فکر و نظر

مودی حکومت نےکیا اعتراف؛ ہمارے پاس روزگار میں اضافہ کا نہیں ہے کوئی اعداد و شمار

بی جے پی رہنما مرلی منوہر جوشی کی صدارت والی پارلیامانی کمیٹی کے سامنے مودی حکومت نوکریوں سے متعلق کوئی حقیقی اور قابل اعتماد اعداد و شمار نہیں پیش کر پائی ہے۔ یہ رپورٹ 2019 کے لوک سبھا انتخاب سے کچھ مہینے پہلے ایوان میں پیش کی جائے‌گی۔

ارون جیٹلی، نریندر مودی اور مرلی منوہر جوشی (فوٹو : پی ٹی آئی)

ارون جیٹلی، نریندر مودی اور مرلی منوہر جوشی (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: نریندر مودی حکومت نے ایک پارلیامانی کمیٹی کے سامنے قبول کیا ہے کہ ان کے پاس 2014 کے بعد سے نئی نوکریوں کی تعداد کا کوئی اصل اعداد و شمار نہیں ہے۔ پچھلے 6 مہینوں سے مرکزی حکومت کی جی ڈی پی کے اضافہ پر Estimates committee (ای سی)کے ساتھ لمبے وقت تک ٹکراؤ چلتا رہا۔ بی جے پی کے رہنما مرلی منوہر جوشی اس کمیٹی کے صدر ہیں۔

 بی جے پی اور پارلیامانی کمیٹی کے کچھ ممبر کئی مدعوں پرمتفق نہیں  ہیں، جس میں یہ بھی شامل ہے کہ ہندوستان میں روزگار کو ماپنے کے لئے قابل اعتماد نظام کی کمی ہے۔ ذرائع کے مطابق، مرلی منوہر جوشی اب لوک سبھا میں رپورٹ پیش کریں‌گے۔ پہلی بار، کمیٹی کے تین بی جے پی ممبروں نے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اعتراض نامہ  دیا ہے۔

حکومت کے ذریعے واضح طور پر اشارہ دیے جانے پر، کچھ بی جے پی ممبروں نے دلیل دی کہ کمیٹی کے نتائج  نوکری میں اضافہ کی حقیقت سے میل نہیں کھاتے ہیں۔ پچھلے سالوں میں وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی  کابینہ کے کئی سینئر وزراء نے دلیل دی ہے کہ کرنسی لون کی بڑھتی تعداد اور ای پی ایف او کے ساتھ نئے رجسٹریشن  بتاتے  ہیں کہ نوکریوں میں اضافہ ہوا ہے۔

پارلیامانی کمیٹی نے حالانکہ روایتی طور پر روزگار ڈیٹا جمع کرنے کے طریقوں کو سختی سے منظور  کیا ہے۔ اس میں نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن  (این ایس ایس او) کے اعداد و شمار کو شامل کیا گیا ہے۔ حکومت نے خود مانا ہے کہ12-2011 کے بعد کوئی این ایس ایس او اعداد و شمار نہیں ہے۔ این ایس ایس او سروے ہر پانچ سال میں کرائے جاتے ہیں اور نیا نتیجہ حکومت کے ذریعے 2018 کے آخر تک  جاری کرنے کا وعدہ کرنے کے باوجود تاخیر ہو گئی ہے۔

عبوری  طور پر سال 17-2016 میں آل انڈیا اینول لیبر بیورو کے سروے ہوئے تھے، جس کو حکومت نے آفیشیل  طور پر جاری نہیں کرنے کا فیصلہ لیا۔ حکومت نے اس سروے کو ہی بند کر دیا۔ حالانکہ میڈیا میں اس سروے کی کچھ جانکاری لیک ہو گئی تھی جس سے پتا چلتاہے کہ17- 2016 میں بےروزگاری چار سال کی اعلیٰ سطح پر تھی۔

چونکہ یہ سروے آفیشیل  طور پر مودی حکومت کے ذریعے عام نہیں کیا گیا ہے اس لئے مزدور محکمہ نے اس کو پارلیامانی کمیٹی کے ساتھ شیئر  نہیں کیا۔ اس لئے کمیٹی کے چیئر مین ایم ایم جوشی نے نتیجہ نکالا ہے کہ12- 2011 کے این ایس ایس او سروے کے بعد ہندوستان میں روزگار کا کوئی اعداد و شمار نہیں ہے۔

فنانس  سکریٹری، Chief statistician، بینکنگ سکریٹری، لیبر سکریٹری اور آر بی آئی کے سابق گورنر ارجت پٹیل سمیت اعلیٰ افسروں کے ذریعے لکھے گئے کئی خطوط میں مودی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے پاس سال 12 -2011 کے این ایس ایس او سروے کو چھوڑ‌کر نوکری یا روزگار پر کوئی حقیقی اعداد و شمار نہیں ہے۔

کمیٹی میں تین بی جے پی رکن پارلیامان،راجیو پرتاپ روڈی (جنہوں نے کسی بھی میٹنگ  میں حصہ نہیں لیا)، نشی کانت دوبے اور رمیش بدھری نے پچھلے ہفتے عدم اتفاق کرتے ہوئے اعتراض نامہ دیا اور کہا کہ ایسٹی میٹس کمیٹی کے نتائج  اور حقیقی نوکری کے اعداد و شمار میں میل نہیں ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ میں کسی بھی ممکنہ نقصان کو کم کرنے کی کوشش کرنے کے لئے پارٹی اور حکومت کا طریقہ ہو سکتا ہے۔

 2019 کے لوک سبھا انتخابات شروع ہونے کے کچھ مہینے پہلے ہی ایوان میں یہ رپورٹ پیش کی جائے‌گی۔ ایسٹی میٹس کمیٹی کی رپورٹ عام طور پر تمام ممبروں کے درمیان عام رضامندی سے تیار کی جاتی ہے۔ حالانکہ، اس معاملے میں، مرلی منوہر جوشی نے رپورٹ میں بی جے پی رکن پارلیامان کے تینوں خطوط کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جوشی نے روزگار پیدا کرنے کے لیے ای پی ایف او کا اعداد و شمار استعمال کرنے کی مودی حکومت کی سفارش کو قبول کرنے سے منع کر دیا تھا۔