خبریں

چھتیس گڑھ: ڈھائی سال میں تقریباً 3 ہزار خواتین گھریلو تشدد کی شکار

نربھیا فنڈ کے تحت بنی وومین  ہیلپ لائن پر آئی شکایتوں سے پتا چلا ہے کہ 25 جون 2016 سے 17 جنوری 2019 کے بیچ  کل 5197 خواتین نے اس ہیلپ لائن میں اپنی شکایت درج کرائی، جن میں سب سے زیادہ 2803 معاملے گھریلو تشدد کے ہیں۔

(علامتی فوٹو : رائٹرس)

(علامتی فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: چھتیس گڑھ میں پچھلے ڈھائی سال میں تقریباً تین ہزار خواتین گھریلو تشدد کی شکار ہوئیں اور پانچ ہزار سے زیادہ خواتین نے ہیلپ لائن کے ذریعے مدد مانگی۔ یہ سبھی  اب نربھیا فنڈ سے بنی وومین  ہیلپ لائن (181) کے ذریعے اپنی لڑائی لڑ رہی ہیں۔ حالانکہ ایسی خواتین کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے جو مائیکے اور سسرال کی بدنامی کے ڈر سے سارے ظلم چپ چاپ سہتی رہتی ہیں۔

وومین  ہیلپ لائن کی  مینجر منیشا تیواری بتاتی ہے کہ بحران میں پھنسی خواتین کی مدد کے لئے مرکزی حکومت نے وومین  ہیلپ لائن کی شروعات نربھیا فنڈ سے کی ہے۔ یہ شکایت درج کرنے کے ساتھ ہی خواتین کو قانونی مدد بھی مہیا کراتی ہے۔ وومین  ہیلپ لائن (181) کے دفتر میں آئیں رائے پور کی رہنے والی 28 سالہ جیوتی پاٹھک (بدلا ہوا نام) کی کہانی بہت تکلیف دہ ہے۔

 ان کے گلے اور ہاتھ پر جلنے کے نشان ہیں۔ اپنی کہانی بتاتے ہوئے ان کا گلا رندھ گیا اور وہ رہ رہ‌کر اپنے آنسو پوچھتی رہیں۔ جیوتی  نے بتایا کہ 2012 میں مدھیہ پردیش کے ریوا شہر میں ان کی شادی ہوئی۔ ان کے والد کا انتقال ہو چکا تھا اور ماں نے جیسےتیسے جمع کئے سات لاکھ روپے جیوتی کے سسرال والوں کو جہیز کے طور پر دے دئے، لیکن شادی کے کچھ دن بعد ہی سسرال میں جہیز کو لےکر مارپیٹ اور ذہنی استحصال کا دور شروع ہو گیا۔

وہ روتے ہوئے بتاتی ہیں کہ پہلی بار حاملہ ہوئیں تو اس کا اسقاط حمل کروا دیا گیا کیونکہ اس کے حمل میں بیٹی تھی۔ دوسری بار بھی ان کی بچی کو حمل میں مارنے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ رائے پور آ گئیں اور بچی کو جنم دیا۔ بیٹی کو لےکر وہ واپس اپنے سسرال گئیں تو کچھ دن بعد پھر سے ظلم کا وہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ جیسےتیسے شادی کو چار سال گزر گئے، لیکن حالات سدھرنے کے  بجائے بگڑتے ہی رہے۔

 وہ جون 2016 کے اس واقعہ کو یاد کرکے آج بھی کانپ جاتی ہیں جب ساس، سسر، شوہر اور نند سے ان کا جھگڑا ہوا اور غصے میں شوہر نے ان کو تیزاب سے جلا دیا۔ تیزاب سے جیوتی کے گردن اور جسم کا بایاں حصہ بری طرح سے جھلس گیا۔ اس کے بعد ان کو جلاکر مارنے کی کوشش کی گئی، لیکن چیخ پکار سے ڈر‌کر انہوں نے اپنے ارادے ٹال دئے اور کسی کو کچھ بھی بتانے پر بچی کو جان سے مارنے کی دھمکی دےکر اسپتال  میں بھرتی کرا دیا۔

کچھ مہینے اسپتال میں رہنے کے بعد جیوتی بچی کو لےکر رائے پور اپنے مائیکے آ گئیں اور اب سسرال والوں کے ظلم کے خلاف لڑ رہی ہے۔ انامکا (بدل ہوا نام) کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ ان کے جسم پر بھلے زخم کے نشان نہیں ہیں، لیکن ان کے سسرال والوں کے ظلم سے ان کا پورا وجود زخمی ہے۔ غریب والد نے اپنی حیثیت کے مطابق انامکا کی شادی رائے پور میں کر دی تھی۔

شادی کے بعد سے ہی جہیز  کے لیے ظلم و ستم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ انامکا کو شوہر نے گھر سے نکال دیا ہے اور وہ دو سال کی بیٹی کے ساتھ اپنے مزدور والد کے چھوٹے سے مکان میں رہ رہی ہیں اور اپنے حق کی لڑائی لڑ رہی ہے۔ جیوتی اور انامکا تو دو نام بھر ہیں۔ ایسی 2803 خواتین ہیں جن کے اپنوں نے ہی ان کا استحصال کیا۔ یہ خواتین اب نربھیا فنڈ سے بنی وومین  ہیلپ لائن (181) کے ذریعے اپنی لڑائی لڑ رہی ہیں۔

اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو 25 جون 2016 سے 17 جنوری 2019 کے درمیان کل 5197 خواتین نے اس ہیلپ لائن میں اپنی شکایت درج کرائی، جن میں سب سے زیادہ 2803 معاملے گھریلو تشدد کے ہیں۔ ان میں جسمانی اور دماغی ظلم و ستم کے ساتھ ہی جنسی  ظلم و ستم اور ریپ  کی کوشش جیسے جرائم کی بھی شکایت کی گئی۔

وومین  ہیلپ لائن کی مینجر  منیشا تیواری کا الزام ہے کہ گھریلو ظلم و ستم کے معاملوں میں پولیس کا رویہ زیادہ تر مایوس کن رہتا ہے۔ ایسے معاملوں میں ملزمین کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے خواتین کو ہی سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ گھریلو تشدد کے معاملوں میں کارروائی کے دوران پولیس ضروری قوانین پر عمل نہیں کرتی اور ایسے میں زیادہ تر خواتین ہار مان جاتی ہیں۔

گھریلو تشدد اور خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد سے متاثرین  خواتین کو قانونی مدد دے رہی وکیل اچلا شریواستو بتاتی ہیں کہ زیادہ تر معاملوں میں خواتین کے صبروتحمل اور اپنی فیملی کو بدنامی سے بچانے کی مجبوری ان کے خلاف جاتی ہے۔ کئی معاملوں میں مائیکے کے لوگ بھی اپنی بیٹی کو گھر بچانے کی صلاح دیتے ہیں۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)