خبریں

یوگی آدتیہ ناتھ کے اس دعوے میں کتنی سچائی ہے کہ ان کی  مدت کار  میں کوئی فساد نہیں ہوا؟

وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے ٹوئٹر پر دعویٰ کیا کہ ان کے دو سال کی حکومت میں کوئی فساد نہیں ہوا ہے۔ حالانکہ سرکاری رپورٹ بتاتی ہے کہ صرف سال 2017 میں ہی اتر پردیش میں فرقہ وارانہ تشدد کے  کل 195 واقعات  ہوئے  ہیں۔ اس دوران 44 لوگوں کی موت ہو گئی اور 542 لوگ زخمی ہوئے۔

یوگی آدتیہ ناتھ کا ٹوئٹ

یوگی آدتیہ ناتھ کا ٹوئٹ

نئی دہلی: ہندوتوا کی امیج والے بی جے پی رہنما یوگی آدتیہ ناتھ نے 19 مارچ 2017 کواتر پردیش کے وزیراعلیٰ کا عہدہ  سنبھالا تھا۔  مارچ، 2019 میں ان کا دو سال مکمل ہو جائے‌گا۔اس موقع پر یوگی آدتیہ ناتھ نے ٹوئٹ کر کے کہا ہے کہ مارچ مہینے میں ان کے دورحکومت کے  دو سال پورے ہو جائیں‌گے اور اس دوران ریاست میں کوئی فساد نہیں ہوا ہے۔

انہوں نے ٹوئٹ میں لکھا، مارچ میں میرے دورحکومت کے دو سال پورے ہوں‌گے۔  میرے اب تک کی حکومت میں، کوئی فساد نہیں ہوا ہے۔’حالانکہ اگر حقائق کو دیکھیں تو یوگی آدتیہ ناتھ کا دعویٰ کھرا نہیں اترتا ہے۔  مرکزی وزارت داخلہ میں ریاستی  وزیر ہنس راج گنگارام اہیر نے گزشتہ سال 11 دسمبر 2018 کے لوک سبھا میں بتایا تھا کہ سال 2014 کے مقابلے سال 2017 میں تقریباً 32 فیصد  زیادہ فرقہ وارانہ تشدد کے  واقعات  ہوئے ہیں اور اس دوران تقریباً 44 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔  2015 میں ایسے  واقعات میں 22 لوگوں کی موت ہوئی تھی۔

اہیر نے بتایا کہ سال 2017 میں اتر پردیش میں فرقہ وارانہ تشدد کے  کل 195 واقعات ہوئے  ہیں۔  اس دوران 44 لوگوں کی موت ہو گئی اور 542 لوگ زخمی ہوئے تھے۔وہیں سال 2014 میں اتر پردیش میں133 فرقہ وارانہ تشدد کے  واقعات ہوئے  تھے۔  اتناہی نہیں، پورے ہندوستان میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کا موازنہ کریں تو سب سے زیادہ اس طرح کے  واقعات  اتر پردیش میں ہی ہوئے  ہیں۔

یوگی آدتیہ ناتھ کی مدت کار میں شبیرپور، بلندشہر، سہارن پور، کاس گنج جیسے کئی جگہوں پر فرقہ وارانہ تشدد کے  واقعات  ہوئے  ہیں۔سال 2017 میں پورے ہندوستان میں کل 822 فرقہ وارانہ واقعات  ہوئے  تھے  اس میں سے 195 معاملے اتر پردیش کے ہیں۔اس حساب سے سال 2017 میں ہندوستان میں ہوئے کل فرقہ وارانہ تشدد کا 23 فیصد  حصہ یوپی کا ہے۔


یہ بھی پڑھیں: سال 2018 مذہبی تشدد کے لحاظ سے 10 سالوں میں سب سے برا رہا


ہندوستان میں سال 2014 سے لےکر  2017 تک میں فرقہ وارانہ تشدد کے معاملوں میں 21.65 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔  حکومت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس طرح کے  واقعات پر کوئی روک تھام نہیں لگ پا رہی  ہے اور دیگر ریاستوں کے مقابلے اتر پردیش میں یہ اور تیزی سے بڑھ رہا ہے۔اتر پردیش کے بعد دوسرے نمبر پر کرناٹک ہے جہاں سال 2017 میں 100 معاملے سامنے آئے اور ان واقعات میں9لوگوں کی موت ہوئی اور 229 لوگ زخمی ہوئے تھے۔  2017 میں پورے ہندوستان بھر میں111 لوگوں کی موت ہوئی ہے اور اس میں سے 44 لوگ اتر پردیش میں مارے گئے ہیں۔  واضح  ہو کہ نظم و نسق سنبھالنے کی ذمہ داری ریاستی حکومت کی ہوتی ہے۔

اہیر نے تحریری جواب میں بتایا،نظم و نسق، امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی  بنائے رکھنے کی ذمہ داری ریاستی حکومت کی ہوتی ہے۔  انہوں نے کہا کہ امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی  بنائے رکھنے میں مرکز  ریاستی  حکومتوں کو الگ الگ طریقے سے مدد کرتا ہے۔  ‘اس کے لئے وقت وقت پر خفیہ اطلاعات  کا لین دین کیا جاتا ہے، احتیاط سے متعلق پیغام بھیجے جاتے ہیں اور اہم واقعے پر مشورہ بھی دیا جاتا ہے۔

مرکزی حکومت نے 2008 میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے  متعلق ہدایات جاری کئے تھے، جو فرقہ وارانہ تشدد سے پیدا شدہ حالات سے نپٹنے کے لئے تیار کیا گیا تھا۔  ان ہدایات کا مقصد احتیاط، احتیاطی  اسکیم اور تیاری کی تدبیروں کو بنائے رکھنا ہے جو فرقہ وارانہ تشدد کے  کئی ممکنہ واقعات کو روک سکتے ہیں۔وزیر مملکت برائے داخلہ نے کہا، ان ہدایات کو وقت وقت پر صلاح بھیجتے ہوئے، بالخصوص مختلف مذہبی تہواروں سے پہلے، دوہرائی  جاتی ہے۔  ‘

مودی حکومت کے ذریعے ایوان میں دئے گئے اعداد و شمار سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اتر پردیش کی پیش رو حکومتوں کے دوران بھی اس طرح کی کافی ساری وارداتیں ہوئی ہیں۔سماجوادی پارٹی کے دورحکومت میں بھی سال 2013 میں 247 فرقہ وارانہ تشدد کے معاملے سامنے آئے تھے اور اس میں 77 لوگوں کی موت ہوئی اور 360 لوگ زخمی ہوئے تھے۔وہیں آرٹی آئی کے تحت انکشاف  ہوا ہے کہ پورے ہندوستان میں فرقہ وارانہ تشدد کے  سب سے زیادہ 943 واقعات 2008 میں ہوئے۔  سال 2008 میں تشدد میں 167 لوگ مارے گئے اور 2354 لوگ زخمی ہوئے۔  وہیں سال 2009 میں فرقہ وارانہ جھڑپوں کے دوسرے زیادہ سے زیادہ 849 معاملے آئے، جس میں 125 لوگوں کی جان چلی گئی اور ایک سال میں 2461 لوگ زخمی ہوئے تھے۔