خبریں

حکومت کے اعلیٰ محکموں میں طےشدہ حدود سے کافی کم ہے ریزرو طبقے کی نمائندگی

آر ٹی آئی کے تحت ملی جانکاری کے مطابق 40 مرکزی یونیورسٹیوں میں او بی سی ریزرویشن کے تحت تقرر کیے جانے والے پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر کی تعداد زیرو، اسسٹنٹ پروفیسر کی سطح پر او بی سی طبقے کی نمائندگی تقریباً آدھی۔

(علامتی فوٹو : رائٹرس)

(علامتی فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: مرکزی حکومت نے حالیہ آئینی ترمیم کے ذریعے غریب اشرافیہ کے ان لوگوں کے لئے 10 فیصد ریزرویشن کا انتظام کر دیا جن کو موجودہ ریزرویشن  کا فائدہ نہیں مل رہا تھا۔ وہیں دوسری طرف، انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ سے یہ جانکاری سامنے آئی ہے کہ مرکزی یونیورسٹیوں کے ساتھ حکومت کے اعلیٰ محکمہ جات میں گروپ-اے اور گروپ-بی اور زیادہ تر اداروں میں ایس سی ایس ٹی اور خاص کر او بی سی کی نمائندگی کم ہے۔

 معلوم ہو کہ سرکاری عہدوں میں ایس سی کے لئے 15 فیصد، ایس ٹی کے لئے 7.5 فیصد اور او بی سی کے لئے 27 فیصد ریزرویشن کا انتظام ہے۔ آر ٹی آئی درخواست کے تحت حاصل کی گئی جانکاری کے مطابق 40 مرکزی یونیورسٹیوں میں اسسٹنٹ پروفیسر کی سطح پر طےشدہ حدود کے مقابلے میں او بی سی طبقے کی نمائندگی تقریباً آدھی (14.38 فیصد) ہے۔ اس کے علاوہ یہ جانکاری بھی سامنے آئی ہے کہ او بی سی کے لئے ریزرویشن کا انتظام صرف اسسٹنٹ پروفیسر کی سطح پر ہی ہے۔

او بی سی ریزرویشن کے تحت تقرر ہونے والے پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر کی تعداد زیرو ہے۔ آر ٹی آئی کے تحت ملے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 15.2 فیصد پروفیسر، 12.9 فیصد ایسوسی ایٹ پروفیسر اور 66.27 فیصد اسسٹنٹ  پروفیسر جنرل کٹیگری  کے ہیں۔ اس میں ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی طبقے کے وہ لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں جنہوں نے ریزرویشن کا فائدہ نہیں لیا ہے۔

اسی طرح مرکزی یونیورسٹیوں میں کل 1125 پروفیسر ہیں، جن میں ایس سی پروفیسروں کی تعداد محض 39 (3.47 فیصد) ہے، وہیں ایس ٹی پروفیسروں کی تعداد صرف (0.7 فیصد) ہے۔ اسی طرح اگر اسسٹنٹ پروفیسروں کی بات کریں تو 7741 میں سے 939 (12.02 فیصد) ایس سی، 423 (5.46 فیصد) ایس سی اور 1113 (14.38 فیصد) او بی سی ہیں۔

ریزرویشن کی بنیاد پر طےشدہ حدود سے کم نمائندگی کا معاملہ صرف ٹیچرس کے ساتھ ہی نہیں ہے بلکہ نان ٹیچنگ اسٹاف  میں بھی ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان‎ میں ایس سی کی تعداد صرف 8.96 فیصد، ایس ٹی کی تعداد 4.25 فیصد اور او بی سی کی تعداد 10.17 ہے۔ جبکہ جنرل کٹیگری  کے لوگوں کی تعداد 76.14 فیصد ہے۔

اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ ایم ایچ آر ڈی، اس سے منسلک اور اس کے ماتحت دفتروں میں گروپ اے اور گروپ بی کے کل 665 افسر ہیں۔ ان میں سے 440 (66.17 فیصد) جنرل کٹیگری  کے ہیں جبکہ 126 (18.14 فیصد) ایس سی، 43 (6.47 فیصد) ایس ٹی اور صرف 56 (8.42 فیصد) او بی سی طبقے کے ہیں۔ وہیں ڈی او پی ٹی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گروپ-اے اور گروپ-بی میں ریزرو طبقے کی نمائندگی بہت کم ہے۔

مرکزی حکومت کے دیگر محکموں  کی بات کریں تو ملک کا سب سے بڑا روزگار دینے والا مانا جانے والے ریلوے کے گروپ-اے اور گروپ-بی میں او بی سی کی نمائندگی بہت خراب ہے۔ اعداد و شمار سے پتا چلا ہے کہ گروپ اے اور گروپ بی کے 16381 افسروں میں سے صرف 1311 (8.05 فیصد) او بی سی طبقے کے ہیں۔

ساتویں پے کمیشن  کی رپورٹ کے مطابق، مرکزی حکومت کے تحت 33.02 لاکھ لوگ کام کر رہے  ہیں جن میں گروپ بی میں 8 فیصد اور گروپ اے میں 3 فیصد کی گراوٹ آئی ہے۔ آر ٹی آئی کے تحت مانگی گئی جانکاری میں یو جی سی نے مرکزی یونیورسٹیوں کے لئے 1 اپریل، 2018 تک کے اعداد و شمار، ایم ایچ آر ڈی نے اپنے ملازمین کے 1 جنوری، 2018 تک کے اعداد و شمار، ریلوے نے 1 جنوری،2017 تک کے اعداد وشمار اور ڈی اوپی ٹی نے سرکاری محکموں کے لیے سال 2015 تک کے اعداد و شمار مہیا کرائے ہیں۔