ادبستان

ورق در ورق: لغت اور زبان شناس سرسید سے متعارف کراتی کتاب

شمس بدایونی کی یہ کتاب سرسید فہمی کے تحقیقی تناظر کو خاطر نشاں کرتی ہے اور جدید طریقۂ تحقیق کے اصولوں یعنی مکمل حوالوں، کتابیات، اشاریوں اور عکسی نوادر کی شمولیت سے عبارت ہے جس کی پذیرائی ضروری ہے۔

Jihat-e-Sir Syed

 غالب، اقبال اور سرسید ہماری تہذیبی، علمی، ادبی اور اجتماعی شعور کی ایک ایسی تابناک روہیں جس پر مرور زمانہ کا کوئی اثر نہیں ہوا ہے اور ان کے گرانقدر اکتباسات سے ہمارا وجود مستقل منور اور متشکل ہوتا رہتا ہے۔ ان کے علمی اور ادبی کمالات مطالعہ کا مسلسل ہدف بنتے رہتے ہیں اور ان سے متعلق تصانیف اور مقالے تواتر کے ساتھ اشاعت پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ سرسید نے برصغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے ہر پہلو پر ناقابل فراموش نقوش مرتسم کیے اور انہیں ہندوستانی نشاۃ ثانیہ کے ہراول دستے میں بلا تکلف شامل کیا جا سکتا ہے۔

سرسید انیسویں صدی میں پہلے ایسے مسلم دانش ور تھے جنہوں نے ہزارشیوہ زندگی کے ہر رنگ کا اثبات کیا اور اجتماعی زندگی پر اثر انداز ہونے والے ہر پہلو پر نہ صرف اظہار خیال کیا بلکہ اس سے متعلق ایک دور رس حکمت عملی بھی مرتب کی۔سرسید پہلے مسلمان عوامی دانش ور (Public Intellectual)تھے جنہوں نے دور ابتلا میں نجات کی تمام ممکنہ راہوں کو روشن کرنے کی سعی کی۔ سرسید کی افہام و تفہیم کی تمام کوششوں کا نقطۂ آغاز اور نقطۂ اختتام ‘حیات جاوید’ ہی ہے۔

حالی نے سرسید کے جن پہلوؤں کو زیادہ لائق اعتنا نہیں سمجھا ان کا ذکر بہت کم ہوتا ہے۔ حیات جاوید یقیناًمطالعات سرسید کا خشت اول ہے مگریوں بھی ہے کہ حالی نے بسا اوقات تحقیقی دیانت کے اصولوں کی پوری طرح پاسداری نہیں کی لہٰذا سونحِ حیات کے باب میں تسامحات در آئے ہیں۔سرسید سے متعلق جو کتابیں منظرِ عام پر آئی ہیں ان کا ماخذ بنیادی طورپر ثانوی ہے۔ سرسید کی تحریروں کا براہ راست مطالعہ کم ہی کیا جاتا ہے اور اگر انہیں مطالعہ کا موضوع بھی بنایا جاتا ہے تو اس کا ماخذ اسماعیل پانی پتی کی مرتبہ کتاب ‘مضامین سرسید'(16 جلدیں)ہے جس میں متعدد ایسی تحریریں شامل کر دی گئی ہیں جو علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں کسی دوسرے نام کے ساتھ شائع ہوئی ہیں یا پھر یہ ترجمہ ہیں یا کسی دیگر اخبار سے ماخوذ ہیں۔

سرسید کی تعلیمی اور اصلاحی تحریک، جس کا ثمرہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے، پر سیر حاصل گفتگو کی جا چکی ہے مگر اس امر سے کم لوگ واقف ہیں کہ سرسید لغت اور زبان کے گہرے رمز شناس تھے اور انہوں نے اردو میں رموز اوقاف (Punctuation Marks) پر اولین مضمون لکھا تھا جو سرسید کی لسانیاتی مباحث سے عالمانہ دلچسپی کو آشکارا کرتا ہے۔ علاوہ بریں زبان سے متعلق دیگر امور پر بھی سرسید نے تفصیلی اظہارخیال کیا ہے جس پر فراموش کاری کی گہری دھند مستولی ہے۔

قاضی عبدالودود، حافظ محمود شیرانی اور رشید حسن خاں کی علمی وراثت کے امین اور ہمارے عہد کے ایک اہم محقق ڈاکٹر شمس بدایونی نے مطالعات سرسید کے مذکورہ مخفی گوشوں کو اپنی تحقیقی اور تنقیدی دقت نظری کا ہدف بنایا ہے اور مطالعات سرسید کے بالکل نئے علمی گوشوں پر محیط5 مضامین پر مشتمل ان کی کتاب ‘جہات سرسید’ حال ہی میں براؤن بکس، علی گڑھ نے شائع کی ہے۔غالب اور شبلی ڈاکٹر شمس بدایونی کے ممدوح رہے ہیں اور ان سے متعلق ان کی متعدد گرانقدر تصنیفات شائع ہو کر اہل علم سے خراج تحسین وصول کر چکی ہیں۔

گذشتہ سال سرسید کا دو سوسالہ جشن ولادت بڑے تزک و احتشام کے ساتھ منایا گیا اور اس ضمن میں بہت سے سیمینار ہوئے اور متعدد اہم علمی کتابیں بھی شائع ہوئیں۔ ڈاکٹر شمس بدایونی بھی مطالعہ سرسید کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کا یہ خیال حق بجانب ہے کہ سرسید کا مطالعہ انیسویں صدی کے مسلمانوں کے اجتماعی شعور کا مطالعہ ہے۔ ’’اس صدی کے ہندوستان میں وہ کون سے مروجہ علوم ہیں جن پر ان کا اثر نہیں۔ ادب، مذہب، تاریخ، اخلاق، تدریس، تدوین، سیاست، عمرانیات، کلامیات، ریفارمیشن، فلسفہ، صحافت، زراعت وغیرہ سبھی پر ان کے نمایاں اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

معروف طور پر ان کی دو حیثیتیں ہیں: ایک قائدانہ اور دوسری عالمانہ۔ راقم الحروف کا خیال ہے کہ سرسید کی قائدانہ حیثیت کو اگر تھوڑی دیر کے لیے نظر انداز بھی کر دیا جائے تو ان کی علمی حیثیت کی بھی متعدد موضوعاتی جہتیں ہیں اور ہر جہت سرسید سے کامل واقفیت اور موضوعِ مطالعہ کے حدود میں سرسیدیات سے گہرے شغف کا مطالبہ کرتی ہے‘‘۔ یہ امر یقیناً تعجب خیز ہے کہ حالی اور کسی حد تک شبلی کے علاوہ اردو کے اولین محققین نے سرسید کی طرف توجہ نہیں کی اور مصنف کا یہ نقطۂ نظر درست ہے کہ دوسری نسل کے محققین میں بھی بہ مشکل دو تین نام ہی پیش کیے جا سکتے ہیں۔


یہ بھی پڑھیں :جب سرسید نےگھنگھرو باندھے


یہی سبب ہے کہ ان کی سوانح اور خدمات کے متعدد گوشے ایسے ہیں جو آج بھی تشنۂ تحقیق ہیں۔ یہاں یہ بھی عرض کرنا ہے کہ حیات جاوید کو Cross Referenceکے عمل سے نہیں گزارا گیا، لہٰذا متعدد غلط فہمیوں نے مسلمہ صداقتوں کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ڈاکٹر شمس بدایونی اس صورت حال سے قطعی مطمئن نہیں ہیں اور انہوں نے اس علمی اور تحقیقی تساہلی کے ازالہ کے طور پر سرسید کے ان پہلوؤں کو موضوع مطالعہ بنایا جن پر اب تک قرار واقعی کام نہیں ہوا ہے۔ رموز اوقاف نویسی پر سرسید سے قبل اور اس کے بعد بھی کم ہی لکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر شمس بدایونی نے کتاب میں شامل اپنے پہلے مضمون ’’تجاویز سرسید اور تاریخ رموزِ اوقاف نویسی‘‘ میں مطالعہ سرسید کے اس فراموش کردہ باب کو موضوع گفتگو بنایا ہے۔

اس مضمون میں اردو زبان و ادب کی تاریخ میں رموزِ اوقاف نویسی سے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے، اس کا معروضی جائزہ لیا گیا ہے اور اس سلسلے میں سرسید کے افکار کی معنویت علمی دیانت داری کے ساتھ واضح کی گئی ہے۔ یہاں محض مضمون کے بنیادی مباحث کی تلخیص یا مدح سرائی کو پیش نظر نہیں رکھا گیا ہے بلکہ دستاویزی شواہد اور علمی ثبوتوں کی وساطت سے یہ واضح کیا گیا ہے کہ مستعمل آٹھ رموز اوقاف کتنے اختلافات، سفارشات اور قبول و رد کی منزلوں سے گذر کر ہم تک پہنچے ہیں۔ اردو میں اب بھی رموزِ اوقاف کے استعمال میں یکسانیت کا فقدان ہے۔

ڈاکٹر شمس بدایونی نے جان گل کرسٹ، سرسید اور رشید حسن خاں کے رموز اوقاف سے متعلق نقطہ نظر کا تقابل کیاہے اور اس سلسلے میں مولانا ابو الکلام آزاد، مولوی عبد الحق اور ڈاکٹر گیان چند جین کے معروضات کو بھی موضوع گفتگو بنایا ہے۔ توقیف نگاری کیا مغرب سے مستعار تصور ہے کہ علامات قرأت کا ذکر قدیم لغت نویسوں کے ہاں شاذ ہی ملتا ہے سرکاری نصاب تعلیم کی تیاری میں توقیف نگاری پر خاص توجہ کی گئی۔ ڈاکٹر شمس بدایونی نے اس ضمن میں ڈاکٹرجان گل کرسٹ (1789-1841) کا بطور خاص ذکر کیا ہے اور شیخ امام بخش صہبائی کے رسالہ صرف و نحو قواعداردو کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔

سرسید نے توقیف نگاری میں 13 علامتوں کا ذکر کیا ہے مگر ان کے دونوں جرائد علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور تہذیب الاخلاق میں بقول ڈاکٹر شمس بدایونی ان کی پاسداری نظر نہیں آتی۔ گزٹ اور تہذیب الاخلاق کے متعدد شماروں کے مطالعہ کے بعد مصنف اس نتیجے پر پہنچے کہ ’’پیش نظر شماروں کی بنیاد پر کہا جا سکتاہے کہ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کا اردو حصہ رموز اوقاف سے قطعی بے نیاز ہے‘‘۔ کیا توقیف نگاری کو رواج عہد سرسید کے بعد حاصل ہوا؟ یہ سوال اہم ہے اور اس ضمن میں ڈاکٹر شمس کا خیال ہے کہ سرسید کی اختیار کردہ 13علامتوں میں سے پہلے مرحلے میں ۱۱ بذریعہ عبد الحق اوردوسرے مرحلے میں صرف 8 علامتیں بذریعہ رشید حسن خاں اور گیان چند جین ، رموز اوقاف نگاری کی صورت میں منتخب ہوئیں اور یہ آٹھوں آج بھی رائج ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ رموز اوقاف کی تعیین اور ان کے استعمال کو رواج دینے میں سرسید پہلے بزرگ ہیں لیکن ان کی خدمات کا صحیح ترین جائزہ نہیں لیا جاسکاہے۔

علمی فتوحات سے قطع نظر انتظامی امور پر سرسید کی دستگاہ کاملہ کا اعتراف مغل حکومت اور برطانوی حکومت نے بارہا کیا۔ انہیں مغل در بار اور برطانی حکومت سے اعزاز اور خطابات بھی ملے۔ ان کے عطا کردہ خطابات خاں (خان بہادر) اور سر (برطانوی خطاب) سر سید کے نام کا جزو لا ینفک بن چکے ہیں۔ حیات جاوید میں سرسید کے خطابات اور اعزازات کی مکمل تفصیل نہیں ملتی۔ یہ سوانح سرسید کا اہم گوشہ ہے۔ ڈاکٹر شمس بدایونی نے ان تمام خطابات کی تفصیل مکمل دستاویزی شواہد کے ساتھ پیش کرد ی ہیں۔ یہ خطابات سرسید کی حکام رسی یا انگریز دوستی پر دال نہیں ہیں کہ شمس بدایونی نے دلائل کے ساتھ اس کی تردید کی ہے اور لکھا ہے کہ سرسید کی علمی حیثیت ان خطابات سے بہت بلند تھی اور خطابات دے کر حکومتوں نے سرخروئی حاصل کی۔ اگر یہ اعزازات نہ بھی ملے ہوتے تب بھی تاریخ میں ان کی وہی حیثیت ہوتی جو آج ہے۔

سرسید کی ایک غیر معروف تالیف ’’کتاب فقرات‘‘ ہے اور یہ غالباً پہلا تحقیقی مضمون ہے جس میں اس تالیف کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ سرسید نے 1859ء میں مراداباد میں ایک مدرسہ قائم کیا اور انہوں نے اس مدرسہ کے نصاب کے لیے حکیم لقمان کی شہرہ آفاق تصنیف ’’صد پند‘‘ کے طرز پر ایک کتاب مرتب کی اور بقول شمس بدایونی اسے ’’کتاب فقرات‘‘ نام دیا۔ مصنف نے اس کی دو اشاعتوں کا ذکر کیا ہے۔

سرسید کے مکاتیب کے متعدد مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اس کتاب میں سرسید کے خطوط سے متعلق دو مضامین شائع کیے گئے ہیں۔ ایک مضمون ’’مکاتیب سرسید کا قلمی نسخہ‘‘ میں خطوط سرسید کے واحد قلمی نسخے کے حصول اور اس کی ترتیب اور تدوین کی دشوار گذار راہوں سے قاری کو واقف کرایا گیا ہے۔ اس مضمون میں بعض ایسی اطلاعات ہیں جو پہلی مرتبہ پیش کی گئی ہیں۔ڈاکٹر شمس بدایونی کی یہ کتاب سرسید فہمی کے تحقیقی تناظر کو خاطر نشاں کرتی ہے اور جدید طریقۂ تحقیق کے اصولوں یعنی مکمل حوالوں، کتابیات، اشاریوں اور عکسی نوادر کی شمولیت سے عبارت ہے جس کی پذیرائی ضروری ہے۔

(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)