس کو حاصل نہیں ہوں‌گے۔

TripleTalaq

دوسرے لفظوں میں ایک بار جب یہ قانون منظور ہو جاتا ہے، ایک گھٹیا مسلم شوہر، جو اپنی بیوی کو چھوڑ دینا چاہتا ہے، آسانی سے وہی راستہ اپنائے‌گا جو اس کے جیسا کوئی گھٹیا ہندو، عیسائی، جین یا سکھ شوہر اپناتا ہے-اپنی بیوی کو سسرال سے باہر نکال دینے کا راستہ۔

وہ اس کو کوس سکتا ہے، اس کو گالی دے سکتا ہے، اس کو کہہ سکتا ہے کہ شادی ٹوٹ گئی ہے اور یہ کہ اس کو اس سے (شوہر سے)کسی پیسے کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ لیکن جب تک وہ طلاق کے لئے عربی کے تین غیر قانونی لفظ اپنا منھ سے نہیں نکالے‌گا، وہ جیل جانے سے بچا رہے‌گا۔

ہندو شوہروں کے لئے بھی، جو کسی دن اپنی بیوی کے سامنے طلاق کی طےشدہ عمل سے گزرے بنا شادی توڑ دینے کا اعلان کر دیتا ہے اور اس کو گھر سے باہر نکل جانے کے لئے کہہ دیتا ہے، قانون میں کچھ ایسا ہی انتظام ہے۔

اگر اس کو کوئی گھٹیا مذاق کرنے کا دل ہوا تو وہ اس کو گھر کے دروازے سے باہر نکالتے ہوئے طلاق، طلاق، طلاق کہہ‌کر طعنہ بھی مار سکتا ہے۔ مگر اس پر کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوگی۔

یقینی طور پر اب قانون کی کتابوں میں اس طرح کے بےتکے متضاد قانون کے لئے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے، خاص طور پر تب جب معمولی ڈرافٹنگ سے اس کا حل نکالا جا سکتا ہے۔

حالانکہ، مودی حکومت اس کو اس کی موجودہ شکل میں ہی راجیہ سبھا سے بھی منظور کرانے پر آمادہ ہے، میں اس قانون کا نام بدل‌کر اس کو ہندوستانی خاتون (شادی سے متعلق حقوق کی حفاظت)بل کرنے کی تجویز پیش کرتاہوں۔ساتھ ہی میری تجویز ہے کہ آرٹیکل 3 اور 4 کی اس طرح ترمیم  کی جائے :

آرٹیکل 3کسی شوہر کے ذریعے اپنی بیوی کو متعلقہ فیملی قانون میں بیان شدہ طریقے سے الگ کسی دیگر طریقے سے طلاق دینے یا اس سے الگ ہونے کی کوشش ناقابل قبول اور غیر قانونی ہوگی۔

آرٹیکل4 اگر کوئی شوہر آرٹیکل 3 میں بیان شدہ طریقے سے اپنی بیوی سے الگ ہونے یا اس کو طلاق دینے کی کوشش کرتا ہے، تو اس کو تین سال تک کی قید کی سزا ہوگی اور جرمانہ بھی دینا ہوگا۔

باقی کے ڈرافٹ کو اسی طرح سے ترمیم کی جا سکتی ہے، تاکہ حکومت اتنے کھلےدل سے جو حقوق مسلم بیویوں کو دینا چاہتی ہے، وہ بنا کسی مذہبی جانبداری کے تمام چھوڑ دی گئیں ہندوستانی بیویوں کو مل سکیں۔

اس میں اضافی قوت عطاکرنے کے لئے اس قانون کو پیچھے کی تاریخ سے بھی نافذ کیا جا سکتا ہے اگر اس کو آئین کے آرٹیکل 20 (1) کے آس پاس رکھنے کا کوئی طریقہ مل جائے۔

یہی سب کا ساتھ، سب کا وکاس کا اصل مطلب ہوگا اور 23 لاکھ عورتیں جن کو الگ کئے جانے اور اس سے بھی بدتر تکلیف سے گزرنا پڑا ہے، وہ آخرکار تھوڑے انصاف کی امید کر سکتی ہیں۔ کیا نریندر مودی اور ان کے وزیر اس کے لئے تیار ہیں؟