فکر و نظر

رافیل ڈیل: پی ایم او نے کیا وزارت دفاع کی شرطوں سے سمجھوتہ

سرکاری فائلوں میں درج ہے کہ دسمبر 2015 میں جب سمجھوتے کو لے کر بات چیت نازک موڑ پر تھی، اس وقت پی ایم اونے مداخلت کی تھی۔

رافیل ہوائی جہاز (فوٹو : پی ٹی آئی)

رافیل ہوائی جہاز (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: نریندر مودی حکومت کے ذریعے 36 رافیل ہوائی جہازوں کی خرید اری کی منظوری کو لےکر نئے حقائق  سامنے آئے ہیں اور اس کی بنیاد پر اس معاملے میں نیا تنازعہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ اعلیٰ عہدے پر فائز ذرائع نے دی وائر کو بتایا ہے کہ یہ آفیشیل طور پر سرکاری فائلوں میں درج ہے کہ وزارت دفاع کے رافیل قرار کی شرطوں کو لےکر وزیر اعظم دفتر (پی ایم او) سمجھوتہ کر رہا تھا۔ وزارت دفاع 2015 کے آخر تک سودے کے مختلف حساس پہلوؤں پر بحث کر رہی تھی۔

دھیان دینے والی بات یہ ہے کہ سرکاری فائلوں (اندرونی اطلاعات) میں یہ درج ہے کہ وزارت دفاع کی ٹیم کے رافیل سمجھوتہ کی شرطوں کو لےکر پی ایم او مسئلہ پیدا کر رہا تھا۔پروسیس کے مطابق، وزارت دفاع کی Contract negotiation committee میں ایسے ماہرین ہوتے ہیں جو دفاعی اوزاروں کی خرید کی پوری طرح سے آزاد انہ تشخیص کرتے ہیں۔ اس کے بعد کمیٹی کے فیصلے اور تخمینے کو کیبینٹ کمیٹی آن سکیورٹی (سی سی ایس) کو بھیج دیا جاتا ہے۔

لیکن یہاں، ایسے اشارے ہیں کہ پی ایم او وقت سے پہلے مداخلت کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایسا امکان ہے کہ وزارت دفاع کے افسروں کے ذریعے بنائی گئی ان فائنل نوٹنگس کو سپریم کورٹ کے سامنے نہیں رکھا گیا تھا۔ حالانکہ یہ ممکن ہے کہ سی اے جی نے ان فائلوں کو حاصل کیا ہوگا۔ سی اے جی نے رافیل سودے پر اپنی رپورٹ کو ابھی آخری صورت نہیں دی ہے۔

 دی وائر کو پتا چلا ہے کہ سی اے جی نے اپنی ڈرافٹ رپورٹ میں رافیل  ڈیل  کو انجام دینے میں اپنائے گئے طریقوں پر سوال اٹھائے ہیں۔ حالانکہ اس نےقیمتوں کے  تعین کے تنازعے کو واضح کر دیا ہے اور سی اے جی نے ابھی تک پرائیویٹ سیکٹر  کو دئے گئے آفسیٹ کانٹریکٹ  کا کوئی تجزیہ  نہیں کیا ہے۔ ذرائع نے کہا کہ اس وقت وزیر دفاع منوہر پریکر کی نگرانی میں کام کرنے والی وزارت دفاع کی Contract negotiationٹیم دسمبر 2015 تک 36 رافیل ہوائی جہازوں کے لئے بات چیت کے ایک اہم مرحلے میں پہنچ گئی تھی۔

بتا دیں  کہ نریندر مودی کے ذریعے 10 اپریل، 2015 کو فرانس میں اچانک نئے سودے کا اعلان کرنے کے بعد، منوہر پریکر کی صدارت والی Defence Acquisition Council نے مئی 2015 میں جیٹ خریدنے کے لئے رسمی طور پر اجازت دی تھی۔ بعدکے چھے مہینوں میں رافیل قرار سے متعلق اصل  بات چیت ہوئی تھی۔

دسمبر 2015 تک، بات چیت  بہت ہی احتیاط سے کی گئی تھی اور وزارت قانون نے نوٹ کیا تھا کہ رافیل ڈیل کو لےکر فرانس سے ایک Sovereign guarantee دو حکومتوں کے درمیان سودےکے لئے ایک لازمی شرط تھی۔ یہ وہی مہینہ تھا جب دفاع افسران نے نوٹ کیا تھا کہ پی ایم او رافیل قرار کی شرطوں کو لےکر سمجھوتہ کر رہا ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پی ایم او اس سطح پر مداخلت کر رہا تھا۔ ایک اعلی عہدے پر فائز ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ بات ایک اندرونی اطلاع (انٹرنل میمو) میں درج کی گئی ہے۔ پھر جنوری 2016 میں، Contract negotiation committee نے مالی شرطوں کو چھوڑ‌کر نئے سودے کے تمام پہلوؤں کو آخری صورت دے دی۔ بتا دیں کہ رافیل ڈیل کو لےکر سب سے بڑا سوال یہی اٹھ رہا ہے کہ اس کو کیوں اتنا مہنگا خریدا جا رہا ہے۔

آخر میں، ایک متنازع سودے  کو پوری طرح سے آخری صورت  دی گئی اور اگست 2016 میں منظوری کے لئے سی سی ایس کے پاس لے جایا گیا۔ یہ واضح ہے کہ وزارت دفاع کی Contract negotiation ٹیم نے مختلف مرحلوں میں مختلف پہلوؤں پر  مخالفت کی تھی۔