فکر و نظر

کیا ٹرمپ کے طنزیہ ریمارکس میں ہندوستان کے لئے ایک وارننگ چھپی ہے؟

شاید ہی کسی غیر ملکی سربراہ نے کبھی کسی ہندوستانی وزیر اعظم کی اس طرح اعلانیہ بے عزتی کی ہو۔ مودی نے سبکی کا یہ گھونٹ خاموشی سے پی لیا۔ وزارت خارجہ کو بھی بتایا گیا کہ آن ریکارڈ ٹرمپ کے بیان کا جواب نہیں دیا جائے۔ صرف آف ریکارڈ ہی میڈیا میں افغانستان میں اپنے ترقیاتی منصوبوں کی تفصیلات بتائی جائیں۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

افغانستان میں ہندوستان کے رول اور اس کی ترقیاتی امداد پر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے طنزیہ ریمارکس سے ایک ہفتہ قبل ہی ہندوستانی وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ افسربتا رہے تھے کہ توقعات کے برعکس وزیر اعظم نریندر مودی اور ٹرمپ کی یارباشی میں جو گرمیاں اور شوخیاں ایک سال قبل نظر آرہی تھیں ، وہ مفقود ہوگئی ہیں۔ جس سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوتا ہے کہ خارجہ تعلقات لیڈروں کی ذاتی یا نظریاتی ہم آہنگی سے زیادہ قومی مفادات سے وابستہ ہوتے ہیں۔

وزارت خارجہ کی سال بھر کی کارکردگی کا احاطہ کرتے ہوئے اعلیٰ افسر نے فارن آفس کور کرنے والے چنندہ صحافیوں اور ایڈیٹروں کو بتایا کہ کئی اہم پیش رفت کے باوجود، ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات میں لیڈروں کے درمیان جو خوش گفتاری براک اوبامہ کے دور میں موجود تھی، وہ متلون مزاج ٹرمپ کے ساتھ ممکن نہیں ہے۔مودی اوبامہ کو ’بارک‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے اور فخراً کہتے تھے کہ فون پر سنجیدہ ایشوز پر گفتگو کے ساتھ ساتھ وہ آپس میں ہنسی مذاق بھی کرتے ہیں۔

افسر نے یہ تسلیم کیا کہ حالیہ واقعات جس میں امریکی انتظامیہ کی طرف سے طالبان کے ساتھ ملاقات وغیرہ شامل ہے ، سے ہندوستان کے مفادات کو زک پہنچی ہے اور اس وقت اعلیٰ سطح پر افغانستان پالیسی کاجائزہ لیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ہندوستان کے قومی سلامتی مشیر اجیت دوبھال نے چند روز قبل اپنے افغان ہم منصب حمداللہ محیب سے ملاقات کی۔ وزارت خارجہ کے افسرکا کہنا تھا کہ امریکی افواج کا اچانک انخلا اس خطے کے لیے کسی سانحے سے کم نہ ہوگا، کیونکہ بقول ان کے افغان نیشنل فورسز فی الحال سیکورٹی خلا کو پر کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

ہندوستان کا موقف یہی ہے کہ وہ افغان صدر اشرف غنی اور کابل انتظامیہ کی پشت پناہی کرتا رہےگا اور اقتدار میں طالبان کو کسی بھی طرح کی شراکت داری کا مخالف ہے۔ مگر دوسری طرف مذکورہ افسر کا یہ بھی کہنا تھا کہ اشرف غنی کی حکومت افغان عوام کی توقعات پر پوری نہیں اتری ہے اور اعتماد بحال نہیں کر پائی ہے۔ اسی سانس میں وزارت خارجہ کے افسر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہندوستان اپنے مفادات کو پچانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریگا۔

اس بریفنگ کے چند روز بعد ہی اس سال کی پہلی کابینہ میٹنگ کے بعد پریس سے بات چیت کرتے ہوئے، صدر ٹرمپ نے جس طرح ہندوستان کی ترقیاتی امداد پر طنز آمیز فقرے کسے ، اس سے وزیر اعظم مودی کی خاصی سبکی ہوئی ہے۔ شاید ہی کسی غیر ملکی سربراہ نے کبھی کسی ہندوستانی وزیر اعظم کی اس طرح اعلانیہ بے عزتی کی ہو۔ مودی نے سبکی کا یہ گھونٹ خاموشی سے پی لیا۔ وزارت خارجہ کو بھی بتایا گیا کہ آن ریکارڈ ٹرمپ کے بیان کا جواب نہیں دیا جائے۔ صرف آف ریکارڈ ہی میڈیا میں افغانستان میں اپنے ترقیاتی منصوبوں کی تفصیلات بتائی جائیں۔

ڈیڑھ سال قبل جب مودی امریکہ گئے تھے، تو بتایا گیا تھا کہ دونوں لیڈروں کی باڈی لنگویج ایک دوسرے سے ملتی ہے۔ایک چینل نے دونوں کی دوستی کو بنیاد بنا کر بیس اقساط پر مشتمل ایک سیرز بھی نشر کی۔ مگر اب اسی میڈیا کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ زیادہ تر چینلوں نے ٹرمپ کے اس بیان پر خاموشی اختیار کی، وہ بھی ایسے وقت جب پچھلے ساڑھے چار سالہ دور حکومت میں مودی کا فوکس ہی ہندوستان کیلئے سفارتی آؤٹ ریچ کا رہا ہے۔ 2014میں حکومت سنبھالنے کے بعد سے ا بھی تک مودی 55ممالک کا دورہ کر چکے ہیں اور ان کے ان دورں پر حکومت نے 20ارب روپے خرچ کئے ہیں۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ مودی ان کو بار بار یاد دلا رہے تھے کہ ہندوستان نے افغانستان میں لائبریری بنوائی ہے، اب وہاں ایسے حالا ت میں لائبریری سے کون استفادہ کریگا۔ گو کہ دونوں لیڈروں کے درمیان تخلیہ میں ہوئی ملاقات کی تفصیلات کا علم نہیں ہے لگتا ہے کہ مودی نے ہندوستان کی امدار سے تعمیر کی گئی افغان پارلیامنٹ بلڈنگ کا تذکرہ کیا ہوگا، جس کے اندر ایک لائبریری موجود ہے۔ دسمبر 2015میں مودی نے کابل جاکر خود اس کا افتتاح کیا تھا اور واپسی پر لاہور میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے گھر شادی کی تقریب میں شامل ہونے کے لیے اتر گئے تھے۔

پچھلے سال پاکستان کے خلاف سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے ، ٹرمپ نے مودی کے انگریزی تلفظ و لب و لہجہ کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی وزیر اعظم نے ان کو بتایا کہ کس طرح امریکی وسائل افغانستان میں برباد ہو رہے ہیں۔ مودی کا اشارہ افغانستان میں امن و امان قائم کروانے کے لیے پاکستان کو مہیا کرائی گئی امریکی امداد کی طرف تھا۔ مودی کی اس فریاد پر کان دھر کر ٹرمپ نے پاکستان کی امداد بندکردی۔ انہی دنوں میں ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ میں پاکستان پر امریکہ سے دغا بازی اور دوغلے پن کا الزام لگایا اور دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے اپنی سرزمین پر افغانستان میں امریکی فوجوں سے برسرپیکار افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے جنگجوؤں کو پناہ دے رکھی ہے ۔

بلکہ جب وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے پاکستان کی مالی مشکلات میں کمی کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کیا تو امریکہ نے اس عالمی مالیاتی ادارے کو پاکستان کی امداد سے منع کر دیاتھا۔مگر اس کے عوض اب ٹرمپ نے نہ صرف اب ہندوستان کی تضحیک کی، بلکہ طالبان کے ساتھ گفت و شند کا دروازہ کھول کر اس کے مفادات کو بھی خطرات سے دوچار کر کے رکھ دیا۔ یعنی جو کنواں پاکستان کیلئے کھودا گیا تھا، اس میں اب خود ہندوستان کے ہی گرنے کا خطرہ پیدا ہوگیاہے۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان ، عرب ریاستیں اور روس ایک طرح سے امریکی قربانیوں پر مفت سواری کر رہے ہیں اور یہ بھی یاد دلایا کہ اسی افغانستان نے سویت یونین کا دیوالیہ کرکے اس کو روس بنایا۔

2001سے ہندوستان نے افغانستان میں تقریباًتین بلین ڈالر کی رقوم امداد میں صرف کی ہیں۔ جن میں290ملین ڈالر ہرات میں واقع سلمہ ڈیم پر، 90ملین ڈالر افغان پارلیامنٹ بلڈنگ کی تعمیر پر اور 135ملین ڈالر دلارام سے ایرانی سرحد زارنج ہائی وے کی تعمیر پر خرچ کئے ہیں۔ اس کے علاوہ پاور ٹرانسمیشن لائن وغیرہ بچھانے پر بھی ہندوستان نے خاصی رقوم خرچ کی ہیں۔ چونکہ مغربی ممالک کے برعکس ہندوستان کے فوجی برسرپیکار نہیں ہیں، اسلئے عوام میں ان ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے ایک خیر سگالی تو موجود ہے۔

اسکے علاوہ ہندوستان ہر سال ایک ہزار افغان طلبہ کوہندوستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے اسکالرشپ بھی مہیا کرواتا ہے۔ اس امداد اور خیر سگالی کے باوجود امریکہ نے گویا ہندوستان کو اب ایک طرح سے آئینہ دکھایا ہے اور بتایا ہے کہ اب اسکا اسٹریٹجک رول ختم ہو گیا ہے۔ چونکہ جنگ اب اختتام پر ہے ، اس لئے امریکہ کا خیال ہے کہ ہندوستان کی موجودگی سے حالا ت کا اور بھی پیچیدہ ہونے کا خدشہ ہے۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ تشویش اس بات پر ہے کہ ٹرمپ نے عمران خان کی نئی پاکستانی انتظامیہ کا حوالہ دیکر کہا کہ وہ افغان جنگ کے خاتمہ کیلئے ان کی بڑی مدد کر رہے ہیں۔

وہ شاید طالبان کی میز پر آمادگی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ جب امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے اپنے امن مشن پر پاکستان آئے تھے تو اس وقت صدر ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کے نام ایک خط بھیجا تھا۔ اگرچہ اس خط کے مندرجات کو پبلک نہیں کیا گیا تھا، تاہم اس کے حوالے سے جو معلومات منظر عام پر آئی تھیں، اْن کے مطابق صدر ٹرمپ نے حکومتِ پاکستان سے درخواست کی تھی کہ زلمے خلیل زاد کے قیادت میں افغانستان میں قیام امن اور مصالحت کے فروغ کیلئے، امریکہ نے جس مشن کا آغاز کیا ہے پاکستان اس کی کامیابی کیلئے تعاون کرے۔

یعنی پاکستان طالبان کو امریکہ اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کیلئے آمادہ کرے۔ اس خط اور اسلام آباد میں پاکستانی حکام کے ساتھ زلمے خلیل زاد کی بات چیت کے بعد دبئی میں افغان مذاکرات کا دور ہوا تھا جس میں امریکہ اور طالبان کے علاوہ پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وفود نے بھی شرکت کی تھی۔ ایک طویل جنگ کے بعد امریکہ کو احساس ہوگیا ہے کہ کابل میں طالبان کی شراکت داری کے بنا امن قائم نہیں ہوسکتا۔

ٹرمپ کے طنزیہ ریمارکس میں ہندوستان کیلئے ایک وارننگ بھی چھپی تھی کہ اس امن مساعی میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائیگی۔ امریکی صدر کسی بھی طرح افغانستان کی دلدل سے فوج کو نکال کر اگلے سال کے صدارتی انتخابات میں اسکو اپنی حصولیابیو ں میں شامل کروانا چاہتے ہیں۔ تقریباً تین دہائیوں تک ہندوستان میں مختلف سفارتی عہدوں پر فائز ایم کے بھدر کمار کے مطابق پاکستان کو دوبارہ ایک اسٹریٹجک رول فراہم کرنے سے ہندوستانی وزار ت خارجہ کے وہ خواب چکنا چور ہوگئے ہیں، جس میں وہ پاکستان کو الگ تھلگ کرنے اور چین کو گھیرنے کی پیش بندی کرنے کیلئے جاپان، آسٹریلیا اور امریکہ کو لیکر ایک چو فریقی الائنس بنانے کے فراق میں تھا۔

امریکہ کو احساس ہوگیا ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں امن قائم کرنے کی کئی بھی کوشش رائیگان ہوجائیگی۔ بھدر کمار کے مطابق امریکہ اب مودی کو لیکر بھی تذبذب کی کیفیت میں ہے اور ان کے تجزیوں کے مطابق اب وہ شاید دوبارہ برسراقتدار نہیں آئیں گے۔ ہندوستان کی اب پہلی ترجیح افغانستان میں اپنے مفادات کا دفاع اور سرمایہ کاری کی حفاظت کروانا ہے۔ اندازہ کہ قیام امن کے بعد جب ایران، پاکستان اور روس کے ساتھ روابط استوار ہو جائینگے، ان پروجکیٹس کی اقتصادی اہلیت پر سوالیہ نشان لگ جائیں گے۔ سب سے زیادہ اثر ایران میں چاہ بہار بندر گاہ کی سرمایہ کاری پر پڑے گا۔

اس لئے نومبر میں ماسکو میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات میں شرکت کیلئے ہندوستان نے دو سابق سفارت کاروں ٹی سی اے راگھون اور امر سنہا کو بطور آبزرور سن گن لینے کیلئے بھیجا۔ 1999میں قندھار میں ہندوستانی طیارہ کی ہائی جیکنگ کے واقعے کے بعد پہلی بار طالبان وفد اور ہندوستانی سفارت کار ایک جگہ جمع تھے۔ واپسی پر ہندوستانی وفد کا مشاہدہ تھا کہ طالبان امریکی افواج کی واپسی کے سلسلے میں خاصا پر اعتماد تھے، جس سے دونوں زیر ک سفارت کار خاصے حیران و پریشان تھے اور ان کے مطابق پردے کے پیچھے شاید اور بھی کچھ جاری ہے ، جو ابھی تک منظر عام پر نہیں آیا ہے۔

پچھلے سال اکتوبر میں قندھار کے پولیس سربراہ عبد الرزاق کی ہلاکت کے ساتھ یہ خبربھی آئی تھی کہ اس حملہ میں امریکی جنرل اسکارٹ ملر بال بال بچ گئے تھے، مگر اب بتایا جاتا ہے کہ ان کو جان بوجھ کر طالبان حملہ آورں نے فرار کا راستہ دیا تھا۔ وہ صرف امریکہ کو پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ ان کے مستقر اور ان کے کمانڈروں پر ہاتھ ڈال سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر وہ اسکارٹ ملر کو ہلاک کرتے تو یہ امریکہ کہ اناً کا مسئلہ بنتا۔ ذرائع کے مطابق دوحہ اور دوبئی میں امریکیوں کا اصرار تھا کہ ان کو ایک یا دو مستقر رکھنے کی اجازت دی جائے، مگر طالبان مستقر تو دور کی بات ، کوئی غیر ملکی فوجی چوکی بھی افغانستان کی سرزمین پر رکھنے کے روادار نہیں ہیں۔ ہنری کسنجر نے ویت نام کیلئے کہا تھا کہ فتح کا اعلان کرکے فرار ہوجاؤ۔ مگر افغانستان میں شاید یہ لکزری بھی امریکہ کو حاصل نہیں ہوگی۔