گراؤنڈ رپورٹ

بہار: بھاگل پور فساد کے زخموں پر مرہم رکھنے والا یکجہتی کا میلہ

بھاگل پور اورآس پاس کے علاقے کئی مہینوں تک فسادات کی زد میں رہے تھے۔لوگوں کا گھروں سے نکلنا بہت کم ہو گیا تھا۔  ہندو اور مسلم کو ایک دوسرے کے محلے میں جانا دشمن ملک جانے جیسا خطرناک لگنے لگا تھا۔  لیکن اس میلے کی پہل نے ایک بار پھر سے بھائی چارگی کو قائم کرنے میں کلیدی رول ادا کیا۔

فوٹو: راہل

فوٹو: راہل

بھاگل پور کے سینڈس کمپاؤنڈ میں نئے سال کے موقع پر دن چڑھنے کے ساتھ ہی شہریوں کا جمع ہوناشروع ہو گیا تھا۔ وہاں پہنچنے والوں میں ہر عمر کی خاتون اور مرد اور تمام کمیونٹی کے شہری شامل تھے۔  یہ لوگ اس سال نو کے ثقافتی میلےمیں شامل ہونے پہنچے تھے جو گزشتہ 30 سالوں سے لگاتار منعقد ہو رہا ہے۔  اکتوبر، 1989 کے  بھاگل پور فسادات کے ٹھیک بعد شروع ہوا یہ میلہ تب سے بنا تھمے لگاتار منعقد ہو رہا ہے۔

دراصل بھاگل پور فسادات کے دو مہینے بعد ہی اس میلے کی شروعات ایک خاص مقصد سے ہوئی تھی۔  تب فساد کے دوران بھاگل پور شہر کا ماحول بہت ہی کشیدہ اور فرقہ وارانہ تھا اور شہریوں کے درمیان بھائی چارگی دم توڑ چکی تھی۔ ایسے میں ہم آہنگی پھر سے قائم کرنے، لوگوں کا دھیان فسادات کے زخموں سے ہٹانے اور ان کے درمیان بات چیت کی غیر موجودگی کوختم کرنے کے لئے شہر کے کچھ فنکاروں، جن میں ہندو اور مسلم دونوں شامل تھے، نے چھوٹی سطح پر اس میلے کی شروعات کی۔ س میلے سے جڑے فنکار بتاتے ہیں کہ فسادات کی زبردست مار‌کے بعد وہ ایک ایسے موقع کی تلاش میں تھے جو کسی خاص مذہب کے ساتھ جڑا نہ ہو اور فسادات کے ٹھیک بعد کے سال نو کا انعقاد ان کے لئے ایک ایسا ہی موقع بن‌کر سامنے آیا۔

یہ میلہ کلچرل کوآرڈینیشن کمیٹی منعقد کرتی ہے جس کے ساتھ آج تقریباً دو درجن ادارے جڑے ہیں۔یہ میلہ اب شہر کا اپنا میلہ بن گیا ہے۔  اس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شامل ہوتے ہیں۔  سینئرآرٹسٹ اورکمیٹی کے کنوینر ادے بتاتے ہیں،ہم لوگوں نے نئے سال کو ایک سیکولر علامت مانتے ہوئے اس میلے کی شروعات کی۔ ساتھ ہی گیت، نظم، ڈرامے جیسے فنی وسائل کو بھی مشترکہ تہذیب پر مرکوز رکھا۔  کہا جاتا ہے کہ تہذیب لوگوں کو جوڑتی ہے۔  یہ بات اس میلے سے صحیح ثابت ہوئی اور لوگ اس سے جڑتے چلے گئے۔  “

بھاگل پور اورآس پاس کے علاقے کئی مہینوں تک فسادات کی چپیٹ میں رہے تھے۔ جیسا کہ فسادات کے دوران ہوتا ہے لوگوں کا گھروں سے نکلنا بہت کم ہو گیا تھا۔  ہندو اور مسلم کو ایک دوسرے کے محلے میں جانا دشمن ملک جانے جیسا خطرناک لگنے لگا تھا۔  لیکن اس میلے کی پہل سے اس عدم اعتماد کو توڑنے اور شہر کی زندگی کو عام بنانے میں مدد ملی۔

محمد شمیم، فوٹو: راہل

محمد شمیم، فوٹو: راہل

تقریباً90سالہ محمد شمیم بھاگل پور کے اسلام نگر علاقے میں رہتے ہیں۔  وہ انعقاد کے پہلے سال سے ہی اس میلے میں شامل ہو رہے ہیں۔  وہ بتاتے ہیں،یہ فساد کرسی کی، سیاست کی لڑائی تھی۔ کرسی والوں سے پیسہ، مذہب اور جان بھی لیا۔  گھر سے بے گھر کر دیا اور آج ریلوے لائن پر آکر جھوپڑی باندھ‌کر رہ رہے ہیں۔  لیکن ہم لوگ مل جل کر   سال نو کامیلہ مناتے ہیں۔  اس میلے کا بڑا اثر یہ ہوا کہ لوگوں کے درمیان جو ایک دوسرے کو لےکر ڈر تھا وہ ختم ہو گیا۔  اس میلے نے بھاگل پور شہر کو پھر سے ریشمی شہر بنا دیا۔  “

بی این منڈل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فارخ علی بھاگل پور کے سینئر اور معزز شہریوں میں سے ایک ہیں۔  وہ بھی اس میلے کی شروعات کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔  وہ کہتے ہیں،لوگوں کا آنا-جانا بہت محدود ہو گیا تھا۔  شادیاں رات کی جگہ دن میں ہونے لگی تھیں۔  اس میلے کا فوراً ایک پازیٹو اثر یہ ہوا کہ لوگوں کے گھروں سے نکلنا آسان ہونے لگا۔ایک پوشیدہ دیوار جو لوگوں کے سامنے کھڑی تھی وہ سچ مچ پوشیدہ ہو گئی۔  “

40سال کے محمد امروز مویشی  کاروباری ہیں۔ بھاگل پور ضلع کے ہٹگاما گاؤں میں ان کا اپنا گھر تھا مگر دنگوں کے دوران ان کو گاؤں چھوڑ‌کر بھاگل پور شہر میں پناہ لینی پڑی۔  بھاگل پور آنے کے بعد سے ابھی تک وہ ریلوے گمٹی نمبر چار کے پاس جھگی-جھوپڑی میں ہی رہ رہے ہیں۔  وہ بتاتے ہیں،فسادات کے وقت میں بچہ تھا۔  ہندومسلم فساد ہوا تھا، بھائی چارہ ختم ہو گیا تھا۔  ایسے میں گھر سے نکلنے میں ڈر لگتا تھا۔  ماں باپ گھر سے نکلنے سے منع بھی کرتے تھے۔  مگر میلے سے ماحول اچھا ہونا شروع ہوا اب بہت بہتر ہو گیا ہے۔  پہلے لوگ میاں کہہ‌کر بلاتے تھے، اب کاروباری کہہ‌کرعزت سے بلاتے ہیں۔  اب ہمیں بھی انسان سمجھا جاتا ہے۔  میلے میں ہم پانچ دوست مل‌کر پہنچتے ہیں۔  ان میں سے کوئی ہندو ہے، کوئی کرسچین تو کوئی مسلم ہے۔  میلے میں سب امنگ سے شامل ہوکر ایک ہو جاتے ہیں۔  یہ پتہ نہیں چلتا کہ کون کیا ہے۔  “

محمد امروز، فوٹو: راہل

محمد امروز، فوٹو: راہل

اس میلے کی تیاری اب ہرسال دسمبر کا مہینہ آتے ہی شروع ہو جاتی ہے۔  وقت کے ساتھ یہ میلہ اب بھاگل پور کے عام لوگوں کا ثقافتی میلہ بن گیا ہے۔  ہزاروں کی تعداد میں لوگ خوش گوار ماحول میں مشترکہ تہذیب کی پہل کو آگے بڑھا رہے ہیں۔  داؤد علی عزیزگزشتہ 8سالوں سے اس میلے میں شامل ہو رہے ہیں۔  داؤد علی کے مطابق یہاں آنے سے دل خوش ہو جاتا ہے۔  وہ کہتے ہیں،کسی منچ سےشاعری تو کسی منچ سے گیت کی آواز آتی ہے۔  یہاں کا ماحول تو ہرابھرا ہے ہی یہاں آکردل بھی ہرابھرا ہو جاتا ہے۔  یہاں ہر کمیونٹی کے لوگ آتے ہیں۔  خواتین آتی ہیں۔  برقع والی خواتین بھی آتی ہیں۔  یہاں آنے کے بعد پروگرامس میں شامل ہوتے ہوئے کب صبح سے شام ہو جاتی ہے یہ پتہ ہی نہیں چلتا ہے۔  آنے کے بعد یہاں سے جانے کا دل ہی نہیں کرتا ہے۔

فوٹو: راہل

فوٹو: راہل

گزشتہ تین دہائی میں میلہ نہ صرف بڑا ہوا ہے بلکہ یہاں ہونے والے  پروگراموں کی رنگا رنگی بھی بڑھی ہے۔  شروعات چھوٹےپیمانے پر ڈرامہ گیت اور پوسٹرنمائش سے ہوئی تھی۔  اب میلے میں ایک ساتھ کئی منچوں پر ان پروگراموں کے ساتھ ساتھ مشاعرہ، رقص، تصویر سازی جیسے پروگرام بھی ہوتے ہیں۔گزشتہ5 سال سےکنوینروں کا زور مشترکہ تہذیب سے جڑے پروگراموں پر زیادہ ہے جس کے تحت مختلف زبانوں اور مذاہب سے جڑے انعقاد ہوتے ہیں۔

پیس سینٹر کے کنوینر اور   سال نو میلے سے جڑے نو جوان پینٹر راہل کے مطابق ملک کے موجودہ سماجی ماحول میں ایسے میلے کی خاص اہمیت ہے۔  وہ کہتے ہیں،آج جب ملک کا ماحول بدلنے کی کوشش ہو رہی ہے اور لوگوں کو ناعاقبت اندیش بھیڑ میں تبدیل کیا جا رہا ہے، ایسے میں اس طرح کے انعقاد کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔اس میلے میں جتنی اہمیت صحت مندثقافتی پروگراموں کی ہے، اتنی ہی اہمیت زیادہ سے زیادہ سماجی، ثقافتی، گروہوں کی پیشکش اور شراکت داری کی بھی ہے۔  یہ ہمیں صرف پاس ہی نہیں لاتا بلکہ میلے میں ایک چھوٹا ہندوستان بھی دکھاتا ہے۔یہاں ویسے ناظر ین بڑی تعداد میں شامل ہوتے ہیں جو خود کو کسی نہ کسی طرح کے انعقاد سے جوڑ لیتے ہیں۔  “