خبریں

وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پر فسادات کی جانچ رپورٹ موجود نہیں، سی آئی سی نے جانکاری دینے کو کہا

آر ٹی آئی کے تحت ملک میں 1961 سے 2003 کے درمیان ہوئے مختلف فسادات کے بارے میں13جانچ یاجوڈیشل  کمیشن کی رپورٹ کے بارے میں جانکاری مانگی گئی تھی۔  وزارت داخلہ کے افسروں نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس فسادات سے جڑی رپورٹ نہیں ہے۔

 (فوٹو بشکریہ: ٹوئٹر)

(فوٹو بشکریہ: ٹوئٹر)

نئی دہلی: سینٹرل انفارمیشن کمیشن نے ہوم سکریٹری کو ہدایت دی ہے کہ 1961 سے ملک میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات پر 13 جانچ کمیشن کی رپورٹ کی صورتحال  کا پتہ لگانے کے لئے ایک افسر کی تقرری کریں۔اس بابت وزارت داخلہ کے افسروں نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس فسادات سے جڑی رپورٹ نہیں ہے۔آر ٹی آئی کارکن انجلی بھاردواج کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے انفارمیشن  کمشنر بمل جلکا نے یہ ہدایت دی۔بھاردواج نے فرقہ وارانہ فسادات پر مختلف جانچ کمیشن یا جوڈیشل کمیشن کی مکمل رپورٹس پر جانکاری مانگی تھی۔

سی آئی سی نے ہوم سکریٹری راجیو گابا کو ہدایت دی کہ وہ ان 13 رپورٹس کی حالت کا پتہ لگانے کے لئے ایک سینئر افسر کی تقرری کریں جو وزارت کی ویب سائٹ پر دستیاب نہیں ہے۔بھاردواج نے کہا کہ وزارت نے 2006 میں فرقہ وارانہ فسادات کی جانچ کرنے کے لئے تقرری مختلف جوڈیشل اورجانچ کمیشن کی رپورٹس کا مطالعہ کرنے کے لئے National Integration Council کے ایک ورکنگ گروپ بنائی تھی۔انہوں نے کہا کہ گروپ نے 29 ایسے معاملوں کی جانچ کی تھی۔انہوں نے کہا کہ ان کو وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پر 1961 سے 2003 کے درمیان ہوئے فسادات کے بارےمیں 13جانچ یا جوڈیشل کمیشن کی رپورٹس نہیں ملیں۔  لہذا بھاردواج نے ان کی کاپی کے لئے آر ٹی آئی  کیا۔

بھاردواج نے اپنی درخواست کے ذریعے،1961 کے مدھیہ پردیش فسادات پر شیو دیال شریواستو کمیشن، 1967 کے بہار فسادات پر جسٹس رگھوبر دیال کمیشن، 1969 کے گجرات فسادات پر جسٹس پی جے ریڈی کمیشن، 1974 کے دہلی فسادات پر پرساد کمیشن اور 1985 کے گجرات فسادات پر جسٹس وی ایس دوے کمیشن کی رپورٹ مانگی تھیں۔انہوں نے 1986 کے مہاراشٹر فسادات پر جسٹس پی ایس ماولنکر کمیشن، 1988 کے مغربی بنگال فسادات پر جسٹس ہری داس داس کمیشن،1990 کے آندھر پردیش فسادات پر آر ایچ ہیرامن سنگھ کی رپورٹ اور 1990 کے راجستھان فسادات پر جسٹس این ایل تبروال کمیشن کی رپورٹ بھی مانگی تھیں۔

اس کے علاوہ انہوں نے 1992 کے مدھیہ پردیش فسادات پر جسٹس کے کے دوبے کمیشن، 1998 کے تمل ناڈو فسادات پر جسٹس پی آر گوکلکرشنن کمیشن، 1999 کے مہاراشٹر فسادات پر جسٹس اننت ڈی مانے کمیشن اور 2003 کی کیرل فسادات پر تھامس پی جوزف کمیشن کی رپورٹ مانگی تھی۔انفارمیشن  کمشنر جلکا نے کہا،16 رپورٹس پہلے سے ہی ویب سائٹ پر ہیں، جبکہ 13 باقی رپورٹس کے بارے میں اپیل کنندہ نے جانکاری مانگی تھی کیونکہ وہ ویب سائٹ پر دستیاب نہیں ہیں۔  ‘

انہوں نے نشان زد کیا کہ یہ حقیقت ہے کہ وزارت نے فسادات پر جوڈیشل کمیشن اور جانچ کمیشن کی رپورٹس کا مطالعہ کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل کی تھی۔جلکا نے کہا کہ سماعت کے دوران وزارت نے کہا کہ ایسی کوئی رپورٹ ان کے یہاں جمع نہیں ہوئی ہے۔انہوں نے کہا، ‘مدعا علیہ(وزارت)نے نہ ہی اطلاع دستیاب کرائی اور نہ ہی آر ٹی آئی کو منتقل کیا۔  مدعا علیہ نے ایسی  مکمل غیر فعالیت کے لئے کوئی معقول وضاحت بھی نہیں دی۔  ‘

انفارمیشن کمشنر نے کہا کہ بھاردواج کے ذریعے اٹھائے گئے مدعوں میں بڑا مفاد عامہ شامل ہے۔  لہذا، وزارت کے پبلک انفارمیشن  افسر کا رویہ’ مکمل طور پر ناقابل قبول ‘ہے۔انہوں نے ہوم سکریٹری کو اس مدعا کو دیکھنے کے لئے ایک سینئر افسر کو تعینات کرنے اور 15 دن کے اندر تفصیلی رپورٹ دینے کی ہدایت دی۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)